محمد عمر فراہی
برصغیر کی پہلی اعلی تعلیم یافتہ خاتون عطیہ فیضی کا نام ادب اور فلسفے کی دنیا میں بہت ہی احترام سے لیا جاتا ہے ۔یہ وہ پہلی مسلم خاتون ہیں جنھوں نے کیمبرج یونیورسٹی لندن تک تعلیم کیلئے رسائی حاصل کی ۔انہیں بیک وقت عربی فارسی انگلش اور ترکی زبان پر عبور حاصل تھا ۔عطیہ کی پیدائش سن 1877 میں ترکی کی راجدھانی استنبول میں ایک سلیمانی بوہرہ خاندان میں ہوئی تھی ۔ان کے والد حسن علی فیض حیدر ترک حکومت میں عدالت کے کسی اہم عہدے پر فائیز تھے ۔ ان کا خاندان بنیادی طور پر ممبئی میں کپڑے کی تجارت سے وابستہ تھا ۔
عطیہ فیضی کے بارے میں لکھنے کی تحریک ہمیں ایک ایسے مضمون کی وجہ سے ہوئی جس میں مضمون نگار نے بہت گھٹیا طریقے سے ان کے تعلق کو علامہ اقبال اور علامہ شبلی سے جوڑا ہے اور لکھا ہے کہ :
"ایک ہی عورت بیک وقت مولانا شبلی نعمانی اور علامہ اقبال کی محبوبہ تھی…. عطیہ فیضی…. وہ ان میں سے کسی کے بھی ہاتھ نہ آئی. دونوں کے ساتھ ٹائم پاس کرتی رہی اور جب فیصلہ کرنے کا وقت آیا تو ایک یہودی نژاد (بعد میں مسلمان ہوجانے کا بھی ذکر ملتا ہے) کے ساتھ شادی کر کے بیرون ملک جا بسی..شبلی اس کے غم میں نڈھال ہو گئے اور اقبال اس کی بے وفائی پر شکوہ کناں رہے..شبلی محقق تھے اور اقبال مفکر تھے… اس کے باوجود وہ دونوں ہی ایک عورت کو اپنا نہ بنا سکے۔.محبت کی اس ناکامی کے سبب نہ تو علمی حلقوں میں شبلی کا قد چھوٹا ہوا اور نہ ہی اقبال کے نام پر کوئی داغ لگا. تاریخ ایسی عورتوں کے نام یاد رکھتی ہے، کردار یاد رکھتی ہے اور پڑھنے والوں کو سکھاتی ہے کہ…. عورتوں کے چکر میں مت پڑو…بیٹا‘‘۔
ہمارے دور میں ترقی پسندوں کے ادب کا ایک معیار اور مزاج یہ بھی ہے کہ وہ خود تو فحاشی کو فروغ دینے میں گردن تک ڈوبے ہوئے ہیں لیکن وہ اپنی اسلام دشمنی میں اسلام پسند مصنفین کے کردار کو داغدار کرنے کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عطیہ فیضی کا تعلق نہ صرف علامہ اقبال اور علامہ شبلی سے تھا وہ ایک ایسی اعلی تعلیم یافتہ خاتون اور اپنے وقت کا مشہور چہرہ تھیں کہ اس وقت کی ساری عبقری شخصیات عطیہ فیضی سے متعارف تھیں ۔یہ ان کی شہرت اور تعلیم ہی تھی کہ جب پاکستان قائم ہوا تو محمد علی جناح کی دعوت پر وہ اپنے شوہر سموئیل رحمان جو کرشچین سے مسلمان ہو گئے تھے ان کے ساتھ پاکستان منتقل ہو گئیں ۔اب کیا کہا جاۓ کہ عطیہ فیضی کا جناح سے بھی معاشقہ تھا ۔عطیہ فیضی نہ صرف ایک اچھی مصور تھیں انہیں تاریخ اور فلسفہ پر بھی عبور حاصل تھا ۔علامہ شبلی اور ان کی عمر میں بیس سال کا فرق تھا اور جس وقت وہ اپنی جوانی میں علامہ شبلی کے رابطے میں آئیں اس وقت ان کی عمر کے شبلی کے بیٹے اور بیٹیاں تھیں ۔اس کے باوجود کہا جاسکتا ہے کہ عشق ہو سکتا ہے لیکن یہ بات غلط ہے ۔یہ وہ دور تھا جب تعلیم یافتہ شخصیات اپنے سے زیادہ تعلیم یافتہ شخصیات کی رہنمائی کی حریص ہوتی تھیں ۔چونکہ علامہ شبلی اپنے دور میں تاریخ کے استاد کہے جاتے ہیں اور عطیہ فیضی کا عنوان بھی تاریخ رہا ہے اس لئے رہنمائی کیلئے خط و کتابت کے سلسلے سے نہ تو شبلی نے انکار کیا اور نہ ہی عطیہ نے ۔اس تعلق کو عاشق اور محبوب میں تبدیل کردینا شرپسندانہ حرکت ہے ۔ہاں علامہ اقبال کے تعلق سے کہا جاسکتا ہے کہ ہو سکتا ہے دونوں میں ایسی کوئی بات رہی ہو اور وہ اس کا اظہار نہ کر سکے ہوں ۔جیسا کہ دونوں کی عمر ایک ہی تھی اور دونوں کی ملاقات کیمبرج میں اس وقت ہوئی جب علامہ نے پی ایچ ڈی کیلئے کیمبرج میں داخلہ لیا تھا اور علامہ نے لاء کی ڈگری بھی لندن سے ہی لی تھی ۔چونکہ دونوں کا تعلق برصغیر کے مسلم خاندان سے تھا اور عطیہ اس یونیورسٹی میں پہلی مسلم خاتون تھیں اس لئے اقبال کا ہم وطن اور اہل زبان ہونے کی وجہ سے ان کے رابطے میں آنا بھی فطری بات تھی ۔لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ علامہ اس وقت شادی شدہ تھے ۔ممکن ہے دونوں کے اندر ایسے کوئی محبت کے جذبات رہے ہوں تو اس میں برائی کیا ہے ۔اقبال اور عطیہ کے درمیان جو خطوط کے ذریعے گفتگو ہوئی ہے وہ بھی کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں ۔اگر دونوں کی نیت میں فتور ہوتا تو یہ خطوط منظر عام پر ہی کیوں آتے ۔ویسے جب دونوں کالج کے ماحول میں بے پردہ مل سکتے تھے اور یہ بھی آتا ہے کہ علامہ نے عطیہ کو کھانے کی دعوت پر بھی مدعو کیا تھا اور ممکن ہے کہ ان کی اور بھی ملاقاتیں بھی ہوتی رہی ہوں تو یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو محبت کی نظر سے بھی دیکھتے رہے ہوں مگر حالات نے دونوں کا ساتھ نہ دیا ہو کہ وہ شادی کے بندھن میں بندھ جاتے !۔
یہ بھی پرھیں:
عطیہ خوبصورت تعلیم یافتہ جوان اور دولت مند اور خاندانی بھی تھیں اس لئے کہیں نہ کہیں ان کے سامنے ایک شادی شدہ شخص کے نکاح میں آنے سے بہتر متبادل بھی موجود تھا۔اور پھر جب دونوں کی اپنے اپنے وطن واپسی ہوئی ہوگی تو ممبئی سے لاہور کے درمیان رابطے کیلئے فاصلہ بھی تو کم نہیں تھا۔اس درمیان حالات بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔عطیہ فیضی جیسا کہ ہم نے اوپر لکھا ہے ایک سلیمانی بوہرہ روشن خیال خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ان کے یہاں اسلام صرف ایک رسم و رواج تک ہی محدود ہوتا ہے اور ان خاندانوں میں شادی کیلئے مذہب اور ذات برادری سے زیادہ دل اور خواہشات کے فیصلے کو ترجیح دی جاتی ہے ۔جیسا کہ محمد علی جناح کی اپنی شادی اور ان کی بیٹی کی شادی کچھ ایسے ہی حادثوں کا شکار ہوئی۔اندرآ گاندھی نے ایک پارسی نوجوان سے شادی کی ۔عطیہ فیضی کو پونہ کے ایک کرشچین نوجوان سے محبت ہو گئی جو ایک بہتریں مصور تھے اور وہ عطیہ سے شادی کے بعد مسلمان ہو گئے ۔
بٹوارے کے بعد محمد علی جناح کی دعوت پر دونوں پاکستان منتقل ہو گئے تاکہ وہ اس نئے ملک کی ترقی میں اپنی صلاحیت کی قربانی دے سکیں ۔اس وقت کی حکومت نے انہیں پاکستان میں کراچی کارپوریشن کی طرف سے ایک زمین مہیا کروائی جہاں تیس لاکھ روپیہ خرچ کرکے دونوں میاں بیوی نے اپنی رہائش اور ایک شاندار لائیبریری کی تعمیر کی لیکن ایوب حکومت کے مارشل لاء کے دور میں ان کی بے باکی اور حق گوئی کی وجہ سے یہ جگہ جبرا ان سے خالی کروا کر بلڈوزر چلوا دیا گیا ۔آخری وقت میں ان کی زندگی اتنی غربت اور کسمپرسی کے حالات میں گزری کہ عطیہ فیضی کو نہ صرف اپنی paintings اور تخلیقات کو جو کسی عجائب گھر میں رکھنے کی لائق تھیں بیچ کر خرچ پورا کرنا پڑا روز مرہ کے اخراجات کے لئے پچاس پچاس روپئے تک قرض لینے پر مجبور ہونا پڑا ۔ بالآخر انہیں حالات میں وہ 1967 کو اس دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔ایک تاجر پیشہ خاندان سے تعلق رکھنے والی اعلی تعلیم یافتہ خاتون جو ممبئی میں اچھی زندگی گزار سکتی تھی اس نے پاکستان کے لئے جو قربانیاں دیں اس کی عزت کو اچھالنے والے بدمعاش اور کمینے قسم کے لوگ ہی ہو سکتے ہیں ۔