مــحــمَّــد قمــرالـــزَّماں نــــدوی / مـدرسـه نـــور الاســلام کنــڈہ پـرتاپــگــڑھ
انسانی نفس میں اللہ تعالیٰ نے رشد و ہدایت ،زہد و تقویٰ اور خیر و بھلائی بھی رکھا ہے اور فسق و فجور بھی، انسان کے نفس میں وہ صلاحیت بھی رکھی ہے، جو اس کو حق اور سچائی کو قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور کچھ ایسی کمیاں، خامیاں اور کمزوریاں بھی اس کی فطرت کا حصہ ہیں، جو اس میں خیر و بھلائی اور رشد و ہدایت کے حصول کے لئے مانع اور رکاوٹ بن سکتی ہیں اور بنتی ہیں۔ ان موانع اور ان عوارض کی پوری فہرست ہے، جو انسان کی فطرت کا حصہ ہیں۔ نفس کی یہ بیماری اور عوارض کسی میں کم اور کسی میں زیادہ پائے جاتے ہیں، کسی میں نفس کی بیماری زیادہ غالب آجاتی ہے، تو کسی میں دوسری روحانی بیماری زیادہ غالب آجاتی ہے۔
قرآن مجید نے نفس انسانی پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت سے امراض اور موانع کو بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر انسان حق کا انکار کرتا ہے یا حق ملنے کے بعد اس سے منحرف ہوتا ہے، تو اس کی بنیادی وجہ انسانی نفس کے اندر آنے والی کوئی آلائش یا نفس کا کوئی بگاڑ یا نفس کی کوئی بے اعتدالی ہوتی ہے، اسی سے مغلوب ہوکر انسان حق،سچائی اور راستی کا راستہ چھوڑ دیتا ہے، اور وہ راستہ اختیار کر لیتا ہے، جو اس خاص کیفیت میں نفس کو زیادہ پسند ہے۔ اس کیفیت سے اگر انسان کو الگ کر دیا جائے اور یہ کیفیت دور کر دی جائے تو وہی نفس قبول حق کے لیے تیار ہو جائے گا۔
قرآن مجید کا ایک بڑا اعجاز اور ایک خاص عنایت ہدایت کے پہلو سے یہ ہے، کہ اس نے انسانی نفس کا ایک گہرا حقیقی تجزیہ ہمارے سامنے رکھا ہے کہ اگر انسان اس پر غور کرے اور اس سے رہنمائی حاصل کرے، تو وہ گمراہیوں، بے اعتدالیوں اور ضلالتوں سے بچ سکتا ہے۔۔ نفس کی بہت سی قسمیں ہیں، نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ، نفس مطمئنہ آخری مقام اور اسٹیج ہے اور یہ معراج انسانی کی دلیل اور نشانی ہے، یہ مقام بہت ہی محنت، تگ ودو ،جفاکشی جد و جہد اور مجاہدہ کے بعد انسان کو ملتا ہے۔ علماء کرام نے لکھا ہے کہ نفس مطمئنہ کا مقام اس شخص کو حاصل ہوتا ہے، جو آفاق و انفس اور کائنات میں خدا تعالٰی کی نشانیوں پر غور کرے۔ تاریخ کے واقعات سے عبرت و نصیحت ، وعظ و تذکیر اور درس حاصل کرکے ۔ جو اس بات کا ثبوت دے کہ جب اس کی ذات میں اور حق میں تصادم اور ٹکراؤ ہوگا وہ اپنی رائے اور نظریے کو نظر انداز کرے گا اور حق کو قبول کرلے گا۔ جو ایک بار حق کو مان لینے کے بعد پھر اس کوکبھی نہ چھوڑے، خواہ اس کی خاطر اسے اپنے آپ کو کچلنا پڑے دبانا پڑے اپنی انا کو فنا کرنا پڑے، اور خواہ اسکے نتیجہ میں اس کی زندگی ویران ہوجائے۔( تذکیر القرآن)
آج کے پیغام میں نفس انسانی اور اس کے مکر و فریب کے حوالے سے کچھ گفتگو کرتے ہیں اور اس کی شرارت سے بچنے کی کچھ تدبیریں بیان کرتے ہیں:
انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا اپنا نفس ہے، جو اس کے اندر گھسا بیٹھا رہتا ہے، یہی نفس اسے شرو فساد اور برائی کی طرف آمادہ کرتا ہے۔ اسی نفس کے تزکیہ اور راہ راست پر رکھنے کا کام انسان کے سپرد ہوا ہے۔۔۔ اگر انسان نفس کی خبر نہ لیں تو یہی نفس سرکش اور آوارہ ہوجاتا ہے۔ اگر آپ اسے اس کی شرارت پر ملامت کرتے رہیں، تو وہ نفس لوامہ بن جاتا ہے۔ اور راہ راست پر لانے کی کوشش جاری رہے، تو وہ دھیرے دھیرے نفس مطمئنہ بن جائے گا، اور پھر آب اللہ تعالیٰ کےان محبوب اور مقبول بندوں میں شامل ہوجائیں گے ، جو اللہ سے راضی ہوں اور اللہ ان سے راضی ہو۔۔۔۔۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے، اور اپنے نقائص اور کمیوں پر نظر رکھے اور اس کا اعتراف کرے۔۔ اپنے نفس کا تزکیہ اور محاسبہ وہی کرسکتا ہے، جس میں اپنے نقائص جاننے اور اعتراف کرنے کا حوصلہ ہو، اور اس کے ساتھ وہ اصلاح پسند ہو کہ اپنے نقائص اور کوتاہیوں کو دور کرنے، اور ان کی جگہ خوبیاں پیدا کرنے کی ٹڑپ رکھتا ہو۔۔ ایسے شخص سے امید اور توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کرنے کی جدوجہد کرے گا۔
انسان تھوڑی سی غفلت برتتا ہے تو انسان نفس کی گرفت میں آجاتا ہے۔۔ پھر اس کے سارے اعمال، کمال اور خوبیاں نفس کی خاطر ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جب نفس بے لگام ہوجاتا ہے، تو انسان فرعون و ہامان نمرود و شداد اور ہٹلر اور مسولینی بن جاتا ہے۔۔ پھر وہ جو کرتا ہے وہی اس کے نزدیک حق اور سچ ہوتا ہے، باقی سب غلط اور باطل قرار پاتا ہے۔
نفس ہی تو ہے جس نے روئے زمین پر قابیل سے ہابیل کا پہلا قتل کروایا تھا، یہ نفس ہی تو ہے، جس نے ابو جہل، ابو لہب، عتبہ، شیبہ اور ابی بن خلف کو جہنم کا ایندھن بنا دیا تھا۔۔ یہ نفس ہی تو ہے، جس نے مدینہ کے یہود کو ہدایت سے محروم رکھا تھا۔ یہ نفس ہی تو تھا کہ طائف والوں نے حق کی بات سننے سے انکار کر دیا اور آپ کو لہو لہان کر دیا تھا۔ یہ نفس جب زور پکڑ تا ہے، تو پھر مخالفت اور تردید کا ایک عجیب و غریب طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔۔ لیبل اور نشان دین کا لگایا جاتا ہے، لیکن حقیقتاً کرشمہ نفس کا ہوتا ہے۔۔ معرکہ میں بڑا کہ تو بڑا ہوتا ہے۔ معاملہ انا، نخوت ،تکبر اور اس کے تقاضوں کا ہوتا ہے۔۔ غرض یہ کہ ہدایت اور حق سے بھٹکنے کا سب سے بڑا ذریعہ خود انسان کا اپنا نفس ہوتا ہے۔
آج یہی نفس اور نفسانیت امت کی بے چینی اور پریشانی کا سبب ہے، یہی نفس امت کو پنپنے نہیں دے رہا ہے اور اس کو سر بازار رسوا و ذلیل کر رہا ہے۔ ایک امتی ہم ہیں جو اپنی نفسانیت اور ہوا و ہوس اور نفس کی خاطر امت کی شیبہ خراب کر رہے ہیں، اس کی رسوائی کی وجہ اور سبب بن رہے ہیں اور ایک امت کے فرد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے کہ جب ایک بار عین جنگ کی حالت میں معزول کر دیا گیا اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو ان کا قائد بنا دیا گیا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی بے نفسی دیکھیے کہ وہ ایک سپاہی کی حیثیت سے جنگ میں شریک ہوجاتے ہیں۔۔۔ اللہ اکبر یہ کیسا بے نفسی کا منظر ہے۔ یہ بے نفسی اسلام کا صدقہ تھی ورنہ کیا کوئی نفس کا اسیر اور نفس میں گرفتار ایک ہی وقت میں قائدانہ حیثیت کے مقابلے میں سپاہی کی حیثیت برداشت کرلے اور پھر عین جنگ کی حالت میں۔
حضرت سید احمد شہید رح فرمایا کرتے تھے:
اپنے عمل کے اخلاص کا ثبوت یہ ہے کہ اگر دین کے تعلق سے ہر شعبہ کے کام کرنے والوں کی احسان مندی دل میں ہے، تو سمجھنا چاہیے کہ اخلاص ہے۔۔ اگر احسان مندی کے بجائے رقابت ہے، یا یہ جذبہ ہے کہ یہ کام کیوں ہو رہا ہے، یا اس کا کام بند ہونا چاہیے، یا سب کچھ میں کر رہا ہو اور دوسرا کچھ نہیں کر رہا ہے، اگر ایسا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اخلاص نہیں ہے۔ اپنی نیت کی اصلاح کرے ورنہ کام بند کر دے۔۔ (نوائے ہادی فروری ۲۰۱۳ء )
اگر ہم مسلمان اس معیار پر اپنے اعمال کو جانچنے اور پرکھنے کی عادت بنا لیں۔تو ان شاء اللہ نفس کے سرکش گھوڑے کو لگام لگ جائے اور اہل دین کے جھگڑے اور نزاع ان شاء اللہ اپنی موت آپ مر جائیں۔۔ الھم الھمنی رشدی و اعذنی من شر نفسی۔( ترمذی شریف) اے اللہ مجھے میری سمجھ بوجھ الہام کر دے اور مجھے نفس کی برائی سے بچا۔ آمین یا رب العالمین