۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ نہیں​

از قلم: مسعود جاوید

سیکولرزم کی تعریف:

واضع نے سیکولرازم کی تعریف و تشریح کرتے وقت جو اصطلاح وضع کیا ہے وہ یہ ہے‌ کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا بایں معنیٰ کہ ریاست کسی مذہب کو فروغ دینے کا یا کسی مذہب کے منافی کام نہیں کرے گی‌۔‌ آسان لفظوں میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کیا جائے گا۔بادی النظر میں ہندوستان جیسے مختلف مذاہب اور متنوع ثقافتوں والے ملک کے لئے یہ بہت مناسب اصطلاح ہے اور مہذب دنیا کے بیشتر ممالک میں اسی نظریہ پر عملدرآمد ہوتا ہے۔تاہم آئین ہند کی اس اصطلاح کا ایک نقصان یہ ہے کہ تمام تر سماجی، تعلیمی، اقتصادی اور سیاسی پسماندگی کے باوجود ہم بحیثیت مذہبی گروہ/ مسلم کمیونٹی/ اپنے لیے ریزرویشن‌ کا مطالبہ نہیں کر سکتے !

 پیشے کے اعتبار سے پسماندہ سمجھی جانے والی برادریاں ریزرویشن سے مستفید ہوتی ہیں لیکن اب پیشہ کسی برادری کا خاصہ نہیں رہا اور نہ غیروں کی طرح کسی مخصوص پیشے سے وابستہ مسلمان کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ شاذ و نادر اگر ایسا کہیں ہوتا ہے تو وہ اکثریتی فرقہ کے ساتھ اختلاط، ان کے  رسم ورواج اور ان کے طبقاتی نظام سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہوتا ہے۔  (برادری کی تلاش عموماً شادی بیاہ کے وقت ہوتی ہے ایک نسل اور ہڈی سے ہڈی ملانے کی کوشش ہوتی ہے بڑے شہروں میں اب وہ بھی کم ہی ہوتا ہے اس لئے کہ  کفو  (سوشل اسٹیٹس) کا معیار  اور ترجیح نسل اور خاندان سے کہیں زیادہ اب لڑکا لڑکی کی تعلیم ، مکان ، ملازمت، تجارت، شکل و صورت اور قد کو دی جاتی ہے) 

مسلمانوں میں پسماندہ کون ہے ؟

دراصل خوشحالی اور تنگدستی کا تعلق انسان کی مالی حالت سے ہے نا کہ خاندانی پیشے سے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں مسلمانوں کا موازنہ دلتوں سے کیا گیا ہے اور کہا گیا کہ مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے اس سے مراد عام مسلمانوں کی حالت زار ہے نا کہ مسلمانوں کی مخصوص برادریوں کی حالت۔  اس لئے کہ مسلمانوں میں ایسا کوئی طبقاتی نظام نہیں ہے جس کی رو سے کہا جائے کہ فلاں فلاں برادری کے لوگ نسلی اور ذہنی طور پر کند ہوتے ہیں اس لئے ریزرویشن کے ذریعے تعلیم اور ملازمت میں انہیں ریزرویشن  دے کر اونچی ذات ‘اشراف’ کے برابر ہونے کا موقع دیا جائے۔ نام نہاد اونچی برادریوں کے بچے بھی بنیادی اور اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں اس کی وجہ نسلی ذہانت یا کند ذہنی نہیں آمدنی کی قلت اور معاشی پسماندگی ہوتی ہے۔ 

‘مذہب کے نام پر بھید بھاؤ نہیں’  کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر آپ ووٹ نہیں مانگ سکتے ۔ اصولاً مذہب ، علاقائیت اور برادری کے نام پر بھی ووٹ نہیں مانگنا چاہیۓ اس لئے کہ  کس امیدوار کو ووٹ کرنے کے لئے ہر شخص آزاد ہے دستور ہند نے اسے یہ آزادی دی ہے۔  یہ ہر شہری کا ذاتی معاملہ ہے اسے مذہب ، برادری یا علاقائیت کے نام پر یرغمال بنا کر یا دباؤ ڈال کر کسی پارٹی کے حق میں یا کسی پارٹی کے خلاف ووٹ کرنے کے لئے مجبور نہیں کر سکتے ہیں ۔ 

مذکورہ بالا قانونی شقوں کے باوجود انتخابی مہم کے دوران مذہب اور ذات برادری کے نام پر، راست یا بالواسطہ اشارہ کنایہ میں ، ووٹ مانگے جاتے ہیں۔ جس طرح مسلم کمیونٹی کے نام پر اصولاً ہم ریزرویشن یا سرکاری مراعات نہیں مانگ سکتے ہیں ، ” پسماندہ برادریوں” کے نام پر مراعات مانگ سکتے ہیں۔  اسی طرح انتخابی مہم کے دوران برادری کارڈ کا استعمال خوب ہوتا ہے۔ 

 آپ مذہب اور مذہبی گروہ کے نام پر نہ  ریزرویشن مانگ سکتے ہیں اور نہ ووٹ  مانگ سکتے ،لیکن اس دوران جو سب سے بڑا تضاد نظر آتا ہے وہ سیاسی لیڈروں کی باتیں اور ٹی وی اینکروں کا ڈیبیٹ ہے ۔ وہ ووٹوں کا تجزیہ کرتے وقت یہی کہتے ہیں کہ اس حلقہ انتخاب میں اتنے مسلم ووٹ ، اتنے یادو ووٹ، اتنے دلت ووٹ  اور اتنے برہمن ووٹ جو اس پارٹی کو مل سکتے ہیں!  اتنے "مسلم” ووٹ کیوں ؟ اتنے انصاری ووٹ، اتنے ملک ووٹ ، اتنے سیفی ووٹ اور اتنے منصوری ووٹ کیوں نہیں ؟ 

اگر مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ کی زبان درست نہیں ہے تو سیاست و صحافت میں "مسلم ووٹ” کی اصطلاح کس طرح درست ہے؟ اور اگر اس  اصطلاح کا استعمال درست ہے تو ” مسلمان ” کی بجائے” اقلیتوں ” کا استعمال کیوں ؟ 

پچھلے چند سالوں میں ملک کا ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی"مسلم مسائل” اور "مسلمانوں کے ساتھ زیادتی” جیسے الفاظ زبان پر لانے سے احتراز کرتی ہیں۔ اب مسلمانوں میں ایسا کوئی کاسٹ سسٹم تو ہے نہیں کہ دلت اتیاچار  کی طرح کسی مخصوص مسلم برادری کا نام لیا جائے۔ 

٢٠٢٤ الیکشن سر پر ہے اپوزیشن اتحاد کی سرگرمیاں تیز ہو رہی ہیں مسلمانوں کی بابت نیشنل سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ رہے گا کہ مسلم چھاپ والی سیاسی پارٹیوں کو اتحاد میں شامل کیا جائے یا نہیں؟ اگر اویسی اور اجمل قبول نہیں ہیں تو پارلیمنٹ و اسمبلیوں میں مسلم نمائندگی کے لئے مین اسٹریم سیکولر سیاسی پارٹیوں کے پاس کون سا میکانزم ہے ؟ 

اویسی صاحب کی پارٹی پر خالص مسلم سیاست کرنے کا الزام لگتا رہا ہے اور مجھے بھی ان کی پارٹی کے نام پر اعتراض ہے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کو وجود میں آئے 96 سال کا طویل عرصہ ہوا لیکن نہ یہ "آل انڈیا” بن پائی ( ٢ ممبر پارلیمنٹ اور ٧ ممبر اسمبلی)  اور نہ کل ہند مسلمانوں کے لئے ” اتحاد المسلمین” ! تو پھر ایسے نام کا کیا فائدہ سوائے مسلم پالیٹکس کا الزام لینے کے۔ 

مسلمان اپنی تنظیموں کا ایسا نام کیوں رکھتے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ خالص مسلمانوں کی تنظیم ہے صرف مسلمانوں کے مفادات کے لیے ہے قومی مسائل مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن وغیرہ سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے !  اخبارات ہوں، پولیٹیکل پارٹیز ہوں  یا این جی اوز ، عام نام یعنی کسی مخصوص مذہبی شناخت والے نام کے بغیر بھی کام کر سکتے ہیں اور کرنے والے کرتے بھی ہیں‌۔  این جی اوز خدمت خلق بلا تفریق مذہب کرتے ہیں، اخبارات بلا تفریق مذہب، برادری اور علاقہ ہر ایک کی آواز ہوتے ہیں اسی طرح سیاسی پارٹیاں بلا تفریق مذہب و برادری انتخابات میں حصہ لیتی ہیں مسلم و غیر مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہیں لیکن بعض سربراہان اسے خاندانی ورثہ کی شکل میں چلانا چاہتے ہیں اور  نام رکھتے ہیں اتحاد المسلمین، علما کونسل اور  مسلم مجلس ۔۔۔۔‌ وہ دور ختم ہو گیا جب ہندو مہاسبھا بمقابل مسلم لیگ میدان میں ہوتے تھے۔‌ آج کی مہذب دنیا مذہبی سیاست نہیں سیکولر سیاست ، ہر طبقہ کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اور inclusive society کو پسند کرتی ہے‌۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی، پر امن بقائے باہم peaceful coexistence  اسی کے ذریعہ ممکن ہے۔ 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: