مولانا مودودی اور علمائے دیوبند کے اختلافات
مولانا مودودی اور علمائے دیوبند کے اختلافات:کیا اختلافات کی درجہ بندی ہوسکتی ہے؟
ڈاکٹر محی الدین غازی
آج سے کچھ بیس سال پہلے کی بات ہے، اس وقت ماہنامہ رفیق منزل کی ادارت میرے ذمے تھی اور میں نے گجرات کے کچھ مدارس کا سفر کیا تھا۔ اسی سفر کے دوران جامعہ علوم القرآن جمبوسر کے مہتمم مولانا مفتی احمد دیولوی صاحب کے ساتھ ایک یادگار ملاقات رہی، مولانا بہت خوش اخلاق، متواضع مزاج اور ملت کے لیے درد مند دل رکھنے والے جلیل القدر عالم دین ہیں۔ رات کھانے کے بعد جامعہ کے پرسکون باغیچے میں مولانا کے ساتھ جماعت اسلامی کے حوالے سے طویل گفتگو ہوئی۔
گفتگو کے دوران میرے دل میں ایک طالب علمانہ خیال آیا اور میں نے مولانا کی خدمت میں پیش کیا: حضرت ! میں نے دار العلوم دیوبند میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی، وہاں رہتے ہوئے عام تاثر یہ بنتا ہے کہ مولانا مودودی سے علمائے دیوبند کو بہت زیادہ اختلافات ہیں، ان میں سے ہر اختلاف نہایت سنگین نوعیت کا ہے اور یہ اختلافات اتنے زیادہ اور اتنے سنگین ہیں کہ مولانا مودودی کو اہل سنت و الجماعت سے خارج ایک مستقل فرقہ باطلہ کا بانی قرار دیا جاتا ہے، جسے مودودیت کا نام دیا گیا ہے، گویا مولانا مودودی کا پورا راستہ ہی ایک الگ اور غلط راستہ ہے۔
کیا اس معاملے میں صحیح رویہ اختیار کرنے کے لیے ایسا نہیں ہوسکتا کہ ان اختلافات کی ایک فہرست بنائی جائے اور اس کے بعد ان اختلافات کی درجہ بندی کی جائے۔ اس درجہ بندی کے نتیجے میں ہوسکتا ہے کچھ باتیں ایسی سامنے آئیں جن میں خود علمائے دیوبند کا ایک گروہ مولانا مودودی کا ہم خیال ہو، کچھ باتیں ایسی بھی سامنے آئیں جن میں سلف صالحین میں سے بعض کی رائے سے مولانا مودودی کی رائے موافق ہو، کچھ باتیں ایسی بھی سامنے آئیں جن میں مولانا مودودی کی رائے کو پورے طور پر سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو ، کچھ باتیں ایسی ہوں جن میں مولانا مودودی کی رائے صحیح صورت میں علمائے دیوبند کے سامنے نہیں پہنچی ہو، کچھ باتیں ایسی بھی ہوں کہ جن میں مولانا مودودی کے پاس بھی قابل اعتبار دلائل ہوں۔ پھر ان اختلافات میں سے کچھ فروعی قسم کے ہوں گےاور ان میں سے کچھ میں اجتہاد کی گنجائش ہوگی۔ کچھ محض لفظی تسامحات ہوں جیسے تسامحات اکابر علما سے بھی ہوئے ہیں۔
غرض یہ کہ اختلافات کی فہرست اور ان کی درجہ بندی سے یہ معلوم ہوسکے گا کہ وہ کتنے مسائل ہیں جن میں مولانا مودودی کی رائے علمائے دیوبند کے لیے بالکل برداشت کے قابل نہیں ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ ہزار باتیں یا سو باتیں نہیں ہوں گی،اگر ہوں گی تو مشکل سے پانچ دس باتیں ہی ہوں گی۔ اگر ایسی درجہ بندی سامنے آجائے تو باہمی منافرت کم ہوگی، ایک دوسرے سے انسیت بڑھے گی اور قربت کی راہیں نکل سکیں گی۔ ممکن ہے شدید اختلاف بھی ہو مگر وہ چند متعین باتوں پر مرکوز ہوگا۔
مجھے یاد ہے کہ مولانا مفتی احمد دیولوی صاحب نے میری طالب علمانہ معروضات کی ستائش کی تھی۔ آج جب کہ مولانا مودودی اور علمائے دیوبند کے اختلافات پر پورے بر صغیر میں گفتگو چھڑی ہوئی ہے، اس تجویز کو سب کے سامنے پیش کرنے کی جرأت کررہا ہوں۔
ابھی امت کے سامنے تصویر یہ ہے کہ دین کے لیے قائم ہونے والی جماعت اسلامی اور دینی علوم کے امین دار العلوم دیوبند کے درمیان بے پناہ اختلافات ہیں، اتنے زیادہ اور اتنے بڑے اختلافات کہ ان میں سے کوئی ایک ہی اہل حق ہے۔ لیکن جب امت کے سامنے یہ بات جائے گی کہ دونوں کے درمیان واقعی اختلافات صرف چند ہیں، باقی اختلافات وہ ہیں جو گوارا کیے جاسکتے ہیں تو دونوں کی تصویر بہتر ہوگی اور دونوں کے سلسلے میں امت کا اعتماد بڑھے گا۔ امت دونوں کو اہل حق شمار کرے گی۔
اگر حلقہ دیوبند اور حلقہ جماعت اسلامی سے چند لوگ مل کر اس کام کا بیڑا اٹھالیں، اور پھر ان اختلافات کی صحیح صورت حال سامنے لائیں، تو مجھے یقین ہے کہ دار العلوم دیوبند اس تاریخی بوجھ سے آزاد ہوسکتا ہے جو نصف صدی سے اسے بوجھل کیے ہوئے ہے۔تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں آخر کب تک یہ دوری باقی رہے گی۔ امید ہے کہ اس درجہ بندی کے بعد پھر اس موضوع پر مناظروں کی مشق کرانے کی ضرورت نہیں رہے گی، طلبہ کی آگہی کے لیے صرف ایک محاضرہ کافی ہوگا۔ اتحاد امت کے لیے اس طرح کی علمی کوششوں کی ضرورت ہے۔
ماضی میں اس طرح کی کوششیں ہوچکی ہیں، مثال کے طور پر علم کلام میں اشاعرہ اور ماتریدیہ کے درمیان اختلافات کی تعداد کو متعین کیا گیا، جو محض لفظی اختلافات تھے ان کی وضاحت کی گئی، اصولی اور فروعی اختلافات میں فرق ملحوظ رکھا گیا، اس کے نتیجے میں ان کے درمیان قربت بڑھی اور دونوں نے ایک دوسرے کو اہل سنت والجماعت میں شمار کیا۔
یہ بھی پڑھیں:
ملت کے دوسرے مسلکوں جیسے بریلوی مسلک اور دیوبندی مسلک کے درمیان اختلافات کے سلسلے میں بھی یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔
اختلافات کی درجہ بندی سے اختلافات کی شدت کو کم کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ اختلاف حقیقت میں کیا ہے ، کتنا ہے اور کس نوعیت کا ہے؟ اگر یہ واضح ہوجائے تو اختلافات کا حل بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ جب ایسا لگے کہ ہر چیز سے اختلاف ہے اور ناقابل برداشت اختلاف ہے،تو پھر مایوسی بڑھتی ہے اور اختلافات کا حل تلاش کرنے کی راہیں مسدود نظر آتی ہیں۔عوام الناس پر اس کے نہایت منفی اثرات پڑتے ہیں، ہم اپنے آپ کو لاکھ اہل حق کہیں اور اپنے ماسوا کو اہل باطل قرار دیں، لیکن عوام الناس کے نزدیک آخر کار سبھی جھگڑالو مولوی قرار پاتے ہیں۔
اختلافات کے سلسلے میں بہتر پالیسی یہ ہے کہ امت کے داخلی اختلافات میں ضروری حد تک توانائی صرف کی جائے اور اپنی توانائیوں کا بڑا حصہ خارج سے ہونے والی نہایت خطرناک یورشوں کو روکنے پر صرف کیا جائے۔ چرچا بھی زیادہ بیرونی محاذ پر ہونے والی کوششوں کا ہو، اندرونی محاذ پر کی جانے والی کوششیں قدرے خاموشی سے انجام پائیں۔ ابھی صورت حال یہ ہے کہ علمائے اسلام کی توانائیوں کا بہت بڑا حصہ چھوٹے چھوٹے اندرونی اختلافات کو ہوا دینے پر صرف ہورہا ہے اور بیرون سے ہونے والی تباہ کن یورشوں پر توجہ نہیں ہورہی ہے۔ چرچا بھی اندرونی اختلافات کا زیادہ ہے بیرون سے اختلاف کا بہت کم۔
وقت کی شدید ضرورت ہے کہ ملت کا دین پسند طبقہ اپنے اختلافات کو ممکنہ حد تک سمیٹ کر بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی متحدہ کوششوں کا بھرپور استعمال کرے۔