شعبۂ مناظرہ پر بےجامباحثہ
شاہد عادل قاسمی۔ ارریہ، بہار
1993ءکی بات ہے، دارالعلوم دیوبند کے صدر گیٹ جو "باب قاسم "سے موسوم ہے اسے کراس کرتے ہوۓ ہم چند احباب” احاطۂ مولسری” میں داخل ہوۓ،احاطے کے درودیوار پر ضلعی انجمنوں کی طرف سے رنگ بہ رنگ جداری پرچے اپنی ظاہری اور باطنی معنویت سے ہمیں روشناس کرارہے تھے،فریموں میں سجا، ہاتھوں سے خوب صورت کتابت کی دیدہ زیبی نےہمیں کافی دیر تک اپنا دیوانہ بناۓ رکھا۔
فطری طبعیت کے ناطے ہم پہلے اپنا اسٹیٹ اور پھر ضلع کے دیواری پرچے کااشتیاق لیے نظراور قدم کو بڑھاتے رہے اسی جستجو میں "انجمن تقویۃ الاسلام "کا دیواری پرچہ دست یاب ہوگیا،دیگر پرچوں کے بہ نسبت اس میں کسی ضلع اور صوبہ کا نام درج نہیں تھا،سمجھ بھی اس وقت ہماری بلوغیت سے دور تھی۔ اس لیے سرسری جائزہ لیتے ہوئےہم آگے بڑھتے چلے گئے،آگے البلاغ،البیان،الحرم اور ان جیسے درجنوں عربی اور اردو جداری پرچوں سے ہم رو بہ رو ہوتے ہوۓ "نودرہ” سے متصل ایک درس گاہ میں جا بیٹھے، جہاں ہمارے میزبان ششم (ثانیہ)میں حضرت مولانا خورشید انور گیاوی صاحب سے” میبذی” پڑھ رہے تھے۔
ہمارا "شرح جامی” کا سال تھا”خادم العلوم باغوں والی ضلع مظفر نگر” سے ہم لوگ دارالعلوم دیوبند کی زیارت کے لیے آۓ تھے،فن فلسفہ کی کسی کتاب سے ہماری ملاقات آج تک نہیں ہوئ تھی، جب کہ آج یہاں دور اور تسلسل کا سبق نہایت ہی پراثر انداز میں پڑھایا جارہا تھا،ہم چند شریک سفرساتھی بھی شامل درس ہوگئے،درس توکم سمجھ آئ لیکن سر پورا ہلاتے رہے،غالبا دن کا آخری گھنٹہ تھا، سبق ختم ہوا،سبھی طلباء اپنے اپنے روم کی جانب نکل پڑے، ہم بھی” نودرہ” کی جنوبی راہ داری سے اپنے میزبان کے ہمراہ قدم بڑھاگئے، اسی راہ داری کے غرب جانب ایک بورڈ پر نظر پڑی جس پر” شعبہ مناظرہ” جلی حرفوں میں مرقوم تھا،وہی” شعبۂ مناظرہ” جو آج سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
در اصل شعبۂ مناظرہ انجمن "تقویۃ الاسلام” کے نام سے طلباۓدارالعلوم کا ایک تمرینی اور مشقی پلیٹ فارم ہے،جہاں طلباۓ دارالعلوم اسلامی عقائد اور فرق ضالہ پر اپنی تیاری کے مطابق مشق کیا کرتے ہیں،بعد نماز جمعہ تاعصر اُن دنوں یہ پروگرام ہواکرتا تھا،دارالعلوم دیوبند کے کوئ استاد یا دوسرے اداروں کے کسی علمی شخصیت کو بہ طور حکم یا مہمان خصوصی مدعو کیا جاتا تھا،وہی روایت شاید آج بھی برقرار ہے،شش ماہی اور سالانہ پروگرام پہلے بھی ہواکرتا تھا،جو بعد نماز عشاء تادیر شب ہوا کرتا تھا جس کی اطلاع طلباء دارالعلوم دیوبند کو ہوا کرتی تھی ،یہ الگ بات ہے کہ یہ دور انٹر نیٹ کا ہے بایں وجہ آج کی خبر بجلی سے تیز پھیل جاتی ہے جب کہ اُس دور کی خبر دارالعلوم کے درودیوار تک ہی محدود اور مسدود رہ جاتی تھی،زمانۂ قدیم سے اس تمرینی پلیٹ فارم سے طلباء دارالعلوم کا تعلق رہا ہے،اس سے کسی کو ٹھیس پہونچانا مقصود رہا ہے اور نہ کسی کی دل آزاری، بل کہ عقائد باطلہ اور عقائد فاسدہ کے مابین تمیز اور فرق کو دلیل اور ثبوت سے ثابت یا باطل کرنے کی مقصدیت اولیت کے درجے میں رہی ہے،طلباء آپس میں ہی دوگروپ بناکر کسی متعینہ موضوع پر اپنا پروگرام کیا کرتے تھے،اس بزم میں شریک کسی دوسرے ادارے کا کوئ طالب علم ہوتا اور نہ ہی کسی دوسرے مسلک ومشرب کا کوئ متبع،خالص دارالعلوم کے طلباء ہوتے اور ان کے ہم مشرب اورہم مسلک اساتذہ اوریہ معمول یا ایسا شعبہ تقریبا ہر مسلک ومشرب کے اداروں میں قائم ہے اور ہونابھی چاہیئے تاکہ وہ اپنے متبعین کی روایت کو دلائل کی روشنی میں بہ وقت ضرورت پیش کر سکیں۔
دارالعلوم کے اس شعبہ میں جذباتی تقریر اورالفاظ وبیان کے قلابازی کی جگہ اعتدال،انصاف اور ردوتنقید کے آداب واسلوب ہی سکھاۓ اور بتاۓ جاتے ہیں،تکفیر اور کٹ حجتی سے پرہیز کا درس دیا جاتا ہے، ادب،بین دلائل،نصوص شرعیہ اوربراہین قاطعہ کی طرف ذہن کو موڑا جاتا ہے،طیش وغضب کی صفت سے دور رہنے کی ترغیب دی جاتی ہے،مولانا مودودی ہی نہیں رد عیسائیت اور ہندوازم پربھی گاہے بگاہے مناظرہ اور محاضرہ پیش کیا جاتا ہے ،اس لیے طلباء کے ایک اشتہار سے سوشل میڈیا پر اتناہنگامہ اور واویلا نہیں مچایا جانا چاہیئے،ہر ادارے کا اپنا اصول اور ضابطہ ہوتا ہے، اس میں بلاوجہ ہمیں مداخلت یا رخنہ اندازی نہیں کرنا چاہیئے، ان مشقی انجمنوں کے قیام سے اتحاد کا رشتہ کمزور ہوگا میری سمجھ سے پرے ہے،میں خود اس شعبے سے منسلک رہا ہوں۔
زمانۂ طالب علمی سے آج تک مولانا مودودی کوپڑھنا میرا محبوب مشغلہ رہا ہے،ان کی پردہ،الجہاد فی الاسلام،خلافت وملوکیت، تفہیمات اور تفہیم القرآن ایک دفعہ نہیں ان گنت مرتبہ پڑھ چکا ہوں، ان کی درجنوں کتابیں آج بھی میری لائبریری کی زینت ہیں،آج بھی مولانا مودودی کے فالوورز کی ہمارے شہر میں ایک لمبی جماعت موجود ہے "درس قرآن” کی مجلس خود ہمارے مدرسے کے مسجد میں ہر ہفتہ سجتی ہے،ہر مجلس ومحفل میں میری ہی نہیں شہر کے اکثروبیشتر علماۓ کرام کی تشریف آوری ہوتی ہے، الحمد اللہ کوئ فرق یا کوئ بغض کا شائبہ تک نظر نہیں آتا ہے، اب علماۓ دیوبند ہوں یا مولانا مودودی۔ ہیں تو انسان ہی ۔اس لیے خطائ امکان سے مفر تو مشکل ہے،ایسے ناگفتہ بہ حالات میں بلاوجہ یہ موضوع گرم ہوتا جارہا ہے،جتنا نقصان اس مناظرہ سے نہیں، کہیں اس سے زیادہ نقصان اس سوشل میڈیائ مشن سے ہورہا ہے،متانت وسنجیدگی کی جگہ تمسخر اور ایک دوسرے کے تئیں نفرت کی دکانیں سج رہی ہیں،اس لیے اس ٹوپک پر بریک ہی اس وقت کی سب سے بڑی فراست ہوگی۔