خاموشی کی اہمیت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی/نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اللہ کے رسول ﷺ نے خاموش رہنے والے کو نجات کا مزدہ سنایا ہے، (ترمذی رقم الحدیث:2501)من سکت نجا ومن صمت نجا (مسند احمد 2/159) کی معنویت تو یہی بتاتی ہے کہ انسانوں کو ہر وقت بولتے رہنے کی وبا سے چھٹکارا پالینا چاہیے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کر لے اس کے لیے جنت کی بشارت ہے، خاموشی اس لیے بھی ضروری ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمارے بول پر پہرے بٹھا رکھے ہیں، ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید ۔ اس لیے بولنے میں ہمیں محتاط رہنا چاہیے، مبادا کوئی بات زبان سے ایسی نکل جائے جس کی پکڑ اللہ کے یہاں ہوجائے اور بندوں کے یہاں آدمی گرفت میں آجائے، اس لیے کہنا چاہیے کہ آزمائشوں سے نجات کا بڑا ہتھیار زبان بندی یعنی خاموشی ہے، لیکن آج کے دور میں انسان زیادہ بولنا کمال سمجھتا ہے، ہر چیز میں رائے دینا اپنا حق سمجھتا ہے، حالاں کہ شورو شغب تو آج کل فضائی آلودگی کا بھی حصہ شمار ہوتا ہے، لیکن انسان اس حقیقت کو یا تو بھول گیا ہے یا بھولتا جا رہا ہے، کبھی دنیا بڑی خاموش ہوا کرتی تھی، نہ گاڑی کا ہارن تھا اور نہ مشینوں کی گرگراہٹ، صنعتی ترقی نے اس دنیا کو تاریکی سے اجالے میں لانے کا کام کیا، لیکن اس کے ساتھ PIN DROP SILENT کی معنویت کہیں گم ہو گئی، اب ایسی خاموشی کا تصور ہی نہیں ہوپاتا کہ مجلس میں سوئی گرنے کی آواز سن لی جائے، ماضی میں ہندوستان میں ایسی عمارتیں بنا کرتی تھیں جو اس قدر خاموش ہوتی تھیں کہ ماچس کی تیلی جلانے کی آواز بھی اوپر کی منزل میں رہنے والا انسان سن لیتا تھا، اس دور میں زیادہ بولنا بکواس کے زمرے میں آتا تھا، اور اسے انتہائی برا سمجھا جاتاتھا، اس زمانہ میں خطوط بھی بہت طویل نہیں لکھے جاتے تھے، خیریت وعافیت، مطلب کی بات، دعا اور سلام، یہ بھی لکھا جاتا تھا کہ” تھوڑا لکھا ہے زیادہ سمجھنا“ لیکن اب وہ ماضی کا قصہ ہے، ہمارے عہد میں جملے تراشے جاتے ہیں، پھینکے جاتے ہیں، الفاظ کی سودا گری کی جاتی ہے، بات میں بات نکالی جاتی ہے گھمایا پھرا یا جاتا ہے، تب کہیں نمبر مطلب کی بات کا آتا ہے، وہ بھی اس انداز میں کہ کبھی تو الفاظ کی سودا گری اور جملے تراشی میں سامنے والا اصل مقصد تک پہونچ نہیں پاتا ہے اور اسے پوچھنا پڑتا ہے کہ آخر آپ کہنا کیاچاہتے ہیں، سماج کے کئی طبقہ سے جڑے لوگوں کی یہی حالت ہے۔
اس کے بر عکس خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے اور وہ کبھی کبھی گفتنی سے بڑھ جاتی ہے اور بے زبانی، زبان بن جاتی ہے اور یہ زبان اس قدر م ¶ثر ہوتی ہے کہ جب وہ داستان رقم کرتی ہے تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے، شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
خموشی گفتنی ہے بے زبانی ہے زباں میری
کلیجہ منہ کو آئے گا جب سنو گے داستاں میری
خود آقاﷺکے معمولات زندگی میں خاموشی کا بڑا مقام تھا، حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر خاموش رہنے والے تھے، حضرت ابو ہریرہ ؓ کی ایک روایت میں خاموشی کو سب سے اونچی عبادت قرار دیا گیا ہے۔ (کنزالعمال 3/35رقم الحدیث 6881)
خاموشی کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے آپ کے اندر تحمل اور برداشت کا مزاج بنتا ہے، آپ کے اندر نئی توانائی آجاتی ہے، اسلام کی اصطلاح میں صبر برداشت ہی کا نام ہے، اگر آپ گالیاں سن کر بے مزہ نہ ہوئے اور کچھ جواب نہیں دیا تو وہ گالیاں دینے والے کی طرف لوٹ جاتی ہیں، وہ دوبارہ آپ کو گالی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا، کیوں کہ گندگی کی قے ایک ہی بار کی جا سکتی ہے، بار بار نہیں، خود میرا تجربہ ہے کہ میں نے ایک صاحب کے بُرا بھلا کہنے پر خاموشی اختیار کرلی، میری اس خاموشی کا کرب وہ صاحب سال بھر جھیلتے رہے، اور لوگوں نے ان صاحب کو اتنا لعن طعن کیاگیا کہ وہ خواہش کرنے لگے کہ، میں اپنی خاموشی توڑوں اور کم از کم اتنا کہہ دوں کہ معاف کر دیا، میں نے ایسی چپی سادھی کہ سامنے والا پریشان ہونے لگا،اسی لیے خاموشی کو کامیاب ہتھیار کہا گیا ہے، اس کے علاوہ اگر کوئی آپ کو کچھ کہتا ہے اور آپ خاموش رہ جاتے ہیں تو یہ معاملہ بندہ سے ہٹ کر معبود کے پاس چلا جاتا ہے اور جب اللہ انتقام لینے پر آجائے تو کہیں جائے پناہ نہیں ملتی۔ اسی لیے عقل مندوں نے خاموشی کو حکمت قرار دیا ہے، اس سے انسان بہت ساری پریشانیوں سے بچ جاتا ہے اور خاموش رہنے والے کو قلبی سکون حاصل ہوتا ہے۔