زبان کا ہمیشہ صحیح استعمال کریں !
محمد قمر الزماں ندوی استاد/مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
کیا آپ کو معلوم ہےکہ فارسی ادب میں ایک شعر ایسا بھی موجود ہے،جسکا پہلا مصرعہ ایرانی شہزادے کا اور دوسرا مصرعہ ہندوستانی شہزادی کا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جس زمانے میں ایران اور ہندوستان میں علم و فضل اور فن و ادب اپنے عروج پے تھا، ایسے وقت میں ایرانی شہزادے نے ایک مصرعہ تخلیق کیا:
"دُرِّ ابلَقْ کسے کم دیدہ موجود”
ابلقی موتی( ایسی سیاہ موتی جس پر سفید دھبے ہوں) کسی نے کم ہی دیکھی ہوگی . مطلب بوجہ نایاب ہونے کے نہیں پائی جاتی۔
اور منادی کرادی کہ جو شاعر اس پر موزوں گرہ لگائے گا تو انعام کا حق دار ہوگا۔
ایران سے لے کر ہندوستان تک تمام شعراء نے اس پر طبع آزمائی کی لیکن کوئی مناسب گرہ نہیں لگا سکا۔
یہ خبر اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی زیب النساء مخفی کو ایسے وقت میں پہنچی، جب وہ آئینے کے سامنے بیٹھی سرمہ لگا رہی تھی، سرمے کی جلن کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑا، وہ کاجل زدہ آنسوں ابلقی موتی کا منظر پیش کر رہا تھا، زیب النساء مخفی نے فوراً گرہ لگائی:
"مگر اشک بتان سرمہ آلود”
مگر محبوبہ کے سرمگیں آنکھوں سے ٹپکا آنسو( ابلقی موتی ہی ہوتی ہے)
ایرانی شہزادے کو جب اس کی خبر ہوئی ، تو اس نے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا
(مشرقی تہذیب کو ذرا ملاحظہ کریں، محل میں پلنے والی شہزادی زیب النساء مخفی کس طرح اپنی پردہ نشینی کا اظہار کر رہی ہے )
جواباً ایک شعر ارسال کیا:
"در سخن مخفی منم چو بوئے گل در برگِ گل
ہر کہ دیدن میل دارد در سخن بیند مرا”
یعنی میں اپنے کلام میں ایسے پوشیدہ ہوں، جس طرح پھول کی خوشبو اس کے پتوں میں پوشیدہ ہوتی ہے۔جو شخص مجھ سے ملاقات کا متمنی ہے، اسے چاہیے کہ میرا کلام پڑھیں۔
زیب النساء مخفی،، عالمہ اور حافظہ ہونے کے ساتھ عربی اور فارسی ادب پر عبور رکھتی تھیں،65 سال کی عمر میں انتقال ہوا شادی نہیں کی تھی۔
-"ماخوذ از ادبیات فارسی”
زیب النساء بہترین شاعرہ تھی، اور مخفی ان کا تخلص تھا، ان کا ایک اور واقعہ نظر سے گزرا ہے، جس میں زبان و ادب کی بھرپور چاشنی اور لذت ہے، اور جس سے پتہ چلتا ہے کہ بادشاہوں کے یہاں اور انکے شہزادے اور شہزادیوں میں زبان و ادب کا کتنا اعلیٰ ذوق اور بلند معیار تھا۔ ایک بار زیب النساء کی سہیلی سے وہ آئینہ ٹوٹ گیا، جو ملک چین کا بنا ہوا تھا۔ اور یہ آئینہ زیب النساء کو بہت پسند تھا، سہیلی ڈری کہ خدا جانے کیا سزا دے، اس نے دست بستہ آکر یوں عرض کیا :
مخفیا! آئینہ چینی شکست
اے مخفی! چین سے جو آئینہ آیا تھا، وہ مجھ سے ٹوٹ گیا، زیب النساء اس انداز معذرت پر بہت خوش ہوئی، اسی وقت مصرع لگایا اور شعر مکمل کردیا۔ اس نے اپنی سہیلی سے بھی زیادہ بہتر انداز میں کہا :
خوب شد اسباب خود بینی شکست
بہت اچھا ہوا کہ خود بینی کا سامان غارت ہوگیا۔۔ اس طرح حسن کلامی اور شریں زبانی نے بڑی سزا معاف کرا دی ۔
( بحوالہ سالانہ مجلہ الاصلاح طلبئہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ۱۹۸۶ء)
ان دونوں ادبی واقعات سے ہم اور آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ماضی میں بادشاہوں کے محل اور دربار میں زبان و ادب کا معیار کتنا اعلی اور بلند تھا اور ان کے بچوں کا ادبی ذوق کتنا ستھرا، شستہ، پاکیزہ اور معیاری تھا، زبان و بیان کی صحت پر کس قدر زور دیا جاتا تھا، کتب بینی اور مطالعہ کا اہتمام کس قدر ہوتا ہوگا۔ اگر بادشاہوں کے دربار اور محل کے ادبی واقعات و نگارشات اور ادبی نوک جھونک کا تذکرہ کروں تو ہزاروں صفحات بھی ناکافی ہوں گے، ضرورت ہے کہ اس طرح کے ادبی واقعات جو مخلتف عربی، فارسی اور اردو کے کتابوں میں محفوظ ہیں، ان کو جمع کیا جائے اور ان بکھرے ہوئے موتی اور گنجینہ کو یکجا کیا جائے۔
انسان کو اگر اچھی زبان ملی ہے تو وہ یہ سمجھے کہ اس کو بہت بڑا انعام ملا ہے ،کیونکہ زبان اور اچھی گفتگو کی وجہ سے انسان کا وقار اور بھرم قائم رہتا ہے ۔زبان درحقیقت انسان کے دل و دماغ اور شخصیت کی ترجمان ہے ،اگر ترجمانی بہتر نہیں ہے تو شخصیت بھی بہتر نہیں ہے اور ترجمانی اچھی ہے تو شخصیت بھی اچھی ہے ، جعل الفئواد علی اللسان دلیلا ۔دل ،وجدان،ضمیر ،فکر ،ہدایت کا مرکز ہے اور زبان اس کی ترجمان اور ذرئعہ اظہار ہے ۔ایمان کی سلامتی دل کی سلامتی پر ہے، اور دل کی سلامتی اس کی زبان کی سلامتی پر ہے ۔ بعض عبقری شخصیتیں اور نابغئہ روز ہستیاں صرف اس لیے مٹ گئیں اور سماج میں اپنے تمام تر علم و فضل تفوق و بلندی اور وسعت علم و تحقیق کے باوجود بے حیثیت ہو گئیں کہ انہوں نے زبان کا صحیح استعمال نہیں کیا ، انہوں لعن و طعن طنز و تعریض اور سخت و سست گفتگو کو اپنا وطیرہ بنایا ،ان کی زبان ہمیشہ قینچی کی طرح چلتی رہی حق و ناحق کی تمیز کے بغیر بے دریغ زبان کو استعمال کرتے رہے، انہوں کبھی اس حدیث پر نظر نہیں کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لعان و طعان نہیں تھے اور زبان درازی سے بچتے تھے اور آپ فحش گو نہیں تھے ۔۔ بہت سے لوگوں بلکہ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کی زبان قینچی کی طرح بلکہ اس سے بھی تیز چلتی ہے ،غصہ ،نفرت ،حسد ،بغض اور منافقت کے الفاظ استعمال کرنے میں ان کو اللہ کا خوف ہی نہیں ہوتا ۔دل آزاری اور توہین و تذلیل کے جملے استعمال کرکے وہ سکون پاتے ہیں ،ایسے لوگوں کو ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن اللہ تعالٰیٰ کے یہاں یہ بے لگام زبان ان کے خلاف گواہی دے گی اور کہے گی کہ اس شخص نے مجھے تیرے حکم کے خلاف استعمال کیا تھا ۔ یوم تشھد علیھم السنتھم و ایدیھم و ارجلھم بما کانوا یعلمون. (۔النور )۔وہ اس دن کو نہ بھول جائیں جب کہ ان کی اپنی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے ۔
انسان اگر اپنی شخصیت کو مفید اور نفع بخش بنانا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان پر قابو اور کنٹرول رکھے ،مہذب اور سلیقہ سے گفتگو کرے لعن و طعن اور طنز و تعریض والی گفتگو سے پرہیز کرے اور یہ خیال کرے کہ ہم کو ایک بات کا رب العالمین کے سامنے جواب دہ ہونا ہے ۔ آج کی تحریر مشہور شاعر سلیمان خطیب کے ان اشعار پر ختم کرتے ہیں :
بات ہیرا ہے بات موتی ہے
بات لاکھوں کی لاج کھوتی ہے
بات پھولوں کا باغ ہوتی ہے
بات سینہ کا داغ ہوتی۔ ہے
بات خیر و ثواب ہوتی۔ ہے
بات قہر و عذاب ہوتی۔ ہے
بات برگ گلاب ہوتی ہے
بات تیغ عتاب ہوتی ہے
بات کہتے ہیں رب ارنی کو
بات ام الکتاب۔ ہوتی۔ ہے
بات ہر بات کو نہیں کہتے
بات مشکل سے بات ہوتی ہے