از قلم:محمد علم اللہ، نئی دہلی
آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن 2020-21کے حوالے سے بحث چل رہی تھی کہ ہندوستان میں دلتوں کی تعلیمی صورت حال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔دلت طلبہ کے اپنے دلائل تھے جو اس خیال کو تقویت بخش رہے تھے۔ حالانکہ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں تھی کیونکہ تعلیمی میدان میں ان کی پیش رفت اچھی ہوتی تو انھیں ریزرویشن ہی کیوں دیا جاتا۔چونکادینے والے نتائج کا سامنا اس وقت ہوا جب دوسری کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افرادخصوصاً مسلمانوں کی اعلی تعلیمی صورت حال کی رپورٹ سامنے آئی۔یہ بحث جامعہ ملیہ اسلامیہ کے‘ڈاکٹر کے آر نارائنن مرکز برائے دلت اور اقلیتی مطالعات’کے اسکالرز کے درمیان ایک واٹس گروپ میں ہورہی تھی۔جواں سال اسکالرز کے اس گروپ میں اس نوع کی تعلیمی اور علمی مسائل و معاملات پر گفتگو روز مرہ کا معمول ہے۔ہم ساتھی ریسرچ اسکالرز تیاری اور معقول دلائل کے ساتھ اپنے گروپ میں گفتگو کرتے ہیں اور کسی بھی مسئلے پر ایک نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس دن بھی یہی ہوا،میرے سامنے جب اعلی تعلیم میں مسلمانوں کی پیش رفت آئی تو میری آ نکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، یعنی سچر کمیٹی رپورٹ کے بعد جیسا کہا جا رہا تھا کہ مسلمانوں میں بیداری آئی ہے اور اب اس کی تنظیمیں اور خود مسلم قوم تعلیم کی طرف توجہ دے رہی ہے، یہ تواس رپورٹ کا منہ چڑھا رہی تھی اور بتا رہی تھی کہ حالات مزید خراب ہورہے ہیں۔
اسی گفتگو کے دوران بعض حقائق سے انداز ہ ہوا کہ حالیہ برسوں میں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا سمیت مختلف خطوں اور ممالک میں مسلمانوں کی تعلیمی پیش رفت میں نمایاں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ تاہم ہندوستان میں یہ صورت خاصی تشویش ناک ہے کیونکہ یہاں اعلی تعلیم میں مسلمانوں کے اندراج میں خاصی کمی آئی ہے۔جاری اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی قریب میں ہندوستان میں کسی بھی دوسری قوم میں مطلق گراوٹ کی یہ سطح نہیں دیکھی گئی۔
2019-20 کے دوران میں اعلیٰ تعلیم میں دلتوں، آدیواسیوں اور او بی سی کے اندراج میں بالترتیب 4.2 فیصد، 11.9 فیصد اور 4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔اسی طرح اونچی ذاتیں، جن کاتعلیمی اندراج میں حصہ 2000 کی دہائی کے آخر سے دوسرے منڈل کمیشن کے نفاذ تک کم ہو رہا تھا، اب وہ 13.6 فیصد کی بلند ترین شرح کے ساتھ عمدہ ریکارڈ درج کرا رہے تھے۔ دوسری طرف، مسلم طلبہ کے اندراج میں 20-2019 کے مقابلے میں 8 فیصد کی کمی ہوئی تھی یعنی 1,79,147 طلبہ۔ ماضی قریب میں کسی بھی کمیو نٹی میں تعلیمی زوال کی یہ سطح کبھی نہیں دیکھی گئی۔
ملک کی سب سے بڑی ریاست یوپی سب سے زیادہ متاثر نظر آئی۔تعلیمی شرح میں مجموعی گراوٹ کا 36 فیصد حصہ صرف یوپی کا ہے، اس کے بعد جموں و کشمیرہے جس میں تعلیمی گراوٹ کی شرح 26 فیصد ہے، پھر مہاراشٹر8.5 فیصد کے ساتھ ہے۔ درجہ بہ درجہ تمل ناڈو 8.1 فیصد، گجرات 6.1 فیصد، بہار 5.7 فیصد اور کرناٹک میں تعلیمی زوال کی شرح 3.7 فیصدریکارڈ کی گئی۔ تمل ناڈو کے علاوہ مجموعی طور پر گراوٹ کی شرح تقریبا ہر جگہ تشویش ناک ہے۔ وہیں جن ریاستوں میں مسلم آبادی کا بڑا حصہ آباد ہے ان میں گراوٹ کا تناسب زیادہ ہے، چھوٹی ریاستیں بھی اسی طرح کے اعداد و شمارکو ظاہر کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، 2019-20-2020-21 کے درمیان، دہلی نے تقریباً 20 فیصد مسلم طلبہ کو کھو دیا جبکہ جموں و کشمیر نے تقریباً 36 فیصد طلبہ کوکھو یا۔
اعلیٰ تعلیم میں او بی سی کی تعداد تقریبا 36 فیصد دیکھنے کو ملی، دلتوں کی تعداد 14.2 فیصد اور آدیواسیوں کی 5.8 فیصد تھی، مگر مسلمان4.6 فیصد کے ساتھ سب سے نیچے تھے، جبکہ ملک میں ان کی آبادی تقریبا بیس فیصد ہے۔ 2006 میں سچر کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی (ایس سی آر)اُسی سے پتا چلا کہ تعلیم میں مسلمانوں کی حالت ملک کی سب سے پسماندہ برادریوں کے برابر یااس سے بھی بدتر ہے۔ اس کے بعد سیمسلمانوں کی پسماندگی مزید بڑھی ہے۔ شروع میں مسلمان دلتوں سے قدرے بلندتھے۔ لیکن 2017-18 میں دلتوں نے تعلیم میں مسلمانوں کو پیچھے چھوڑ دیااور 2020-21 میں آدیواسیوں کی باری آئی۔
اگر ہم 18-23 سال کی عمر کے گروپ پر سختی سے عمل کرتے ہیں تو پی ایل ایف ایس کے اعداد و شمار اس رجحان کی تصدیق کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی تعلیمی پوزیشن دلتوں اور آدیواسیوں سے بھی بدتر ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، فی الحال صرف 19 فیصد مسلمان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جب کہ آدیواسیوں میں 21 فیصد، دلتوں میں 26 فیصد، ہندو او بی سی میں34 فیصد اور ہندو اونچی ذات کے 45 فیصد لوگ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ 2020-21 میں تمل ناڈو، تلنگانہ اور دہلی کو چھوڑ کر کسی بھی ریاست میں مسلمانوں نے دلتوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ راجستھان، آسام، گجرات، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ جیسی کئی ریاستوں میں آدیواسیوں نے مسلمانوں سے بہتر کارکردگی دکھائی۔سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہونے کی وجہ سے، یوپی قومی اوسط سے نیچے چلا جاتا ہے۔ مسلمان، جو ریاست کی آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہیں، کل اندراج کا صرف 4.5 فیصد ہیں۔ اکیلے یوپی میں 2019-20 کے دوران58,365 مسلم طلبہ نے اسکول چھوڑا جو کہ 16 فیصد کی کمی ہے۔
یوپی تعلیمی میدان میں مسلمانوں کے زوال کی کہانی بیان کرتا ہے۔کیرالہ اسی میدان میں مسلمانوں کے عروج کی کہانی پیش کرتا ہے۔ کیرالہ میں اعلیٰ تعلیم کی طرف مسلم نوجوانوں کے رجحان میں مثبت اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مسلمانوں کے خلا ف صد یوں پرانے مثبت امتیاز ی سلوک نے ریاست میں تعلیمی سرمائے کی تعمیر میں مسلم کمیونٹی کی مدد کی ہے۔کیرالہ میں مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں میں 10 فیصد اور تعلیمی اداروں میں 12 فیصد ریزرویشن حاصل ہے۔ کیرالہ میں ایزاواس برادری (۱۴ فیصد) جوکیرالہ کی ہندوبرادریوں میں سب سے بڑا گروہ ہے اور جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ قدیم تامل چیرا خاندان کے بانیوں کی اولاد ہیں، جو کبھی جنوبی ہندوستان کے کچھ حصوں پر حکومت کرتے تھے کے بعدسب سے بڑی آبادی مسلمانوں کی ہے جو ریاست کی او بی سی فہرست میں کوٹے کے بڑے حصے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔
ملک میں مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب اگرچہ بہت پہلے شروع ہوگئے تھے، لیکن نئی بات یہ دیکھنے میں آئی کہ حالیہ دنوں میں تعلیمی پسماندگی میں بھی تیزی آئی ہے۔ اس کی وضاحت کیسے کی جاسکتی ہے؟ اس بارے میں غور و خوض کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ بڑھتے ہوئے ہندواکثریت پسندانہ رجحانات کے تناظر میں چند عوامل نے کلیدی کردار ادا کیا۔اس لیے مسلمان تعلیمی میدان میں بھی پچھڑتے جارہے ہیں۔
- پہلی بات تو یہ ہے کہ مستقبل تاریک ہے کیونکہ مسلمانوں کے لیے روزگارکے مواقع دوسروں کے مقابلے میں زیادہ سکڑ رہے ہیں اور سماجی ومذہبی گروہوں میں ان کی بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ 2018-19 میں1.6 فیصد سے بڑھ کر 2019-20 میں 13.2 فیصد تک پہنچ جانے وا لے ریگولر/تنخواہ دار ملازمین کی تعداد جو مسلمانوں کے لیے ریفرنس ہفتہ کے دوران کام پر رپورٹ نہیں کرتے تھے۔ یہ اعداد و شمار جزوی طور پر جاب مارکیٹ میں امتیازی سلوک کی عکاسی کرتے ہیں، ایک پرانا رجحان جسے سروے کے ذریعہ دستاویزی شکل دی گئی ہے یہ ہے کہ‘برہمن ناموں، دلت ناموں اور مسلم ناموں کے ساتھ ایک ہی سی وی بھیجتے ہیں تو انٹرویوکے لیے مدعو کیے جانے والوں کا فیصد مؤخر الذکر کے معاملے میں سب سے کم ہوتاہے’۔
- دوسری بات یہ کہ اس طرح کے تاریک سیاق و سباق میں کسی کے پاس پڑھائی کے لیے پیسے نہ ہونے کی صورت میں اسے روزی روٹی کے لیے کام کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم نوجوانوں میں اسکول چھوڑنے کی شرح زیادہ ہے، جو اسکول چھوڑنے کے بعد کم اجرت والے روزگار سے وابستہ ہوجاتے ہیں، جیسے،تعمیراتی کام اورگاڑیوں کی مرمت وغیرہ۔
- تیسری اہم بات یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد نے ان کے مقامی نقل و حرکت کو محدود کر دیا ہے اور ایک طرح سے انہیں اپنے خول میں بند ہونے پر مجبور کر دیاہے، جو تقریبا تمام ہندوستانی شہروں میں گھیٹووائزیشن کے جاری عمل سے ظاہر ہے۔
اس تناظر میں حکومت کے لیے واحد معقول پالیسی، جیسا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ اور (اس سے بھی زیادہ) مشرا کمیشن رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے، مسلمانوں کے حق میں مثبت امتیازی سلوک کرنا ہوگا جیساکہ کچھ جنوبی ریاستوں نے کامیابی سے کیا ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے لیے ریاستی حمایت میں کمی آئی ہے۔ کرناٹک جو مسلمانوں کو او بی سی کوٹے کے تحت 4 فیصد سب کوٹہ فراہم کر رہا تھا، اسے حال ہی میں بی جے پی حکومت نے ختم کر دیا، وہیں اقلیتی امور کی وزارت نے 2022-23 سے اقلیتی طلبہ کے لئے اعلی تعلیم کی خاطردیا جانے والا مولانا آزاد فیلوشپ بھی بند کردیا ۔
یہ پریشان کن کہانی ملک میں اعلی تعلیمی اداروں کی تمام برادریوں تک رسائی اور پہنچ کے بارے میں سوالات اٹھاتی ہے اور مذکورہ اعداد و شمار ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ملک کدھر جارہا ہے، عوام کے رجحانات کس طرح تیزی سے بدل رہے ہیں اور ملک کی اقلیتوں کے بارے میں اکثریتی طبقات کس طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔
یہ باتیں جہاں مسلمانوں کے لیے تشویش کا باعث ہیں وہیں ملک کے ارباب حل و عقد اور جمہوریت پسند طبقے کے لیے بھی کم افسوس ناک نہیں ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی ملک جوترقی کرنا چاہتا ہے وہ اپنے شہریوں کو برابر کے مواقع فراہم کرتا ہے، لیکن ہندوستان میں دن بہ دن مسلمانوں کی حالت بد تر کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسی پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں جو کمزور گروہ کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی کو مشکل بنا دے۔ اسی کی ایک صورت مسلمانوں کے ساتھ انتظامیہ کے ساتھ امتیازی سلوک کی ہے۔ یہ صرف ان ممالک میں دیکھا جاتا ہے جہاں لوگوں کے ایک گروپ کو دوسرے درجے کا شہری بنانا مقصد ہوتا ہے۔ بہت ممکن ہے اس سے کچھ لوگوں کے مفادات کی تکمیل ہو اور یقینا ایسا ہے بھی لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے اسکے نتیجے میں کبھی بھی پرامن اور ہم آہنگ معاشرے کی تشکیل نہیں ہوسکتی اور نہ کوئی ملک ترقی یافتہ کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔
اس سے نمٹنے کے لیے کثیر جہتی نقط? نظر کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کو اپنی پالیسیوں اور طریقوں میں تنوع اور شمولیت کو فروغ دینے میں فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتیں اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی امتیازی سلوک اور تعصب سے نمٹنے، مالی مدد فراہم کرنے اوررہنمائی کے پروگرام تشکیل دے کر مسلم طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ایک معاون ماحول پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ مل کر کام کرنے سے ہی ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ تمام طلبہ، ان کے پس منظر یا عقائد سے قطع نظر، اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل کرنے اور اپنی مکمل صلاحیتوں تک پہنچنے کے مساوی مواقع حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں تنوع کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تعلیمی میدان میں مختلف سطحوں پر مسلم جماعتیں اور افراد و شخصیات کی طرف سے کوششیں جاری ہیں، لیکن جس صورت حال کی نشان دہی درج بالا سطور میں کی گئی ہے اس کے مقابلے میں جس طرح کی منظم اور مسلسل کوشش کی ضرورت ہے اس کا فقدان ہے۔
مسلم طلبہ کے مسائل سے دلچسپی رکھنے والے افراد اور جماعتیں سب کو کسی واضح لائحہ عمل کی صورت میں اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے تحریک کی صورت میں آنا ہوگا۔ جس کی پہلی اور اولین کوشش مسلم سماج میں تعلیم کے تئیں غیر معمولی دلچسپی اور شوق کو فروغ دینا ہوگا۔ انھیں اپنی کوششوں کو منظم اور مضبوط کرنا ہوگا اور طلبہ کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھانی ہو گی کہ سر سید و شبلی نے اپنے اپنے معاشروں میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جو واضح لائحہ عمل بنائے تھے کیا اب معنویت ختم ہو گئی یا باقی ہے، اگر باقی ہے تو کل بیدار ہونے سے بہتر ہے، آج اور ابھی سے اس پر کام شروع کیا جائے۔جب تک ترجیحی بنیاد پر اس جانب دھیان نہیں دیں گے تو اندیشہ یہی ہے کہ آنے والے نتائج مزید کربناک ہوں گے۔