محمد منہاج عالم ندوی،امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
جامعہ اسلامیہ مظفر پو ر اعظم گڑھ یوپی کے سابق استاذ و مہتمم حضرت مولانا عبد الرشید صاحب قاسمی نوراللہ مرقدہ جو آج ہی کے دن دوسال قبل مؤرخہ 18/دسمبر 2021 مطابق 14/جمادی الاولی 1443ھء بروزسنیچر بعد نماز مغرب اعظم گڑھ کے ایک اسپتال میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرکے داعی اجل کولبیک کہہ گئے اور اپنے تمام متعلقین و متوسلین،ہزاروں شاگردوں اور چاہنے والوں کومغموم کردیا، انا للہ وانا الیہ راجعون،آپ کی وفات نے مجھ پر بھی گہرا اثر چھوڑا،آپ کی شخصیت پر کئی بار قلم اٹھایا؛مگر مصروفیات کی وجہ سے کچھ لکھااور کچھ رہ گیا۔
میں نے جامعہ کی نوسالہ زندگی میں جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اورآپ کو سمجھا اسے تحریری سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔
آپ کی پیدائش یکم جنوری 1948ء اتر پردیش کے ضلع امبیڈکر نگر فیض آباد کے ایک گاؤں رسول پور منڈیرا میں جناب بخش اللہ صاحب کے گھر ہوئی،آپ کا گھرانہ دینداری،وفاشعاری، تقویٰ وپرہیزگاری میں مشہور ہے، مہمان نوازی اور عزت و شرافت اس کی پہچان رہی ہے،اسی خاندان کے مشہور اورعظیم چشم و چراغ عالم باصفا،نیک دل انسان،اخوت و بھائی چارگی کے امین و پاسباں،بلند اخلاق کے حامل، بارعب و باوقار اور خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار، خدا ترس اور خدا رسیدہ،صاحب نسبت و بزرگ صفت،عالم دین حضرت مولانا عبد الرشید صاحب قاسمی نوراللہ مرقدہ ہیں،آپ نے تعلیمی زندگی کا آغاز گاؤں کے مکتب سے کیا،اس کے بعد اسکول کا رخ کیا، حساب،ہندی ودیگر مضامین پر عبور حاصل کرنے کے بعد،پھر مدرسہ کے جانب قدم رنجاں ہوئے اس کے لیے اولاً گیاصوبہ بہار کے ایک مدرسہ قاسمیہ کا رخ کیا،ابتدائی دینی تعلیم کے بعد اپنے علاقہ کے مدرسہ کرامتیہ جلال پور کی طرف لوٹ آئے،اس کے بعد مدرسہ بدرالاسلام شاہ گنج آگئے،اور علیا درجات کی کتابیں یہیں پر کبار علماء سے پڑھنے کے بعد دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، جہاں دورہ حدیث شریف مکمل کیا،آپ نے جن اصحاب علم ودانش سے خوشہ چینی کی ان میں مولانا ضمیر احمد اعظمی صاحب،مولانا اسداللہ صاحب، مولانا محمد عثمان صاحب،مولانا احمد صاحب جونپوری ؒ اور مولانا فخرالدین صاحب ؒ قابل ذکر ہیں آپ نے 1971ء مطابق 1391ھ میں سند فراغت حاصل کی،اس کے بعددرس وتدریس سے جڑ گئے،جس کی شروعات بنگلور سے کی؛مگر کچھ مجبوریوں کی وجہ سے علاقہ کے ایک مدرسہ فیضان القرآن بلرام پور سے ملحق ہوگئے، اورطالبان علوم نبوت کے مشام جاں کو علم وعمل سے معطر کرنے لگے۔
جب حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین صاحب ندوی مظاہری مدظلہ نے اگست 1989ء میں جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ کی بنیاد رکھی اور 6/شوال 1410ھ مطابق 17/مئی 1990ء کو باضابطہ تعلیم کا آغاز فرمایا تو آپ کو کسی اچھے باصلاحیت عالم دین کی ضرورت محسوس ہوئی جو جامعہ کے اہتمام کی ذمہ داری بحسن وخوبی انجام دے سکے، اسی اثناء آپ کی نظرحضرت مولانا عبدالرشید قاسمی صاحب پر پڑی، آپ نے اس ہیرے کو پہچان لیا اورگلشن جامعہ کی رکھوالی ونگرانی کی عظیم ذمہ داری آپ کے مضبوط کاندھے پر رکھ دی جسے پوری امانت ودیانت اور حسن وخوبی کے ساتھ تادم حیات نبھایا اور ادارہ میں رنگ وروغن ڈالنے کا غیر معمولی کارنامہ انجام دیا جس کی خوشبوآج بھی جامعہ کے درو دیوار سے محسوس کی جاسکتی ہے۔آپ کے اہتمام کا عرصہ تقریبا تین دہائیوں پر محیط ہے، آپ نے اپنے دور اہتمام میں جامعہ کو تعلیمی،تعمیری ترقی پر پہونچانے میں اہم کردار اداکیا،جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ یوپی کے مسند اہتمام پر جلوہ فگن ہونے پر بانی و سرپرست جامعہ کو بڑا اطمینان حاصل تھا اور وہ آپ کے کاموں سے بہت متاثر تھے، حضرت مہتمم صاحبؒ کی دل سے قدر کرتے تھے۔اس بڑی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ تدریس کا سلسلہ بھی آپ کے ساتھ لگا ہوا تھا، عربی اول میں آمد نامہ وفارسی اول آپ کے ذمہ تھا، پڑھانے کا اندازبھی بڑاا نرالہ اور سمجھانے کا سلیقہ بھی بہت عمدہ تھا۔
حضرت مہتمم صاحب کی شخصیت ایک نمونہ اور آئیڈیل تھی، دنیا داری اور اس کی ریل پیل سے دور دور رہتے،چہرے کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ دل کے بھی بڑے پاکیزہ تھے، انداز ذرا تلخ مگر بہت شفیقانہ تھا،زبان شستہ،سمجھانے کا انداز بڑا خوبصورت اور جاذب تھا،جا معہ سے قریب مارکیٹ بندرا بازار میں عام طور پر نماز جمعہ ادا کرتے،جمعہ کی نماز سے قبل آپ کی تقریر ہوتی، آپ کا انداز تخاطب بڑا نرالہ اور دلوں کو موہ لینے والا ہوتا،بڑے ہی اطمینان سے ٹھہر ٹھہر کر تقریر فرماتے،عام مقرروں کی طرح گھن گرج کا مزاج نہیں تھا،آپ کی باتیں از دل خیزد بردل ریزد کا شاہکارہوتیں،ظاہر ہے آدمی جب دل سے کوئی بات کہتا ہے تو اللہ اس کے اندر اثر ڈال دیتا ہے علامہ اقبالؔ نے کہا تھا:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پَر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
قُدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اُٹھتی ہے، گردُوں پہ گزر رکھتی ہے
آپ کتاب و سنت کے پابند و متبع اور ذکر و اذکار کے عادی تھے، عصر کی نماز کے لیے جاتے تو پھر مغرب پڑھ کر ہی واپس لوٹتے،عصر بعد کا وقت ان کے ذکرو اذکار کے لیے مختص تھا،صوم و صلوٰۃ کے معاملہ میں کسی طرح سمجھوتہ نہیں کرتے، جامعہ کے اندر کسی طالب علم کی نماز چھوٹتی یا مسبوق ہوجاتے تو اس پر بڑابگڑتے اور سخت ناراض ہوجاتے،اور سزابھی دیتے،میرے دوران طالب علمی عام طور پر بعد نمازِ مغرب و فجر ہاسٹل کے نگراں حاضری لیا کرتے تھے؛ مگر جب کبھی کسی بھی نماز کے وقت مہتمم صاحب کو لگتا کہ آج نماز میں بچوں کی تعداد کم لگ رہی ہے تو نگراں سے حاضری کرواتے پھر جتنے طلبہ غیر حاضر پائے جاتے ان کو دفتر اہتمام بلاکر سخت تنبیہ کرتے اور سزا دیتے تھے،آپ کی سختی پر بسا اوقات طلبہ ناراض بھی ہوتے اور آپس میں چہ میگوئیاں بھی کرتے،مگر ظاہر ہے یہ سب اپنے فائدہ کے لئے نہیں؛ بلکہ ہم طلبہ کے مستقبل کو روشن و تابناک بنانے اوردنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے ہوتا تھا،نماز کی پابندی پر توجہ دیتے اور طلباء جامعہ کو بھی اس کی پابندی کی تاکید کرتے، مجھے یاد نہیں کہ میں نے جامعہ کے اندر اپنی نوسالہ طالب علمانہ زندگی میں کبھی بھی ایسا پایا ہوکہ آپ مدرسہ میں موجود ہوں اور جماعت کے لیے مسجد تشریف نہ لے گئے ہوں،اسی طرح یہ کہ آپ کی جماعت تو کیا کبھی شاید آپ کی تکبیر اولیٰ بھی فوت ہوئی ہو۔ بسا اوقات آپ نماز کے بعدطلبہ سے خطاب کرتے اور پدرانہ شفقت کے ساتھ انہیں سمجھاتے ان کے ذہن و دماغ میں نماز اور اس کی اہمیت،جماعت کی پابندی کے فوائدکو بیٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے اکثر فارسی کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے :
روز محشر کہ جاں گداز بود
اولیں پرشس نماز بود
کہ قیامت کے سخت اورہولناک دن میں جوکہ جان کو پگھلا دینے والا ہوگا اس روز سب سے پہلے نماز کی پوچھ ہو گی،اور اگر آج آپ اس کے پابند بن گئے زندگی بھر اس پر عمل پیرا ہونا آسان ہوجائے گا،اگر آج آپ کی عادت نہیں بن سکی تو پھر آئندہ اس کا التزام بہت مشکل ہوگا،اسی طرح آپ طلبہ جامعہ سے خطاب کرتے ہوئے کہتے:”آ پ حضرات یہاں کچھ بننے اور سیکھنے کے لیے آئے ہیں یہاں کی چہار دیواری اور عمارتیں سب آپ کے لیے ہیں،یہاں کے خوبصورت کمرے اور درسگاہیں آپ کے لیے سجائی گئی ہیں،آپ خود اس کے محافظ و نگراں ہیں، اس لیے ان چیزوں سے فائدہ اٹھا کر خود کو زیور علم عمل سے آراستہ کرلیجئے، کچھ بن کر جائیے اپنے اوقات کی پابندی کیجیے،درسگاہ کی پابندی کو لازم سمجھئے،ادھر ادھر گھومنے پھرنے اور اپنے اوقات کو برباد کرنے سے پرہیز کیجئے،بازاروں کی بھیڑ بھاڑ سے بچئے اوربلاضرورت بازاروں کی زینت مت بنئے،بہت ضروری کام ہوتو جائیے؛ مگر ضروری کاموں کی انجام دہی کے بعد جلد مدرسہ لوٹ آئیے اور وقت کو غنیمت جان کر استعمال میں لائیے؛ تاکہ بعد میں چل کر آپ کو پشیماں نہ ہونا پڑے اور جب آپ یہاں سے لوٹیں تو آپ کے اعمال اور اخلاق و کردار کو دیکھ کر لوگ یہ سمجھیں کہ آپ نے جس مدرسہ میں تعلیم حاصل کی ہے؛وہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا مزاج ہے اور اس پر کافی توجہ دی جاتی ہے جس سے نہ صرف آپ کی اہمیت لوگوں کے لئے دلوں میں راسخ ہوگی بلکہ آپ کے والدین اور گھر خاندان کے ساتھ ساتھ آپ کے مدرسہ اور اساتذہ کی بھی نیک نامی ہوگی“۔
اسی طرح آپ کہتے تھے کہ: ”آپ لوگ دور دراز علاقوں سے گھر بار،اعزاء،اقرباء اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں،اورجس مدرسہ کا انتخاب کیا ہے اس کی ہر چیز اساتذہ و معلمین،کتابیں،درسگاہیں حتیٰ کہ درو دیوار سے محبت اور اس کی حفاظت وصیانت کو لازم سمجھئے اور آپ بانی جامعہ حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین صاحب ندوی مظاہری مدظلہ العالی کے اس قول کو بھی برابر دہراتے کہ”مدرسہ کشتی نوح کی مانند ہے،اس لیے اس سفینہ کی نگہبانی آپ کی بڑی ذمہ داری ہے، آپ یہاں کے مکیں ہیں جب تک یہاں ہیں اپنے مکان کی پوری حفاظت کیجئے،جب تک آپ اس کی دیکھ بھال اور حفاظت کریں گے تو خود بھی محفوظ رہیں گے اور مدرسہ بھی محفوظ رہے گا“آپ اپنے مقصد کو سامنے رکھئے اور خود کا محاسبہ بھی کیجیے اور اپنا نظام الاوقات بنا لیجئے کہ فلاں وقت میں فلاں کام اور فلاں کتابیں پڑھنی ہے جس سے آپ کے وقت میں کافی برکت ہوگی،آپ اپنا سارا وقت پڑھنے میں لگائیے جب خود کو پڑھنے میں لگادیں گے تو پھرآپ کے پاس وقت ہی نہیں بچے گاکہ لایعنی چیزوں میں لگیں اور ادھر ادھر کی چیزوں میں لگ کر وقت کو برباد کریں گے اور خاموشی کے ساتھ اپنی محنتوں کو جاری رکھئے کہ کامیابی شور مچادے اور بارہا یہ شعر بھی دہراتے :
مکتب عشق کے انداز نرالے دیکھے
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
وفات سے قبل بیمار رہنے لگے تھے،کمزوری اور ضعف کی وجہ سے لاٹھی(عصا) کا سہارا لینے پر مجبور تھے،مسلسل دوائیاں چل رہی تھیں،صحت کے اندر اتار چڑھاؤ لگا رہتا؛ بالآخروقت موعود آپہونچا،جس سے کسی کو رستگاری نہیں،موت کا تلخ جام ہر ایک کو پینا ہے،بس فرق صرف اتنا ہے آج ان کی کل ہماری باری ہے، بلکہ بقول شاعرمرزاشوق لکھنویؔ:
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
اللہ حضرت مہتمم صاحب کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام نصیب فرمائے ان کے وارثین و پسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے، آمین یا رب العالمین۔