Slide
Slide
Slide

اردوٗ کتاب میلہ : کتاب کی حیات کا مظہر

ازقلم : ڈاکٹر سلیم خان

سن 2012 میں جب خالد جاوید کا ناول ’موت کی کتاب‘ منصۂ شہود پر آیا تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ دس سال کے بعد موضوع کی ترتیب بدل جائے گی اور لوگ باگ ’کتاب کی موت‘ پر تشویش کا اظہار کرنے لگیں گے ۔ شعبۂ آثارِ قدیمہ کے ماہر پروفیسر والٹر شیلر کو ایک پاگل خانے کے کھنڈرات کی تحقیقات کے دوران ایک مسودہ ملا جو دو سو سال سے بھی قدیم تھا۔ یہ مسودہ ایک معدوم زبان میں تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ زبانیں نہ صرف کمزور بلکہ معدوم بھی ہوجاتی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور کب ہوتا ہے؟؟ ان دونوں سوالات کا جواب کا تعلق کتاب سے ہے یعنی اگر کسی زبان میں اچھے ادب کی تخلیق کا عمل رک جائے تو وہ بانجھ پن کے روگ میں مبتلا ہوکر نحیف ہوجاتی ہے اور اگر قارئین اپنی مادری زبان کو پڑھنا بند کردیں تو وہ بول چال کی بولی بن کر خودکشی کرلیتی ہے۔ زبان صدیوں کا حافظہ ہوتی ہے اور اگر کسی قوم کا حافظہ اس سے چھن جائے یا ازخود وہ اسے دریا برد کردے تواس کا تشخص خطرے میں پڑجاتا ہے۔

اردوٗ کے خاتمے سے مسلمانوں کا تہذیبی و تمدنی وجود ختم نہیں ہوگا کیونکہ امت میں کئی زبانیں رائج ہیں مگر مختلف مذاہب کے اردوٗ ثقافت سے وابستہ لوگ ضرور گونگے اور بہرے ہوجائیں گے۔ اردو کتب کی تخلیق اور ترویج و اشاعت ملک کی نفیس ترین تہذیب و ثقافت کے تحفظ کی ضامن ہے۔ ممبئی میں منعقد ہونے والے 26؍ ویں اردو کتاب میلہ کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ کتاب میلے کی تیاری اپنے شباب پر ہے۔ عوام الناس کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے ممبئی کی مختلف تنظیمیں اور دیگر سماجی کارکنوں نےاپنا دن رات ایک کر رکھا ہے۔ اس کام میں امتیاز خلیل، فرید احمد خان ، فاروق سید، سلیم الوارے، الیاس خان ، ڈاکٹر عمران امین،ہمایوں کبیر وغیرہ پیش پیش ہیں۔ اردو میلہ کو کامیابی کےلیے ممبئی و مضافات کے علاوہ تھانے، ممبرا، کلیان، بھیونڈی اور امبرناتھ تک کی اردو اسکولوں میں تشہیر و ترویج کا کام زور و شور سے چل رہا ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان( حکومت ہند) کا 26 واں قومی اردو کتاب میلہ امسال انجمن اسلام کے اشتراک سے ممبئی کے بی کے سی میدان پر 6 جنوری سے 14 جنوری تک منعقد ہورہا ہے۔

اردوٗ کے خاتمے سے مسلمانوں کا تہذیبی و تمدنی وجود ختم نہیں ہوگا کیونکہ امت میں کئی زبانیں رائج ہیں مگر مختلف مذاہب کے اردوٗ ثقافت سے وابستہ لوگ ضرور گونگے اور بہرے ہوجائیں گے۔ اردو کتب کی تخلیق اور ترویج و اشاعت ملک کی نفیس ترین تہذیب و ثقافت کے تحفظ کی ضامن ہے۔ ممبئی میں منعقد ہونے والے 26؍ ویں اردو کتاب میلہ کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ کتاب میلے کی تیاری اپنے شباب پر ہے۔ عوام الناس کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے ممبئی کی مختلف تنظیمیں اور دیگر سماجی کارکنوں نےاپنا دن رات ایک کر رکھا ہے۔ اس کام میں امتیاز خلیل، فرید احمد خان ، فاروق سید، سلیم الوارے، الیاس خان ، ڈاکٹر عمران امین،ہمایوں کبیر وغیرہ پیش پیش ہیں۔ اردو میلہ کو کامیابی کےلیے ممبئی و مضافات کے علاوہ تھانے، ممبرا، کلیان، بھیونڈی اور امبرناتھ تک کی اردو اسکولوں میں تشہیر و ترویج کا کام زور و شور سے چل رہا ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان( حکومت ہند) کا 26 واں قومی اردو کتاب میلہ امسال انجمن اسلام کے اشتراک سے ممبئی کے بی کے سی میدان پر 6 جنوری سے 14 جنوری تک منعقد ہورہا ہے۔

تہذیب و ثقافت کے ارتقاء میں کتاب نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے انبیائے کرام پر آسمانی صحیفے بھی نازل فرمائے۔ ۔اس لیے کتاب کی دینی اہمیت کا انکارممکن ہی نہیں ہے۔ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہےمگرمطالعہ کا شوق برے وسوسوں اور فتور سے نجات دلاکرتخریبی سوچ کوتعمیری بنا دیتا ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے محروم فرد کے لب و لہجے سے شرینی جاتی رہتی ہے۔وہ بیچارہ وثوق کے ساتھ بات کرنے سے جھجکتا ہے۔اس کی گفتگو میں دلائل کافقدان ہوتا ہے۔اس کے برعکس کتاب دوست کی بات میں گہرائی و گیرائی کے ساتھ شائستگی اور دلائل ہوتے ہیں۔کتابوں کی رفاقت میں قاری دنیا جہاں کی معلومات، کے ساتھ شعور اور آگاہی کی دولت سے بھی مالامال ہوتا ہے۔ یہ دہائی کتب بینی پر قہر برسا رہی ہے۔ اس کے لیے رابطہ عامہ کے ذرائع ابلاغ یعنی سوشیل میڈیا کو ذمہ دار ٹھہرا یا جاتا مگر یورپی ممالک میں جدیدتر سوشل میڈیا کتاب بینی کو متاثر کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یورپی اقوام میں اخبارات و جریدوں کے پڑھنے والےاب بھی 65 سے 70 فیصد تک ہیں جبکہ وطن عزیز میں یہ رحجان تیزی سے گر رہا ہے۔کتب بینی میں کمی کے سبب موجودہ دور میں جامعات کے حاملینِ اسنادیافتہ طلبا بھی علم سے بے بہرہ ہوتےہیں ۔

سرزمینِ ہند پر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے فروغ کی خاطر مختلف سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔ ان میں سے ایک اہم کام اردو کتاب میلہ کا انعقاد بھی ہے۔ دس روزہ سالانہ کتاب میلےمیں ملک کے مشہور و معروف اردو ناشرز اپنی عمدہ علمی و ادبی سرمایہ کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔ یہ میلہ ملک کے مختلف علاقوں بالخصوص اردو آبادی پر مشتمل شہروں میں منعقد ہوتا ہے ، تاکہ وہاں کے لوگوں میں اردو زبان اور اردو کتابوں کے تئیں شوق و رغبت اور دلچسپی پیدا کی جائے۔ اس کی روشن مثال گزشتہ سال تمل ناڈو کے شہر وانمباڑی میں کتاب میلے کا انعقاد تھا۔ یہ اہتمام وہاں کی مقامی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے اشتراک سے 3جنوری تا 11 جنوری 2023 کے دوران کیا گیا تھا ۔ پچیسویں کتاب میلہ میں شہرکے علمی و ثقافتی مرکز مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے عہدیداروں نے مہمان نوازی کا حق ادا کردیا اور اردو کے شائقین نے بھی بڑی تعداد میں مختلف اجلاس میں شریک ہوکر انہیں کامیاب کیا۔ جنوبی ہند کے اس دور افتاد گاوں میں ہندوستان بھر کے پچاس سے زائد ناشراپنی قیمتی اور نادر و نایاب کتابوں کے ساتھ شریک تھے اور انہیں پینتالیس لاکھ کی کتابیں فروخت کرنے میں کامیابی ملی ۔کتاب میلے میں ادبی و ثقافتی پروگراموں کے ساتھ سائنسی نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔

ریاستِ مہاراشٹر میں محبانِ اردو کی بہت کثیر تعداد میں پائی جاتی ہے کیونکہ یہاں ہزاروں اردو میڈیم اسکولوں اور کالجوں کا جال بچھا ہوا ہے۔یہاں غیر اردو داں طبقہ میں بھی اردو سیکھنے کا غیر معمولی شوق پایا جاتا ہے۔ ممبئی یونیورسٹی کا شعبۂ اردو ایسے حضرات کے لیے خصوصی کورس چلاتا ہے تاکہ تشنگانِ ادب کی تسکین ذوق کا سامان کیا جائے۔ ریاست مہاراشٹر کے مختلف شہروں کو قومی کونسل کے زیر اہتمام کتاب میلے کی میزبانی کا شرف حاصل ہوچکا ہے۔ ان میں اورنگ آباداور بھیونڈی جیسے شہر شامل ہیں ۔ گزشتہ چند سالوں کے اندر مالیگاوں کو یہ اعزاز دو مرتبہ حاصل ہوااور اب ممبئی کو ملنے جارہا ہے۔ کورونا کی وباء کے فوراً بعد ما لیگاؤں سوسائٹی آف ایجوکیشن، جے اے ٹی کالج فار ویمن مالیگاؤں، سٹی کالج مالیگاؤں، انجمن ترقی تعلیم، انجمن محبانِ اردو کتب کے اشتراک و تعاون سے نیو سٹی کالج و اے ٹی ٹی ہائی اسکول مالیگاؤں میں 18 تا 26 دسمبر2021 کوکتاب میلہ منعقد کیا گیا ۔ قومی اردو کونسل نے 24ویں اردو کتاب میلہ کا انعقاد 2014 کے صرف سات سال بعد دوبارہ مالیگاوں میں کیا تھا ۔

کورونا کی نئی قسم کے خطرات کی وجہ سےکئی تعلیمی و ثقافتی پروگرام ملتوی کرنے پڑے۔ میلے میں کورونا پروٹوکول کو کی مکمل پیروی کی گئی۔ میلے میں داخلے کے لیے احتیاط کے طور ماسک کا لگانا لازمی قرار دیا گیا۔ عوامی پذیرائی نے یہ ثابت کردیا کہ اس میلے میں کورونا کی دہشت پر اردو کی محبت غالب آگئی۔ مالیگاؤں کے لوگوں کی اردو سے زبردست محبت کے پیش نظراس میلے میں 300 پبلشرز نےشرکت کی درخواست دی تھی مگر جگہ کی قلت کے سبب صرف 163پبلشرز کو موقع ملا۔مالیگاوں میلے کا مرکزی موضوع اردو کتاب اور نئی نسل تھا۔ اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے این سی پی یو ایل کےسابق سربراہ شیخ عقیل نے کہا تھا اس کے ذریعہ کہ بچوں کی کتاب سے دوری کو کم کرنا مقصود ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کتاب سے اچھا ساتھی کوئی نہیں ہوتااور تخلیقی، علمی و ذہنی صلاحیت کے اضافے کے لیے کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ موبائل سےرغبت پر تنقید کرنے کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ اچھا ادیب عالم اور تخلیق کار کتابوں سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے ۔

اس سال مہاراشٹر کے مرکزی شہر ممبئی میں کونسل کے قومی اردو کتاب میلے کے انعقاد پر نئے سربراہ دھننجے سنگھ نے شہر ممبئی اور مضافات کے تمام محبان اردو سے غیر معمولی دلچسپی کی توقع کا ا ظہارکیا ہے۔ پروفیسر سنگھ نے کہا کہ کونسل کے کتاب میلے ہمیشہ کامیاب رہے ہیں ۔ ممبئی کا کتاب میلہ معروف تعلیمی و ثقافتی ادارے انجمن اسلام کے اشتراک سے باندرہ کرلا کمپلیکس ،ممبئی میں منعقد ہورہا ہے 6جنوری سے 14 جنوری2024 کے دوران منعقد ہونے والے کتاب میلے کے حوالے سے کونسل کے ڈائریکٹر نےغیر معمولی جوش و جذبے کا اظہار کیا ہے ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ممبئی والے ان کو مایوس نہیں کریں گے۔

یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ کوئی زندہ قوم بے زبان نہیں ہوسکتی اس لیے اگر کسی قوم کو موت کے گھاٹ اتارنا ہوتو اس کی زبان کاٹ کر پھینک وینا کافی ہے ۔ عصرِ حاضر میں سوشل میڈیا کا اژدھا کتب بینی کے ذوق و شوق کو نگل رہا ہے۔کتب خانوں کی قیمتی کتابوں کو دیمک چاٹ رہی ہے۔ کتاب بینی کے ذوق سے کوسوں دور نسلِ نودن رات برقی آلات کے سامنے بیٹھ کے آنکھیں جلاتی ہےمگر تنہائی میں سکون سے کتاب نہیں پڑھتی۔ یہی وجہ ہےکہ تخریبی سوچ، پرتشدد رویے، علم و معلومات کا فقدان، اخلاقیات کی کمی، اوچھے لہجے اور غیر مدلل اور روکھے پھیکے لب و لہجے نے ہمیں اپنے نرغے میں لے لیا ہے۔ ترجیحات کے ا لٹ پلٹ جانے کے سبب مختلف مسائل بحران کی شکل اختیار کر رہے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ قوم پٹری سے اترکر دشت نوردی کا شکار ہوگئی ہے۔ علم کا حصول صدیوں سے ایک مسلمہ اصول اور مہذب معاشرے کا شعار رہا ہے مگر کتب بینی سے دوری علم و فضل کے آبشار سے محرومی کا سبب بن رہی ہے۔ ظلم وجبر اور جنگ وجدال کا شکار موجودہ عالمِ انسانیت کو غلام محمد قاصر نے کیا خوب پیغام دیا ہے :

بارود کے بدلے ہاتھوں میں آجائے کتاب تو اچھا ہو

اب اور نہ بکھرے رشتوں کی بوسیدہ کتاب تو اچھا ہو

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: