از قلم: مفتی محمد ناصرالدین مظاہری
حج مہنگا ہوچکاہے، ملکوں نے حج کو ذریعہ آمدنی بنالیا ہے، عوام کورونا اور لاک ڈاؤن کے بعد بہت پریشان ہے، وسائل کم مسائل زیادہ ہیں، ادھر مکہ مکرمہ کی چار مساجد اور پورے مدینہ منورہ کو سیروسیاحت اور پکنک کے لئے کھول دیاگیا ہے، عازمین عمرہ کو مکہ مکرمہ میں بھی اور مدینہ منورہ میں بھی "انتظام” کے نام سے اتنا دوڑایا جاتاہے کہ انسان بار بار سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے۔
صلوۃ وسلام ہی کو لے لیجیے مواجہ شریف کے سامنے دو سیکنڈ بھی رکنے نہیں دیاجاتاہے، ریاض الجنۃ میں داخلہ کے لئے پاس اور اپلیکشن سےمنظوری ضروری قرار دیدی گئی ہے، ادھر اپلیکشن یا تو کھلتی نہیں ہے یا کئی ہفتوں بعد کا نمبر ملتاہے جب کہ معتمر محض دو تین ہفتہ ہی دیار حرم میں رہ پاتاہے، جہاں آسانی ملنی چاہئے وہاں پریشانی کھڑی کی جارہی ہے ، عمرہ کاویزہ تین مہینے کا کردیا گیا ہے تاکہ انسان وہاں کی مہنگائی میں اچھی طرح اپنی جیب ڈھیلی کرتا رہے، عبادات کا حال بھی سنئے، کچھ لاعلم امام صاحب سے بھی آگے کھڑے ہوکر بے تکلف نماز پڑھتے ہیں، بہت سے تو ایسے ہیں جن کو جہاں جگہ مل گئی کھڑے ہوگئے چاہے درمیان میں بیس پچاس ٹرکوں کے گزرنے کی جگہ ہی کیوں نہ خالی ہو۔ بعض تو جوتوں سمیت مسجد حرام میں دیکھے گئے اور تو اور مکہ ٹاور1اور مکہ ٹاور2دونوں میں مسجدیں موجود ہیں بڑی بڑی مسجدیں موجود ہیں مگر اقتدا امام کعبہ کی ہوتی ہے۔ اور درمیانی مسافت اتنی کہ کیا بتاؤں، ان آسانیوں نے نماز کی صحت پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا ہے، اور بھی سنئے حرم کے باہری حصہ میں دونوں جگہ یہ عام ہے کہ مردوں کے آگے عورتیں نماز پڑھ رہی ہیں عورتوں کے آگے مرد نماز پڑھ رہے ہیں، کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں ہے۔
حالات ایسے بنائے جارہے ہیں کہ حرم مکی کا بیرونی اور فوقانی حصہ مقامی لوگوں کے لئے دسترخوان بن چکا ہے، کھانا ہوٹلوں سے لائیں گے اور کھائیں گے حرم شریف میں،بہت سے احمق تو حرم شریف کی چھت پر بھی جوتوں سمیت چلتے پھرتے نظرآتے ہیں، منع کرو تو چپلوں کی پاکی کا فتوی دیتے ہیں، انھیں اتنا بھی نہیں معلوم کہ اللہ کے نبی حضرت موسی علیہ السلام کو وادی طوی پر جوتوں سمیت جانے سے منع فرمایا گیا تھا اور ارشاد ہواتھاإِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى، بے شک میں ہی تیرا رب ہوں، سو اپنی دونوں جوتیاں اتار دے، بے شک تو پاک وادی طویٰ میں ہے۔
پہلے مسجد نبوی کے ہر دروازے پر پلاسٹک کی شاندار تھیلیوں ہوتی تھیں بندہ اپنے جوتوں کو ان تھیلیوں میں رکھ کر ہی داخل ہوپاتا تھا لیکن اب تھیلیاں ندارد ہیں، لوگ بے تکلف جوتے اندر جاکر جوتوں کی جگہ پر رکھ دیتے ہیں، یہ سوچتے بغیر کہ ان جوتوں کے ساتھ کتنا گردوغبار مسجد میں پہنچ رہا ہے، کس قدر تقدس پامال ہورہاہے، پھر سوچیں وہی ہاتھ جن میں کچھ دیر پہلے جوتے تھے اب ہاتھ دھلے بغیر ان ہی ہاتھوں میں قرآن کریم ہے، آپ فتوی دینے نہ بیٹھ جائیں صرف اتنا سوچیں کہ عبادت گاہوں بالخصوص حرمین شریفین کاکس قدر احترام ہم ہندیوں پاکیوں اور بنگالیوں کے دلوں میں ہے اس احترام اور عظمت پر وہاں پہنچ کر کس قدر زد پڑتی ہے۔
ہماری تہذیب کے مظاہر جمیل بھی تھے جلیل بھی تھے
اگر تھے ابرِ بہار اپنے قلم تو تیغِ اصیل بھی تھے
مگر بتدریج اپنی عظمت کے ان منازل سے ہٹ گئے ہم
بہت سے اوہام اور اباطیل کے گروہوں میں بَٹ گئے ہم
ہم تو ان بزرگوں کے زیرسایہ پلے پڑھے اور بڑھے ہیں جو کبھی کعبہ کی طرف پیر نہیں کرتے تھے ، قبلہ کی سمت کبھی تھوکا تک نہیں، جوتے بھی قبلہ کی طرف رخ کرکے نہیں رکھے اور وہاں آپ کو یہ احترام بالکل نہیں دکھنے والا ہے۔
پتہ نہیں عرب اور عجم کی اصطلاح کب وضع ہوئی، کیوں پوری دنیا کو عرب وعجم میں تقسیم کردیاگیا، کیوں عرب کے علاوہ باقی دنیا کو گونگا کہاگیا لیکن یہ سچ ہے عربوں کا رویہ وہ نہیں رہا جو پہلے تھا، اب عرب پولیس سے لے کر عرب کے عام آدمی تک(خالص مدینہ والوں کی بات نہیں کررہا) سب کا رویہ بہت حد تک متکبرانہ ہے، کسی بھی بات کاجواب دیں گے تو تلخی اور ترش روئی کے ساتھ، کسی بھی جگہ سے ہٹاتے نہیں بھگاتے ہیں، وہ غیرعرب کے ساتھ بھیڑ بکری کی طرح کارویہ رکھتے ہیں، خوش اخلاقی، مروت، محبت، مہمان کا وقار، احترام، تواضع ان چیزوں کا تصور کم ازکم مکہ مکرمہ میں مت کیجیے اور اگرکوئی خوش اخلاقی سے پیش آگیا ہوتواس کو اپنی یااس کی سعادت تصور کیجیے۔
منفعت ایک ہے اِس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
آپ کو حرمین شریفین کے اریب قریب کہیں بھی کتب خانہ شاید نہ ملے جب کہ دیگر تمام قسم کی دکانیں ہرجگہ مل جائیں گی۔ عربوں کا مزاج پڑھنے کا نہیں رہا، خود 1930سے اب تک سو سال ہونے والے ہیں سعودی خاندان کی حکومت کو ان تمام حکمرانوں میں سب سے زیادہ دینی تعلیم یافتہ حکمراں موجودہ بادشاہ شاہ سلمان ہیں جو صرف حافظ قرآن ہیں ان سے پہلے کوئی حافظ بھی نہیں ہے۔
خیر انھیں پڑھائی سے کیا مطلب ہے جب بادشاہت ان کے گھرمیں ہے۔
آج وہاں سب سے متاثر شریعہ ہے، جو بادشاہ کے تابع ہے، عدلیہ ہے جو شاہ کے تابع ہے،امربالمعروف کا شعبہ ختم شد، نہی عن المنکر کا شعبہ تمت بالخیر۔ پھر بچاکیا؟
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر