مفتی محمد ناصر الدین مظاہری
ایک واقعہ کہیں پڑھا تھا کہ ایک شکاری نے تیتر کا شکار کیا، تیتر کو اپنے گھر لایا، تیتر کو کھانے میں کاجو، پستہ، بادام اور طرح طرح کی مقوی وخوش ذائقہ چیزیں کھلاتا رہا، رہن سہن اور دیکھ دیکھ اچھی طرح کی یہاں تک کہ تیتر تندرست وتوانا ہوگیا، اس کی خوبصورتی بڑھ گئی، اس کی آواز دور دور تک جاتی تھی کیونکہ آواز کاتعلق تندرستی سے ہی ہے۔
جب تیتر پورے طور پر پل کر تیار ہوگیا تو اب شکاری نے اپنے اس تیتر کو خوشنما پنجرے میں لے جا کر جنگل میں رکھ دیا اور خود قریب کی ایک جھاڑی میں دبک کر بیٹھ گیا اور تیتر سے کہا کہ بولنا شروع کر، تیتر نے بولنا شروع کیا، بہت سے تیتر اپنے ہم قوم کی بولی سن کر جمع ہوگئے شکاری نے ان تیتر وں کو پکڑا اور پالتو تیتر کو جدا کرکے بقیہ تمام تیتر وں کو بھون کر کھا گیا۔
جب بھی شکاری کو نئے شکار کی ضرورت ہوتی تیتر کی مدد سے بہت سے تیتر مل جاتے۔
دھیان دیجیے گاجو بادام سے پلنے والا تیتر اپنی حماقت اور ضمیر فروشی کی وجہ سے اپنی کتنی قوم کو ضائع اور ختم کراچکا ہے اور اپنے بارے میں اس کو اب بھی یہی خوش فہمی ہے کہ وہ محفوظ ہے۔
بالکل اسی جیسا ایک ویڈیو بہت پہلے دیکھا تھا کہ ایک شکرہ ایک پرندے کے گھونسلے پہنچتاہے ننھے ننھے چوزے موجود ہوتے ہیں، شکرہ ایک ایک کر کے ان چوزوں کو کھانا شروع کرتا ہے اور ایک معصوم چوزہ جو ابھی بچا ہوا ہے وہ بھی اپنے ہی ساتھی چوزے کا گوشت کھانے لگتا ہے۔
یہ منظر توآپ نے بھی دیکھا ہی ہوگا کہ آپ جب کسی مرغ کی دکان پر گوشت لینے پہنچتے ہیں تو مرغے والا کسی ایک مرغ کو پکڑتا ہے جب تک کوئی مرغ ہاتھ نہیں آجاتا تمام مرغ شور مچاتے ہیں ادھر ادھر بچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جیسے ہی مرغ ہاتھ آجاتا ہے بقیہ مرغ پرسکون ہوجاتے ہیں۔
ان واقعات سے آپ نے ضرور سمجھ لیا ہوگا کہ ہمارے درمیان موجود کچھ منافقین کاجو پستہ بادام والے ہیں، وہ ازسر تا قدم مراعات اور نوازشات میں گروی ہیں، ان کو جب بھی حکم مالک ہوگا بولیں گے جب اشارہ ہوگا چپ ہوجائیں گے۔ آپ نے یہی حال افغانستان میں دیکھا کتنے بے قصور مسلمان نمک حراموں نے مروا دئے، یہی حال عالم عرب، ترکی، لیبیا، شام، عراق میں دیکھا کہ آستین کے سانپوں نے کتنے ہی کلمہ گو حضرات کو مروادیا،کتنے ہی جعفر اور صادق اب بھی موجود ہیں جو ہر وقت ضمیر فروشی کے لئے اپنی قوموں کا سودا کرتے رہتے ہیں، آپ کو دونوں دشمنوں سے بچنے کی ضرورت ہے، بس ایک دشمن سے احتیاط کرنا ہے دوسرے دشمن کا دفاع ضروری ہے۔
بنگال کے میر جعفر کی عیاری ومکاری اور غداری ونمک حرامی کے بارے میں پروفیسر آفتاب اظہر لکھتے ہیں:
"جنگ پلاسی(1857ء)وہ جنگ ہے جس میں مرشدآباد (جہانگیر نگر، ڈھاکہ) کے نوجوان نواب سراج الدولہ کو اس کے سپہ سالار، میر جعفر کی غداری کے باعث شکست کا منہ دیکھنا اور جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ شہید نواب کا یہی وہ غدار سپہ سالار تھا جو عین اس وقت جب کہ جنگ فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو چکی تھی انگریز کمانڈر ، لارڈ کلائیو سے جا ملا۔ یہ وہی لارڈ کلائیو ہے جو آگے چل کر برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کا پہلا گورنر جنرل بنا۔ یہی وہ شخص ہے جس نے چند ہی سال بعد جنگ بکسر میں بنگال کے میر قاسم، دہلی کے شاہ عالم ثانی اور لکھن کے نواب شجاع الدولہ کی متحدہ افواج کو شکست دی جس کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ برصغیر پاک و ہند میں برٹش راج کی بنیاد پڑی بلکہ پورا بنگال آئندہ نوے سال (1947 تک)کیلئے برطانوی قلمرو میں شامل ہو گیا۔”
میر صادق دکن کا وہ نمک حرام تھا جو متحدہ ہندوستان میں میسور کے سلطان ٹیپو سلطان کے دربار میں وزیر کے عہدے پر فائز تھا، میر صادق کی غداری کے باعث انگریز فوج نے سلطان کوشہید کیاتھا۔
ایسے آستینوں کے سانپوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قدم قدم پر تکلیف دینی چاہی، یہی گروہ قرنا بعد قرن ہمیشہ مفادات کی پوجا کرتارہا، شاعر مشرق نے تو یہاں تک کہا :
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ دیں، ننگِ قوم، ننگِ وطن
ایسے ننگ ملت، ننگ دین اور ننگ وطن سے بچئے، اپنی مجالس کو اس گروہ سے دور رکھئے، اپنے رازوں سے پردہ نہ اٹھائیے، حکمت عملی اختیار کیجیے، ایک رہنئے نیک رہئیے۔