Site icon

قلب مضطر کی کچھ بے تابیاں

محمداطہرالقاسمی

نائب صدر جمعیت علماء بہار


اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے
مگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے
اسے تو اپنی بھی صورت نظر نہیں آتی
وہ اپنے شیشۂ دل کی تو گرد صاف کرے

جب کسی خاندان پر کوئی خارجی دشمن حملہ آور ہوجائے تو خاندان کے افراد اپنے نجی اختلافات کو بھول کر اور ذاتی چپقلش اور گھریلو چشمک کو فراموش کرکے آپسی اتحاد و یکجھتی کے ساتھ پوری قوت و توانائی اور بھرپور عزم و استقلال کے ساتھ ان خارجی دشمنوں سے مقابلہ کرکے خاندانی اقدار کو بچالیتے ہیں۔کیونکہ خاندان ہی نہیں رہے گا تو آپسی جھگڑے کن سے اور کیونکر ہوں گے!
مجھے یاد آرہاہے کہ جب اڈوانی کی رتھ یاترا کو صوبہ بہار کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ جناب لالو پرساد یادو نے روکا تھا تو ایک بڑے سبھا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بڑی خوبصورت بات کہی تھی،انہوں نے کہا تھا کہ جب لڑائی دنگے میں ملک کے لوگ ہی مرجائیں گے اور دیش میں آدمی ہی نہیں بچے گا تو مندر میں گھنٹی کون بجائے گا اور مسجد میں عبادت کون کرے گا!
آج ملک و ملت پر یہ جو نازک ترین مرحلہ آیا ہوا ہے جس کی صحت و سقم پر ملک کے مستقبل کی صحت و سقم کا دارومدار ہے یہاں بحیثیت ذمےدار شہری کے ملک کو بچانا اور بحیثیت مسلمان کے ملت کو بچانا یہاں کے ایک ایک حساس و باشعور فرد کی قومی ملی و مذہبی ذمےدارای ہے۔
میرا مشاہدہ اور تجزیہ مجھے بتاتا ہے کہ ہم نہایت نازک ترین موڑ پر کھڑے ہوگئے ہیں۔
رب کعبہ کی قسم کھاکر اگر کہوں تو کہوں گا کہ حالات ایسے بن چکے ہیں کہ مجھ جیسا لاابالی پن کا شکار ادنیٰ بندے کی بھی بیشتر راتیں بےچینیوں کی نذر ہوجاتیں اور سوتے سوتے اچانک آنکھیں کھل جاتی ہیں اور لگتاہے کہ کچھ ہونے والا ہے،ایک خوف،ایک احساس،ایک درد،ایک فکر و ہم اور ایک اضطراب و بےچینی بسا اوقات اس طرح مضطرب کر دیا کرتی ہے کہ سوائے رب کے حضور ہاتھ اٹھانے کے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔
اچھا اور ایک بات کہ عقیدے کی رو سے جب قبروں میں ہم میں سے ہر شخص تنہا تنہا جواب دہ ہے تو ملی و مذہبی ذمےدارایوں کے حوالے سے ہم صرف دوسروں پر تکیہ کرنے اور خود کو اس سے بری الزمہ سمجھنے کے قائل کیوں کر ہوسکتے ہیں۔
مزید برآں انفرادی یا اجتماعی جو لوگ کسی بھی لحاظ سے آگے ہیں،فرنٹ پر ہیں یا عوام یا ملک یا حکمراں طبقے نے انہیں ملت کا نمائندہ تصور کیا ہوا ہے،ان کی تقویت کا سامان مہیا کرنے،ان کے حق میں دعاؤں کا اہتمام کرنے اور استطاعت بھر ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی بلکہ کردار کشی کرنا،زخموں کو کردینا بلکہ ان پر نمک پاشی کرنا اور اس عمل کو عمل اور کام تصور کرنا میرے ناقص خیال میں ملک و ملت دونوں کی بیخ کنی اور اس کے وقار و اعتبار کو داغدار کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
یاد رکھیں کہ ایک لانگ ٹائم منصوبے کے تحت ہمارے ہاتھوں میں موبائل تھمایا گیا ہے تاکہ ہم گھر بیٹھے من چاہی گیان بانٹیں اور اسکرین پر انگلیوں کو ہلا کر ملک و ملت کے کام گاروں کے دلوں پر شب خوں مارتے ہوئے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارا کریں۔
الحاصل ملک بھر میں ملت اسلامیہ کے پاس فرنٹ لائن کی باوقار و معتبر بس چند ایک ہی تو ہماری ملی جماعتیں و قیادتیں ہیں اور بخدا لاکھ کمیوں اور ہزار کوتاہیوں کے باوجود میرے ناقص مطالعے کے مطابق عین مصیبت کے ایام میں ان کی ہی سرفروشی سے ہم اپنی دوڑ میں ہانپتے کانپتے اور سمندر کے مد و جزر میں ڈوبتے بچتے ہی سہی؛کامیابی کی منزلیں پانے والے ہیں ورنہ ابابیلوں کے قصے ہمیشہ دہرائے نہیں جاتے اور مردم ساز شخصیتیں اور تاریخ ساز جماعتیں اچانک آسمان سے نازل نہیں ہوا کرتیں۔
بلکہ اب تو دن ایسے آنے لگے ہیں کہ جو موجود ہیں،وہ بھی صابر و شاکر اور صاحبِ عزم و عمل ایسے ہیں جو برسرپیکار زنداں نظر آرہے ہیں’۔۔۔اللہ کرے کہ اتنے برے دن نہ آئیں!
لٰہذا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہو یا جمعیت علماء ہند،جماعت اسلامی ہو یا امارت شرعیہ،ادارہ شرعیہ ہو یا جمعیت اہلحدیث اور ام المدارس دارالعلوم دیوبند و وقف دارالعلوم دیوبند ہوں یا مظاہر علوم سہارنپور اور ندوۃ العلماء لکھنؤ وغیرہ ؛ ان سب کی ایک ایک اینٹ بخدا آج سونے کی مہنگی ڈلیوں سے بھی قیمتی اور ان کا ایک ایک ذمےدار بلامبالغہ اکیلے سو سو تاجوں کے تاجدار ہیں،یہی بلاشبہ پوری ملت اسلامیہ ہندیہ کے ترجمان ہیں۔
ان سب کی مثال انسانی جسم کی طرح ہے،جو ہاتھ پاؤں دل دماغ اور بصیرت و بصارت پر مشتمل ہے،یہ سب بھی ملت اسلامیہ کے اعضاء و جوارح ہیں،کوئی ان میں سے ہاتھ تو کوئی پاؤں ہے،کسی کی حیثیت آنکھ اور کان کی ہے تو کسی کا مقام ومرتبہ قلب و دماغ اور روح کی طرح ہے۔انسانی جسم کے کسی ایک عضو کے معطل ہوجانے پر اگر جسم ناکارہ ہوجاتاہے تو ملت اسلامیہ ہندیہ کے ان دست و بازو کو زک پہنچائی گئی تو بلاشبہ پوری ملت بیماریوں کا شکار ہوسکتی ہے۔
خدائی نصرت ان ہی اجتماعی عزم و عمل کے ساتھ وابستہ رہی ہے،ہے اور رہے گی بھی انشاء اللہ۔
لٰہذا میری عاجزانہ درخواست ہے کہ خدا را قلم اور زبان پر قابو رکھئے،انہیں اپنے خاندان کے افراد کی طرح سمجھ کر مل جل کر تحفظ کا کاندھا دیجیۓ اور نگیٹیو اور منفیت کو کم اب یکسر بھول جائیے،اختلافات ہوئے ہیں اور ہوتے رہیں گے لیکن ابھی گھر بچانے کا وقت آن پڑا ہے،گھر بچے گا تو دسترخوان پر مل بیٹھ کر گلے شکوے کبھی بھی دور کرلیں گے- انشاءاللہ

Exit mobile version