از قلم: عبد الغفار صدیقی
____________________
مدارس اسلام کے قلعے ہیں۔یہاں محافظ دین کو تربیت دی جاتی ہے،علم دین حاصل کرنے والے مہمانان رسول ہیں۔فارغین مدارس کے سبب ہی ہماری مساجد آباد ہیں۔اگر مدراس نہ ہوتے تو نماز جنازہ پڑھانے والے بھی میسر نہ آتے۔مدارس اور فارغین مدارس کی شان میں اس طرح کے بہت سے تعریفی اور تحسین آفریں کلمات ہماری سماعتوں سے ٹکراتے ہیں۔لفظ مدرسہ اگرچہ تمام تعلیم گاہوں کے لیے استعمال ہوسکتا ہے لیکن فی الوقت یہ لفظ دینی تعلیم گاہوں کے لیے مستعمل ہے۔مکتب اور دارالعلوم جیسے الفاظ مدرسہ کے مترادفات ہیں۔
دینی تعلیم کی ضرورت،اہمیت اور افادیت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے۔قرآن مجید پڑھنا،اس کو حفظ کرنا،حدیث کا علم حاصل کرنا،فقہ میں کمال حاصل کرنا،حافظ،عالم اور فاضل بننا نہ صرف اچھا عمل ہے بلکہ مسلم معاشرہ کی بیش بہاضرورت ہے۔جو لوگ علماء پر تنقید کرتے ہیں ان کا منشاء یہ نہیں ہے کہ لوگ علم دین حاصل نہ کریں بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے علماء اور فارغین مدارس جدید اور عصری علوم بھی حاصل کریں۔وہ صرف مسجد اور مکتب تک ہی محدود ہوکر نہ رہیں بلکہ دیگر ادارہ جات میں بھی اپنا فعال کردار ادا کریں۔علماء کی جانب سے بھی جدید علوم کی کلیۃً مخالفت نہیں کی جاتی،وہ بھی چاہتے ہیں کہ علم دین کے ساتھ ضروری عصری مضامین پڑھے اور پڑھائے جائیں۔
اس وقت میرا موضوع علوم کی تقسیم یا دینی علم کی اہمیت و فضیلت بیان کرنا نہیں ہے،بلکہ میں قارئین کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ مدارس میں مہمانان رسول کس کسمپرسی اور ناگفتہ بہ حال میں رہتے ہیں۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مدارس میں یتیم بچے پڑھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ وہاں یتیم بچے غیر یتیم کے مقابلہ کم ہوتے ہیں،مدارس میں غریب بچوں کی اکثریت ہے۔بیشتر بچے معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ طبقے اور علاقوں سے آتے ہیں۔وہ اپنے گھر سے ہی محرومی کا احساس لے کر آتے ہیں۔اس کے بعد مدرسہ میں جو سلوک ان کے ساتھ ہوتا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔
مدرسہ کے بچوں کے ساتھ جو زبان ہمارے اساتذہ بولتے ہیں وہ غیر مہذب زبان کے زمرے میں آتی ہے۔تو تڑاک اور ابے تبے سے ان کو مخاطب کیا جاتا ہے۔بہت کم اساتذہ ہیں جو ”تم“کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔لفظ ”آپ“ کا استعمال تو شاید ہی کوئی کرتا ہو۔مغربی یوپی میں اکثر لوگ آپ کا لفظ اپنے باپ کے لیے نہیں بولتے،مدرسہ کے غریب اور یتیم بچوں کے ساتھ کون بولے گا۔بظاہر آپ کو لگے گا کہ یہ بات معمولی ہے اور اس انداز تخاطب سے کیا فرق پڑتا ہے؟میں سمجھتا ہوں کہ شخصیت کی تعمیر میں پہلی اینٹ کسی کو مخاطب کرنے کا انداز ہی ہے۔اگر وہ انداز مہذب ہوگا تو آپ ایک باسلیقہ اور مہذب معاشرہ تشکیل دیں گے اور اگر آپ کسی کو غیر مہذب لب و لہجہ میں مخاطب کریں گے تو اس کے نتائج منفی مرتب ہوں گے۔سیرت رسول اکرم ﷺ میں ہم پڑھتے ہیں کہ آپ ؐ بچوں کوآگے بڑھ کرخود سلام کرتے تھے۔اپنے خادم حضرت انس ؓ کو ”یابنیَّ“(اے میرے بیٹے)کہہ کر بلاتے تھے۔ایک طرف ہم ان بچوں کو مہمان رسول کہتے ہیں اور دوسری طرف ان کے ساتھ غیر مہذب زبان کا استعمال کرتے ہیں،یہ بات قابل توجہ ہے۔
مدارس کے طلبہ کے ساتھ صرف غیر مہذب زبان کا ہی استعمال نہیں ہوتا بلکہ ان سے استاذ کی خدمت کے نام پر وہ کام بھی کرائیں جاتے ہیں جنہیں خود دین میں ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔گرمیوں میں پنکھے جھلوائے جاتے ہیں،سر پر تیل کی مالش کرائی جاتی ہے،کپڑے دھلوائے جاتے ہیں اور بعض لوگ اپنے پاؤں بھی دبواتے ہیں۔ایک طرف علماء بیان فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ اپنے کام خود کرتے تھے،اپنا جوتا بھی خود مرمت فرماتے تھے،حضرت سیّدنا ثوبان ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ؐ نے فرمایا: ”جو مجھے ایک بات کی ضمانت دے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔“آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: میں ضمانت دیتاہوں۔ نبی ؐ نے ارشاد فرمایا: لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرنا۔ (اس کے بعدآپ رضی اللہ عنہ کسی سے کچھ نہ مانگا کرتے تھے حتی کہ)آپ گھوڑے پر سوار ہوتے اور کَوڑا(یعنی چابک)نیچے گر جاتا تو کسی سے اٹھانے کے لئے نہ کہتے بلکہ گھوڑے سے نیچے اتر کر خود ہی اٹھالیتے۔ (ابن ماجہ)دوسری طر ف علمائے دین مہمانان رسول سے ذاتی خدمت لیتے ہیں،آخر یہ کونسا اسلام ہے؟۔
مہمانان رسول ؐ کو کھانابھی اس طرح پیش کیاجاتاہے کہ اس سے ان کی خود داری مجروح ہوتی ہے۔بعض مدارس میں بچے اہل محلہ کے دست نگر رہتے ہیں اورلوگوں کے گھروں سے کھانا لاکر کھاتے ہیں۔بعض گاؤں میں دعوتوں کا رواج ہوتا ہے،فاتحہ خوانی کا رواج بھی گاؤں میں عام ہے،تیجے،تیرہویں اور چالیسوں میں مدرسہ کے بچوں کی دعوتیں کی جاتی ہیں۔جہاں مطبخ کا نظام ہے وہاں لائن لگاکر کھانا تقسیم ہورہا ہوتا ہے۔کہیں کہیں کمروں پر ٹفن بھجوایا جاتا ہے۔شاذ و نادر ہی مدارس میں طعام گاہ ہوتی ہے۔ایک تو کھانے کا معیار پست اوپر سے کھلانے کا اندازایساجیسے کہ کسی فقیر کو کھانا کھلارہے ہیں۔ اس سے بچے کی خود داری مجروح ہوتی ہے اور اس کا ضمیر مرجاتا ہے وہ خود کو دنیا کا پست ترین انسان تصور کرتا ہے۔بعض مدارس میں ناشتہ نہیں ملتا،کہیں روز چنا ابال کر رکھ دیا جاتا ہے۔ایک مدرسہ کے طالب علم نے مجھے بتایا کہ وہ بارہ سال مدرسہ میں رہا۔اسے روزانہ ناشتہ میں چنے ملتے رہے۔چنا ایک اچھی غذا ہے،اس سے کس کو انکار ہے؟لیکن کیا روزانہ کھایا جاتا ہے؟کہیں روزانہ دال کھلائی جاتی ہے،وہ بھی ایسی پتلی کہ اس سے وضو کیا جاسکتا ہو۔ہم جانتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم آسمانی کھانے سے تنگ آگئی تھی۔یہ تو بچے ہیں یہ کیسے گوارہ کریں گے؟آپ کروڑوں روپے مدرسہ پر خرچ کرتے ہیں،عالیشان و بلند وبالا عمارتیں بناتے ہیں،مہتمم حضرات بہترین قسم کی کاروں میں سفر کرتے ہیں،پھر ان مہمانان رسول کے کھانے پر کیوں بخالت سے کام لیتے ہیں۔جب کہ سارا چندہ ان ہی کے نام پر لیاجاتا ہے۔
مدارس میں طلبہ کی رہائش کا نظم بھی غیر معیاری ہوتاہے۔چند دن پہلے ایک مدرسہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔بچوں کی قیام گاہ دیکھی۔شاید 15فٹ لمبا اور 12فٹ چوڑا کمرہ تھا۔معلوم ہوا کہ اس میں 22بچے قیام کرتے ہیں۔جن میں بالغ اور نابالغ سبھی ہیں۔نبی ﷺ تو حکم دیں کہ”بچہ جب دس سال کا ہوجائے تو اس کا بستر الگ کردو“ اور آپ 22بچوں کو ایک چھوٹے سے کمرے میں قیام کراتے ہیں،ان کو کروٹ لینے کی جگہ بھی نہیں ملتی ہوگی۔ظاہر ہے ان کے جسم ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوں گے؟کیا اس طرح ان میں غیر اخلاقی اعمال پروان نہیں چڑھیں گے؟
مدارس کے اساتذہ بچوں کو جس طرح زدوکوب کرتے ہیں اور ان کو جسمانی سزا دیتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسان نہیں جانور ہیں،ہر طالب علم خوف کے سائے میں سانس لیتا ہے۔کوڑوں سے مارا اور پیٹا جاتا ہے۔نفاست،طہارت اور صفائی و آرائش صرف دفتر اہتمام تک ہی نظر آئے گی۔باقی مقامات پر نفاست آپ کا منہ چڑارہی ہوگی۔بیت الخلاء اور حمام بھی انتہائی گندے ملیں گے۔غرض پورے مدرسہ کا سسٹم اس قدر ناگفتہ بہ کہ خود کمیٹی کے ارکان اور مہتمم صاحب اپنے بچوں کو وہاں نہیں پڑھائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس میں معاشی طور پر خوش حال گھرانوں کے بچے تعلیم حاصل نہیں کرتے۔سماج کے وہ لوگ جو مدارس کو موٹی موٹی رقمیں چندہ میں دیتے ہیں وہ بھی اپنے بچوں کو مدارس میں پڑھانا پسند نہیں کرتے۔
جب آپ اپنی قوم کے انتہائی پسماندہ بچوں کو دین کی تعلیم کے لیے منتخب کریں گے اور ان کے ساتھ بھی توہین آمیز رویہ اختیار کریں گے تو پھر خوددار رہنما کہاں سے لائیں گے؟پھر حق گو اور بیباک علماء کہاں پیدا ہوں گے؟جو نسل مالداروں کی زکاۃ اور ذمہ داران مدارس کے توہین آمیز سلوک کے درمیان پل کرجوان ہوگی اس سے آپ یہ توقع کیوں کرتے ہیں کہ وہ آپ کو کفار کی غلامی سے نکالیں گے۔جن کے ضمیر مرگئے ہیں،جن کی خود داری کو لہو لہان کردیا گیا ہو۔کیا وہ باطل سے آنکھ ملاسکتے ہیں؟اسلامی انقلاب کی بات کرسکتے ہیں؟ وہ تو صرف دو رکعت کی امامت اور جن بھوت ہی بھگاسکتے ہیں۔
میں نے مدارس کا جو حال بیان کیا ہے وہ ہماری ملت کے99اعشاریہ 99 فیصد مدارس کا ہے۔ہوسکتا ہے ملک کے چند مدارس کا حال بہتر ہو۔اس بدترحال کی کئی وجوہات ہیں۔جن میں ایک مدارس کی کثرت ہے۔برادری اورمسالک کے نام پر مدرسے ہیں،جو عالم چندہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ اپنا مدرسہ الگ قائم کرلیتا ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ علماء نے قوم کو سمجھادیا ہے کہ جب تک مدرسہ میں بیرونی طلبہ نہیں ہوں گے یا جس مدرسہ میں فیس لی جائے گی، زکاۃ نہیں لگے گی۔جب کہ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔اس پر کسی دوسرے موقع پر بات کریں گے۔میری رائے ہے کہ مدارس کے نظام کو بہتر بنایا جائے،صفائی ستھرائی سے لے کر قیام و طعام کے نظم کو معیاری بنایاجائے تاکہ قوم کے خوش حال گھرانوں کے بچے بھی علم دین حاصل کرسکیں اور قوم کو خوددار رہنما میسر آسکیں جو باطل سے صرف آنکھیں ہی نہ ملائیں بلکہ اس کو دنداں شکن جواب دے سکیں،جنگ آزادی کی تاریخ میں جن علماء نے جام شہادت نوش کیا اور انگریزوں سے لوہا لیا تھا ان کے اندر خودداری بھی تھی اور خود اعتمادی بھی،شاید ان کی کفالت مال زکاۃ سے نہیں کی گئی تھی اور ان کے سامنے اسوہ رسولؐ کے ساتھ ساتھ یہ فرمان رسولؐ بھی تھا۔ ”لَایَنْبَغِیْ لِلْمُؤْمِنِ اَنْ یُّذِلَّ نَفْسَہٗ‘ یعنی مومن کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے نفس کو ذلت میں ڈالے۔ (ترمذی)