Slide
Slide
Slide

ملت کا ایک بے لوث خادم اور گمنام وکیل ،سید امین الحسن رضوی

از قلم: محمد علم اللہ (نئ دہلی)

________________

بائیس سال قبل 5 فروری 2002 کو ہندوستانی مسلمانوں نے ایک بہادر اور بے لوث کارکن، مصنف، صحافی اور ایک وکیل کھو دیا تھا جن کی یادیں عوام کے ذہنوں سے غائب ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ میں یہ مضمون سید امین الحسن رضوی کی 22 ویں برسی پر انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں۔ 7 برس قبل جب میں اپنی کتاب ’’مسلم مجلس مشاورت: ایک مختصر تاریخ‘‘(جسے فاروس میڈیا اینڈ پبلشنگز، نئی دہلی نے شائع کیا ہے) کے لیے متعدد پرانے اخبارات و رسائل کی چھان بین کر رہا تھا، اس وقت ان کی متفرق تحریریں نظر سے گذریں جو ’’ریڈینس ویوز ویکلی‘‘ اور اردو ماہنامہ ’’افکار ملی‘‘ میں شائع ہوئی تھیں۔


ان اداریوں اور مضامین کو پڑھتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ملی معاملات میں مرحوم کی رائے اور نظریے کا علم ہوا بلکہ اس بات کا بھی ادراک ہوا کہ وہ شرعی معاملات میں کسی بھی قسم کے لیت و لعل اورشریعت پر حرف آنے والے سمجھوتےکے قائل نہیں تھے۔ ان کا قلم بے باک اور رائے منصفانہ ہوتی تھی۔ ان تحریروں کو پڑھنے کے بعد ان کی شخصیت کا رعب دل پر بیٹھ گیا، اکثر میں سوچا کرتا کہ کیسے کیسے ہیرے تھے، جنھوں نے آزادی کے بعد ملت کی ناؤ کو کھینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔


یوں تو کئی مرتبہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان (ایڈیٹر ملی گزٹ)، سید نور الزماں (سابق ایڈیٹر ٹریبیون انگریزی) محمد غزالی خان (لندن) وغیرہم کے ساتھ بات چیت میں امین الحسن رضوی صاحب کے بارے میں سن رکھا تھا۔ لیکن اس مضمون کو لکھنے سے قبل ان کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ان کے صاحب زادگان سید اطہر حسین رضوی اور سید عامر حسین رضوی سے ملاقات کی تو گویا خزانہ ہی ہاتھ آ گیا اور ان کی زندگی کے متعدد گوشے وا ہوئے۔


یہ مضمون ان کے دونوں صاحبزادوں کے ذریعے فراہم کی گئی کچھ زبانی اور بہت کچھ دستاویزی معلومات اور کچھ علیگڑھ کے سابق طلبا کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر تحریر کیا جا رہا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ اتنی قد آور شخصیت پر کسی نے کام کیوں نہیں کیا اور ان کا اتنا قیمتی علمی خزانہ اب تک کیوں نہیں شائع ہوا۔ محمد عامر حسین رضوی سید امین الحسن رضوی صاحب کے پانچویں صاحبزادے ہیں جنھوں نے ان کی ہر چیز کو سینت سینت کر رکھا ہوا ہے۔ جس میں ان کے مسودات، خطوط، مضامین، تراجم سبھی کچھ شامل ہیں ۔ اسی میں کچھ فائلوں کی ورق گردانی کے دوران ایسے خطوط بھی ملے جسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ امین الحسن رضوی صاحب صرف انگریزی یا اردو ہی نہیں بلکہ فارسی اور عربی کا بھی اچھا ذوق رکھتے تھے اور فن عروض پر بھی ان کی اچھی نظر تھی۔


سید امین الحسن رضوی کا تعلق صوبہ کرناٹک کے رائچور کے ایک چھوٹے سے نواحی قصبہ ‘یرمرس’سے تھا۔ وہاں آپ نے 12 فروری 1925 کو آنکھیں کھولیں، یعنی جب ہندوستان آزاد ہوا تو ان کی عمر محض 23 سال تھی۔ انھوں نے بہت قریب سے تقسیم کے بعد کا منظر اور لٹی پٹی قوم کو سنبھلتے ہوئے دیکھا تھا، شاید اسی وجہ سے ان کے قلم میں خاص قسم کا سوز اور درد تھا،ساتھ ہی بے باکی اور تیزی بھی تھی۔


یوں تو انھوں نے متعدد اداروں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، مسلم مجلس مشاورت، آل انڈیا کاؤنسل فار مسلم اکانامک اپلفمنٹ، پیپل موومنٹ آف انڈیا، آئی او ایس وغیرہ کو اپنے فیضان سے سیراب کیا وہیں خاص طور پر آزادی کے بعد رکن جماعت نہ ہوتے ہوئے بھی ارکان کی طرح جماعت اسلامی ہند کو اپنے خون جگر سے سینچنے میں نمایاں کردار ادا کیا، وہ عرصۂ دراز تک جماعت اسلامی ہند کے لیگل ایڈوائزر بھی رہے۔ انھوں نے ایک طرف اپنے قلم سے مورچہ سنبھالا تو دوسری جانب غریبوں، بیواؤں اور کمزروں کے لیے وکالت کا فریہ بھی انجام دیا۔


آپ اپنے والدین کی نو اولادوں میں سے دوسرے نمبر پر تھے۔ ابتدائی تعلیم رائچور میں حاصل کی۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور اپنے بڑے بھائی سید منظور الحسن رضوی کے ساتھ رائچور میں ہی وکالت کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔ 1965 میں پہلی مرتبہ رائچور سے سید ابوالاعلیٰ مودودی سے تعلق رکھنے اور جماعت اسلامی سے وابستگی کے بدولت اسیر زنداں کیے گئے اور پھرجون 1975 میں اندرا گاندھی کے دور حکومت میں ایمرجنسی کے دوران تین مرتبہ بدنام زمانہ قانون ڈیفینس آف انڈیا رول ( ڈی آئی آر، جسے آج کے ٹاڈا جیسے سخت قانون کے برابر سمجھا جا سکتا ہے) کے تحت مصائب و آلام کے ساتھ نظر بند کیے گئے۔ لیکن ان سب کے باوجود ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی۔


ایمرجنسی کے تاریک دور کے اختتام پر 1977 میں اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر اشاعت اسلام ٹرسٹ اور بورڈ آف اسلامک پبلی کیشنز کے تحت نکلنے والے ہفت روزہ اخبار ‘‘ریڈینس ویوز ویکلی’’ کے مدیر اعلیٰ بنائے گئے جسے صحیح معنوں میں ایک اعلیٰ معیار کا اخبار بنانے میں انہوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ 1985 میں نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر جماعت سے الگ ہوئے تو حکیم عبد الحمید کی خواہش پر جامعہ ہمدرد کے پبلیکیشن میں تقریبا تین سال آفیسر کے طور پر کام کیا۔


انھوں نے ہزاروں مضامین اور مقالات کے علاوہ کتابیں بھی تصنیف کیں جن میں بطور خاص قرآن اور قانون نکاح و طلاق، مضامین قرآن کریم کی 3 آیات کا ترجمہ اور اسکی وضاحت، قران مجید کے انگریزی تراجم میں غلطیاں، ماڈرن بیت الحکمۃ اینڈ مسلم پرسنل لاء، اسلامک پرائمرس (چھ جلدوں میں)، انگلش ریڈرس (چھ جلدوں میں)، بیٹلس بائی دی پروفیٹ ان دی لائٹ آف دی قرآن، ڈائلاگ بٹوین ہندو اینڈ مسلمس، سپریم کورٹ اینڈ دی مسلم پرسنل لاء ،مولانا مودودی کے خطوط وغیرہ شامل ہیں۔ انھوں نے تفہیم القران کا بھی انگریزی میں ترجمے کا کام شروع کیا تھا اور سورہ بقرہ کا اچھا خاصہ ترجمہ کر بھی لیا تھا لیکن بیماری نے ایسا حملہ کیا کہ وہ کام پیچھے چھوٹ گیا۔ رضوی صاحب نے اس کا تذکرہ اپنی کتاب مولانا مودودی کے خطوط میں کیا ہے۔ مولانا مودودی کے خطوط پر مشتمل یہ کتاب بھی ایک شاہکار ہے، جس کے مطالعے سے مولانا مودودی سے ان کی عقیدت اور اسلام سے ان کی شیفتگی کا اندازہ ہوتا ہے۔


رضوی صاحب پیشے سے تو وکیل تھے لیکن زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کے لیے انھوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا تھا،لیکن اپنے سابقہ پیشے سے کلیتا ً رشتہ بھی نہیں توڑا۔ چنانچہ ایک طرف جہاں وہ برسوں جماعت اسلامی ہند کے قانونی مشیر رہے وہیں مشہور زمانہ شاہ بانو کیس میں پرسنل لاء کی جانب سے وکالت کے فرائض بھی انجام دیے اور ڈٹ کر، بے خوف انداز میں اسلامی موقف کو واضح کیا۔ انھوں نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے لیے بھی لڑائی لڑی۔ بھاگلپور میں ہندو مسلم فساد ہوا تو اس کے بعد جو کمیشن بنایا گیا اس میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ 1975 میں اندرا گاندھی کے ذریعے ایمرجنسی نافذ کی گئی تو نہ صرف اپنا مقدمہ خود لڑا بلکہ جیل میں رہتے ہوئے اپنے ساتھ بہت سارے لوگوں کی پیروی بھی کی اور انھیں رہائی دلوائی۔ یہ بات بھی کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر امریکہ میں حملہ کے بعد ہندوستانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی حکومت نے اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) پر جب پابندی لگا دی تو جو شخص سب سے پہلے بلا معاوضہ مقدمہ لڑنے کے لیے سامنے آیا وہ کوئی اور نہیں امین الحسن رضوی ہی تھے جنھوں نے پیرانہ سالی کے باوجود ملت کا مقدمہ لڑنے کے لیے مدراس کا سفر کیا، اسی سفر میں بنگلور میں جہاں ٹریبیونل کی دوسری سماعت ہونی تھی 5 فروری 2002 کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوگیا اور ملت اسلامیہ ہند ایک بے لوث سپوت سے محروم ہو گئی۔


ان کے انتقال کے بعد ان کے بچوں سید عامر رضوی، سیدہ فرحت جہاں رضوی اور سیدہ طلعت جہاں رضوی نے ایک یادداشت بعنوان : ‘‘وہ ایک دل جو دمک رہا تھا خلوص و ایماں کی تابشوں سے۔۔۔’’ رقم کی تھی ۔اس یاد داشت میں ان کی صاحبزادی فرحت رضوی لکھتی ہیں: ‘‘رات کے کھانے پر سب جمع تھے، سب دسترخوان پر بیٹھ گئے تو ہمارے دادا جان جن کو ہم میاں جان کہتے تھے نے پوچھا کیا بات ہے میاں! آج بڑے خوش نظر آ رہے ہو؟، بولے جی ہاں میاں جان آج مجھے اللہ کے فضل اور آپ لوگوں کی دعاؤں سے تین مقدمات میں بڑی زبردست کامیابی ملی ہے۔ میاں جان اور دادی امی بہت خوش ہوئے اور بولے ماشاء اللہ، ماشاء اللہ مگر یہ تو تم نے بتایا نہیں کہ فیس کیا ملی۔ اس سوال کے جواب میں بابا جان مسکرائے اور نظریں جھکا لیں۔ میاں جان نے پھر دوبارہ پوچھا ارے میاں تم نے بتایا نہیں کہ کیا فیس ملی، پھر قدرے توقف کیا اور بولے یہ کیس کافی نادار لوگوں کے تھے جو بے چارے فیس نہیں دے سکتے تھے، ان کی جائدادیں، زمینیں واپس مل گئیں یہ بڑی بات ہے وہ فیس کہاں سے لاتے۔ میاں جان ہنس کر بولے اپنے آفس کے دروازے پر ایک بورڈ لکھوا کر لگوا دو کہ یہاں مقدمات کی فیس نہیں لی جاتی مفت پیروی کی جاتی ہے۔ ہماری دادی اماں بولیں، کیسی باتیں کرتے ہیں آپ ایسے کاموں کی تو حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے جو نیکیوں کی ترغیب دلائے، آپ بورڈ لگوانے کو کہہ رہے ہیں تو ساتھ ہی اس جملہ کا بھی اضافہ کیجیے کہ صرف دعائیں لی جاتی ہیں، دادا جان بڑے خوش ہوئے اور بولے تم نے واقعی بڑا اچھا کام کیا ہے، بڑی خوشی ہوئی، یاد رکھو اپنے علم اور قلم کی زکوٰۃ اسی طرح نکالی جاتی ہے۔’’


ان کی یادداشت میں درجنوں واقعات بھرے پڑے ہیں جی چاہتا ہے کہ سب کو بیان کرتا چلوں لیکن ایک چھوٹے سے مضمون میں اس کی گنجائش نہیں ہے پھر بھی چند واقعات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ جب رضوی صاحب ڈی آر آئی کے تحت گرفتار ہوئے تو ان کی والدہ نے انھیں ایک خط لکھا مکمل خط پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے لیکن یہاں محض خط سے ایک چھوٹا سا اقتباس نقل ہے، اس سے ایک ماں کی عظمت اور جذبۂ قربانی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، وہ لکھتی ہیں:’’تم بھی سن لو اور اپنے ساتھیوں سے بھی میری جانب سے کہ دینا کہ ایسی مشروط رہائی ہر گز قبول نہیں جو تمہارے قلم کو زنجیر بنا دے اور زبانوں کو مفلوج کردے۔ مجھے اعتماد تو ہے کہ اپنی کسی ذاتی تکلیف کے خیال سے تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کرے گا، لیکن اتنا ڈر ضرور ہے کہ ان لوگوں کی محبت میں جنھیں تم لوگ پیچھے چھوڑ آئے ہو پتہ نہیں شیطان تمہیں بزدل بنا دے۔ تم لوگ نہیں بھی ہو تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے گھروں کی نگہداشت کا بندو بست کر رکھا ہے۔ ایک وقت کو تم ہم بے بس ہو سکتے ہیں لیکن قدرت کبھی بے بس نہیں ہو سکتی، اللہ پر بھروسہ رکھو کسی سے رحم کی بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں۔‘‘۔


جن لوگوں نے مولانا محمد علی جوہر ؒ کے بارے میں پڑھا ہے اس اقتباس سے ان کے ذہن میں بی اماں گھوم گئی ہوں گی، جنہوں نے انگریز پولیس افسر کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ اگر ان دونوں میں سے کسی نے بھی بزدلی کا مظاہرہ کیا تو میں اپنے ہاتھوں سے خود ان کا گلا دبادوں گی۔ ایسی ہی مائیں ایسے بیٹوں کو جنم دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)
اسی یاددادشت سے ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیے: ‘‘ایک رات امی نے دیکھا بابا سر پکڑے بیٹھے ہیں، پوچھا خیریت تو ہے، کہنے لگے آج مجھے خود اپنے اوپر غصہ آ رہا ہے، پھر بتایا ہفتہ پہلے ایک صاحب جو بینک میں سروس کرتے ہیں کو میں نے ایک ہزار روپئے دس دس کے نئے نوٹوں کے لیے بھجوائے تھے۔ تین چار دن پہلے وہ صاحب آئے اور بیس بیس کے نوٹوں کی ایک گڈی گھر میں بھیج کر چلے گئے۔ میں نے خاموشی سے رکھ لی اور یہ خیال نہیں کیا کہ یہ گڈی تو دو ہزار کی تھی، اب سونے کو لیٹا تو خیال آیا، اب پریشانی ہو رہی ہے کہ ان صاحب نے کیا سوچا ہوگا میں نے خاموشی سے دو ہزار رکھ لیے۔انھوں نے بھی ازراہ مروت کچھ نہیں کہا، اب مجھے اس قدر شرمندگی ہو رہی ہے کہ جب تک یہ ایک ہزار روپیہ انھیں نہ لوٹا دوں سو نہیں پاؤں گا۔۔۔ رات بھر شرمندگی سے سو نہیں سکے۔ صبح فجر کی نماز کو جب بھائی جانے لگے تو ان کو ایک ہزار روپیہ دیے اور معذرت کا پرچہ لکھا اور تاکید کی کہ وہ صاحب عام طور پر پہلی صف میں ہوتے ہیں تم کو انتظار کرنا پڑے گا، بہرحال جب وہ پیسے واپس ہوئے تب انھیں سکون ملا۔’’


امین الحسن رضوی صاحب ایک غیرت مند اور خود دار انسان تھے۔ اس کا ثبوت ان کے انتقال کے بعد ان کے چاہنے والوں اور متعلقین کے متعدد مضامین سے ہوتا ہے۔ ان کے صاحبزادے اطہر حسنین رضوی سعودی گزٹ میں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔‘‘ ایک مرتبہ انھوں نے فخرو میاں (فخر الدین علی احمد، اندرا گاندھی کے زمانہ ایمرجنسی کے دنوں میں صدر جمہوریہ ہند) پر ایک تنقیدی مضمون رقم کیا، جو کہ جن سنگھ کے پرچہ آرگنائزر میں شائع ہوا، جب یہ مضمون شائع ہوا تو بہت پڑھا گیا لیکن والد محترم نے اس کا معاوضہ لینے سے انکار کر دیا، اس معاملہ میں ان کا ماننا تھا کہ ایک ایسی تنظیم جو ان کے فکر اور سوچ سے متصادم نظریہ رکھتی ہے اس سے وہ پیسہ کیسے لے سکتے ہیں۔’’


ان کے صاحب زادے عامر حسنین رضوی کے بقول 1990کے آخری عشرےمیں جنتا دل حکومت کے وزیر اعظم جناب دیوے گوڑا صاحب کے وزیر جناب سی ایم ابراہیم صاحب اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے متعدّد لیڈران کی طرف سے رضوی صاحب کو راجیہ سبھا کا ممبر بنانے کی پیشکش بھی کی گئی، مگر انھوں نے یہ کہہ کر معزرت کرلی کہ پارلیمان میں مجھے پارٹی لائن کے موقف کو اختیار کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی میں حصہ لینا ہوگا اور پارٹی کے مفادات کو فوقیت دینی ہوگی اور میں اپنی آزادانہ رائے اور نقطۂ نظر وہاں نہیں رکھ سکوں گا۔
یہاں پر ملت کے لئے رضوی صاحب کے درد اور ان کی جرأت مندی کا ایک واقعہ نقل کرنا بہت ضروری ہے۔ جس کے راوی معروف صحافی محمد غزالی خان ہیں جو ان دنوں لندن میں مقیم ہیں ، وہ بتاتے ہیں : ” سید حامد صاحب مرحوم (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے) کے وائس چانسلری کے دور میں علیگڑھ میں پروفیسر عرفان حبیب کے ایک متنازعہ اور قابل اعتراض بیان کو لے کر طالب علموں نے زبردست تحریک چلائی تھی۔ طلبا تحریک نے طول پکڑلیا جس میں بہت سی نا معقول اور غیر شائستہ حرکتوں کا ارتکاب بھی ہوا۔ بد قسمتی سے ملت اور بالخصوص مادر علمی کے لئے اپنی محبت کے باوجود سید حامد صاحب نے اپنے بیوروکریٹک سوچ اور طریقہ کار کا مظاہرہ یونیورسٹی میں بھی کیا اور کیمپس کو کوئی شورش زدہ شہر سمجھ کر بار بار پولیس بلوانے میں کبھی کوئی جھجک محسوس نہ کی۔ مرادآباد کے تازہ تازہ فساد میں بدنام زمانہ پی اے سی کے سفاکانہ کردار کے باوجود انہوں نے پی اے سی کو بلوایا جس نے حسب معمول گولی چلانے اورمیرٹھ کے ایک طالب علم آفتاب، جو کئی بہنوں کا اکلوتا بھائی اور والدین کا اکلوتا بیٹا تھا، کو شہید کرکے پہلی مرتبہ یونیورسٹی میں پولیس فائرنگ کی روایت شروع کردی۔


رضوی صاحب علی گڑھ کے ان اولڈ بوائز میں تھے جنہوں نے اس کے اقلیتی کردار کے لئے عملی جدو جہد کی تھی اور یونیورسٹی میں کوئی بھی مسئلہ ہوتا تو دیگر جان نثار اولڈ بوائز کے ساتھ وہ فوراً علیگڑھ پہنچ جایا کرتے تھے۔ آفتاب کی شہادت کے بعد سید حامد صاحب اپنے ہمدرد ملی اکابرین کے ساتھ وائس چانسلر لانج میں ملاقات کررہے تھے۔ باہر مسلح پولیس موجود تھی۔ رضوی صاحب اپنا صحافتی کارڈ دکھا کر اندر پہنچ گئے۔ انہیں دیکھ کر سید صاحب ، جو شاید رضوی صاحب کو زمانہ طالب علمی سے ہی جانتے تھے، کھڑے ہوگئے اور مصافحہ کرنے کے لئے آگے بڑھے۔ مگر رضوی صاحب آفتاب کی شہادت سے اتنے زیادہ متاثر اور غمگین تھے کہ نہایت برداشت اور شگفتہ مزاجی کے باوجود ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا: ’’آپ کے ہاتھ معصوم بچے کے خون سے رنگے ہیں۔ میں آپ سے ہاتھ نہیں ملا سکتا۔ صرف یہ درخواست کرنے آیا ہوں کہ ”اس ملت پر رحم کھائیے اور مستعفی ہو کر اس ادارے سے چلے جایئے۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہ باہر نکل آئے“۔ واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے ایک اور اولڈ بوائے اور کشمیر کے معروف اکیڈمک ڈاکٹر شیخ شوکت حسین صاحب کہتے ہیں: ’’واقعہ بالکل صحیح ہے اور اسی دن پیش آیا جس دن آفتاب شہید ہوئے سید حامد صاحب کی جانب سے نوٹس بھی تقسیم ہوا کہ وہ مستعفی ہو رہے ہیں، بعد میں اس کی تردید یہ کہہ کر کی گئی کہ اندرا گاندھی اور مولانا علی میاں کے اصرارپر استعفیٰ واپس لیا گیا۔‘‘بہر حال وہ دور اے ایم یو کے پرآشوب ادوار میں سے ایک تھا جس کا مزید ذکرکرنا مناسب نہ ہوگا۔
عام طور پر عوامی زندگی میں لوگوں کو اپنی تشہیر، خود نمائی اور اپنے کام کی تعریف کا چسکا لگ جاتا ہے۔ مگر رضوی صاحب نے اس غیر اسلامی حرکت اور موذی مرض سے بچنے کے لئے خاص قسم کے ٹیکے لگوائے ہوئے تھے۔ خودنمائی اور اپنے بارے میں بات کرنے سے وہ بے حد پرہیز کرتے تھے انتہا یہ ہے کہ عوامی زندگی اور ملی کاموں میں اپنے آپ کو غرق کئے ہوئے اس شخصیت کی کوئی تصویر تلاش کرنا بھی ناممکن ہے۔
میں نے طوالت کے خوف سے امین الحسن رضوی صاحب کی زندگی کے مختلف گوشوں کو چھوڑ دیا ہے۔ ایک ایسی شخصیت جس نے اپنی پوری زندگی مقصدیت کے ساتھ گذاری ہو اور ایک جہان کو متاثر کیا ہو اس کو چند صفحات میں سمیٹنا ممکن بھی نہیں ہے۔بس مضمون کے اخیر میں ان کے وارثین بالخصوص ان کے صاحب زادگان، سب ماشاء اللہ پڑھے لکھے اور علمی رسوخ والے ہیں، سے گذارش کروں گا کہ وہ امین الحسن صاحب کی تمام تصنیفات کو منظر عام پر لائیں ساتھ ہی ساتھ ان کی حیات و خدمات پر ایک تفصیلی کتاب بھی شائع کریں، مجھے یہ جان کر کافی صدمہ ہوا کہ ان کا بہت سا علمی اثاثہ ضائع ہو گیا، وقت رہتے جو باقی بچا ہے اسے شائع کرکے خلق کے لیے عام کرنا ہی ان کو سچا خراج تحسین ہوگا۔

سلام ہو ملت کے اس بے باک سپاہی پر

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: