بابری مسجد قضیہ کے دو کرداروں کو بھارت رتن

✒️قاسم سید

_______________


بھارت سرکار اس وقت بھارت رتن بانٹ رہی ہے یہ ,سمان, ہے یا 2024 کی مجبوری کہنا مشکل ہے -ان پانچ بھارت رتن میں دو وہ شخصیات ہیں جن کا بابری مسجد قضیہ میں ناقابل فراموش کردار ہے -ان کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے-


ایل کےاڈوانی نے اپنی جارح ہندوتوسیاست اور رتھ یاترا سے بی جے پی کو مضبوط کیا وہیں ہندستانی سماج میں تقسیم کی گہری لکیر کھینچ دی جوہر آنےوالے دن اور گہری ہوتی گئی جس کا نکتہ عروج بابری مسجد کا انہدام تھا ۔لیکن وہ ہندوتو کے آئیکن اور ہندو ہردے سمراٹ کہلائےئقینا آڈوانی بی جے پی کے بہت بڑے محسن ہیں کہ اسے دو سے کہاں تک پہنچادیا -ان کی ؛عظیم خدمات؛ کو اس سے زیادہ خراج عقیدت اور کیا ہوسکتا ہے -یہ ہندو اور مسلم سماج کو بین السطور پیغام بھی ہے ۔کاشی متھراسامنے ہیں-

ایل کے اڈوانی ۔ نرسمہا راؤ


دوسرے بھارت رتن نرسمہا راؤ کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے جن کے عہد حکومت میں بابری مسجد کارسیوکوں کے ہا تھوں زمیں بو س کردی گئی ۔آج بی جے پی جس راستے پر چل رہی ہے ،اس کے لئے زمیں تیار کرنے کا سہرا نرسمہا راؤ کو جاتا ہے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ چاہتے تو بابری مسجد مسمار نہ ہوتی۔6دسمبر 92کو کابینہ میٹنگ میں وہ ایک لفظ نہیں بولے -یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب مسجد گرائی جارہی تھی تو راؤ اپنی رہائش پر پوجا کررہے تھے،یا سو رہے تھے اور خود کو کمرے میں بند کرلیا تھااور آخری گنبد گرنے تک باہر نہ نکلے شاید وہ بھی “غلامی”کی یادگار کو تباہ ہوتے دیکھنا چاہتے تھے اسی دن شام کو انہوں نے اسی جگہ مسجد کی تعمیر کا قوم سے خطاب میں وعدہ کیا تھا-کانگریس آج تک بدعہدی کی بھاری قیمت چکارہی ہے ۔ہم ان اس فیصلے کو چڑھانا اور زخموں پر نمک چھڑکنا کہہ سکتے ہیں مگر بی جے پی کیے سیاسی نظریہ سے وہ 2024کے لئے ساؤتھ کو لبھارہی ہے اور نظریاتی طور پر اپنے ,محسنوں , خراج عقیدت پیش کررہی ہے-بہر حال کسی کو کوئی ایوارڈ دینا سرکار کا امتیازی حق ہے –


بی جے پی نے سیاسی کھیل کے سارے اصول بدل دئے ہیں-اس کی اعلی قیادت بغیر کسی ضابطے واصول کے صرف جیتے پر یقین رکھتی ہے-اس نے اقلیت کو حرف غلط کی طرح مٹانے کا تہیہ کرلیا ہے -ہم کہاں تک اس بات سے آگاہ ہیں یہ تو ہم خود ہی بتا سکتے ہیں کوئی دوسرا نہیں-

Exit mobile version