Slide
Slide
Slide

ملک کی سلامتی اور ہندو مسلم اتحاد

✍ محمد قمرالزماں ندوی

استاد/مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

_________________


ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی بقا اور روشن مستقبل کے لیے آج بہتر یہ ہے کہ ہم مسلمان متحدہ قومیت کے نظریہ کو ہی یہاں کے حالات اور پس منظر میں اپنائیں اور اسے فروغ دیں اور دو قومی نظریہ کی پالیسی کو ترک کریں۔ کیونکہ اس سے ہندو مسلم کے درمیان فاصلے اور دوریاں بڑھیں گی اور آپسی تعلقات کشیدہ ہوں گے، پھر ہمارے اور آپ کے لیے بلکہ برادران وطن کے لیے بھی پریشانیاں بڑھیں گی۔۔ جو لوگ دو قومی نظریہ کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور ہندو مسلم الگ الگ سیاست کرنا چاہتے ہیں، وہ اپنے مستقبل کے لیے خطرات کو دعوت دے رہے ہیں۔۔ ہمارے بڑے بھی اس کو محسوس کر رہے تھے، اس لیے ان میں اکثریت نے متحدہ قومیت کی حمایت کی اور اس کو فروغ دیتے رہے۔ الحمد للہ مجھے اس پر شرح صدر ہے اور اس پر پورا اطمنان ہے۔
سابق چیف جسٹس و چئیرمین سچر کمیٹی راجندر سچر نے ،،لہو بولتا بھی ہے،، نامی کتاب کے مقدمہ میں گاندھی جی کا یہ جملہ نقل کیا ہے کہ مہاتما گاندھی نے ایک موقع ہندوؤں اور مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا تھا:
*ہندو اور مسلمان بھارت ماں (ان کے عقیدے کے مطابق) کی دو آنکھیں ہیں، دونوں میں سے کسی ایک پر بھی چوٹ پہنچ جائے تو وہ اندھی ہوجائے گی* ۔
لیکن افسوس کہ آج اسی *مہاتما گاندھی* کے دیش میں گاندھی کے قاتل کے نام پر یاد گار بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے ۔ ایک خاص طبقہ کے لوگ اس کو پوجتے بھی ہیں ۔ اس کے نام پر مندر بھی بنائی گئی ہے ۔ اس ذھنیت کے لوگ آج حکومت پر قابض ہیں ۔ جس کی وجہ سے ملک ظلم انارکی اور اراجکتا کی طرف بڑھ رہا ہے، اور ایک خاص طبقہ کو پریشان کیا جارہا ہے، اس کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،اور اس کے قانونی حقوق کو چھیننے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے ۔ جب تک اس ذہنیت کے لوگ عہدوں پر رہیں گے، اقتدار پر قابض رہیں گے، ملک کا بھلا نہیں ہوگا ۔ اس ملک میں شہید اشفاق اللہ خان اور رام پرساد بسمل کی دوستی کو نظیر بنا کر ملک میں امن و امان اور شانتی و سلامتی اور ایکتا اکھنڈتا، اور پریم و محبت کو زندہ کیا جاسکتا ہے ۔
آج ملک کی حالت کیا ہے؟ یہاں کا ماحول کتنا پراگندہ اور خوفناک ہے ،کسی سے چھپا نہیں ہے ۔ ملک کی آزادی کی جنگ میں جو فرقہ پرست تنظیمیں انگریزوں کی مدد میں پیش پیش تھیں، وہ آج جب برسر اقتدار ہوئی، تو انہوں نے ملک کی جمہوریت اور سیکولرزم کی دھجیاں اڑانی شروع کردی ۔ اور ملک کو ہندو راشٹر بنانے میں لگ گئی ۔ ہماری قربانیوں کو فراموش کرنا شروع کر دیا ۔ جب کہ ملک کا چپہ چپہ اور بوٹا بوٹا ہماری قربانیوں سے واقف ہے ہم نے اس ملک کو آزاد کرانے میں لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، اور آج ہمیں کو حاشیہ پر رکھنے بلکہ ملک سے نکالنے کی سازش رچ رہے ہیں اور ہماری عزت اور جان ومال سب خطرے میں ہیں۔
ہم نے کبھی ملک و ملت کے ساتھ دھوکہ نہیں کیا اور ہم نے کبھی ضمیر کا سودا نہیں کیا ۔

سر کٹا دیا مگر ایسا نہیں کیا
ہم نے ضمیر و ظرف کا سودا نہیں کیا
ہم کو یہ پورا حق ہے کہ ہم خاک وطن سے یہ سوال کریں کہ

ہم خون کی قسطیں تو کئی دے چکے لیکن
اے خاک وطن! قرض ادا کیوں نہیں ہوتا
اور ہمیں یہ حق ہے کہ ہم پورے اعتماد کے ساتھ کہیں کہ

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

اس وقت ملک میں وہی لوگ حکومت پر قابض ہوگئے ہیں ،جن کی ملک کی آزادی میں کوئی یوگ دان اور قربانی نہیں ہے ،وہ مسلمانوں کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ اس دیس میں اب مسلمانوں کا کچھ بھی نہیں ہے ۔ وہ ان کے رحم و کرم پر رہ سکتے ہیں ۔ لیکن برابری کا درجہ مانگنے کی حیثیت نہیں رکھتے ۔ ایسے ماحول میں ہمیں صرف دفاعی پوزیشن میں نہیں رہنا چاہیے ،بلکہ دو قدم بڑھ کر اور اقدام کرکے، یہ بتانے کی ضرورت ہے ،کہ اس ملک پر جتنا حق تمہارا ہے ۔ اتنا ہی حق ہمارا بھی ہے ۔ کیونکہ اب پوری ہمت اور جرآت کے ساتھ اپنے حقوق کو لینے وقت آگیا ہے اور یہ کہنے کا وقت آگیا ہے کہ

دعا کرو کہ سلامت رہے مری ہمت
یہ اک چراغ کئی آندھیوں پہ بھاری ہے
اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کے لئے دو کام کرنا، بہت ضروری ہے، ایک یہ کہ اپنے اندر ہمت حوصلہ اور جرآت پیدا کریں، اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی جد و جہد کریں، منت سماجت اور معذرت خواہی والی زندگی سے توبہ کریں اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں، باہم متحد اور سیسہ پلائی دیوار بن جائیں آپسی اختلاف اور تنازعہ کو بھول جائیں ،اپنی حیثیت عرفی کو قائم رکھنے کے لیے بھائی بھائی بن جائیں۔ دوسرا اہم اور ضروری کام یہ ہے کہ ملک کے اندر مسلم و غیر مسلم اتحاد، دوستی اور یک جہتی کے لئے منظم کوشش کریں ۔ ابھی ماحول اور فضا کچھ نہ کچھ ساز گار ضرور ہے ۔ ہندوستان کے سارے امن پسند ہندو جن کی ملک میں اکثریت ہے ،وہ ہندو مسلم اتحاد کے خواہاں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ہندو مسلم ہندوستان کی دو آنکھوں کی طرح رہیں اور ایک دوسرے کے دکھ اور درد کو محسوس کریں ۔ اب بھی موقع ہے، اس سے فائدہ اٹھائیں اور ملک کی اکھنڈتا اور ایکتا کے لئے سارے مفاد اور ذاتی اغراض کو پس پشت ڈال دیں اور امن و شانتی کی فضا ملک میں قائم کریں ۔ یہ وقت کا تقاضا ہے اور وقت کی آواز ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: