✍ عبد الغفار صدیقی
_________________
زکاۃ اسلام کا اہم رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مسلمانوں پر نماز فرض کی ہے اسی طرح اس نے زکاۃ فرض کی ہے۔جس طرح نماز کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے اسی طرح زکاۃ کا منکر بھی مسلمان نہیں۔بعض مفسرین نے نماز سے اللہ کے حقوق اور زکاۃ سے بندوں کے حقوق مراد لیے ہیں۔بعض کے نزدیک نماز بدنی عبادت ہے اور زکاۃ مالی عبادت ہے۔زکاہ چونکہ مال پر ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ زکاۃ کا تعلق اسلامی معاشیات سے ہے۔اللہ نے زکاۃ اس لیے فرض کی تھی کہ مسلمانوں میں غربت نہ رہے۔مگر برصغیر کے مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ سینکڑوں برس سے زکاۃ نکالنے اور دینے کے باوجود ہر سال غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
زکاۃ کے تعلق سے احادیث میں بہت سی ہدایات دی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس بستی کے مالداروں سے وصول کی جائے اسی بستی کے غریبوں پر خرچ کی جائے۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔
”اللہ نے ان کے اموال میں زکاہ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں پر خرچ کی جائے گی۔“(متفق علیہ)
درج بالا ہدایت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رض کو اس وقت فرمائی تھی جب انھیں آپ یمن کا گورنر بناکر رخصت کررہے تھے۔
احادیث میں دوسری ہدایت یہ دی گئی ہے کہ زکاۃ اپنے قریب ترین اعزہ (اگر وہ مستحق ہوں)کو دینا زیادہ باعث اجر ہے۔آپؐ نے فرمایا۔”کسی حاجت مند کو صدقہ دینا (صرف) ایک صدقہ ہے اور رشتہ دار کو صدقہ دینا دو صدقات (کے برابر) ہیں، ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی۔“(ترمذی)اس حدیث کے مطابق اپنے مستحق زکاۃ رشتہ داروں کو زکاۃ و صدقات دینے پر دوہرے اجر کی بشارت دی گئی ہے ایک تو زکاہ و صدقات دینے کا اجر اور دوسرا اپنے رشتہ دار کو دینے کا اجر۔
زکاہ و صدقات کے تعلق سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہدایت یہ فرمائی کہ احسان کرنے بعد جتایا نہ جائے۔
”اے ایمان والو! تم احسان جتلا کر یا ایذا پہنچا کر اپنی خیرات کو برباد مت کرو“(البقرہ222)
سنن نسائی کی روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: احسان جتلانے والا، والدین کا نافرمان اور شراب پینے کا عادی (یہ تین لوگ) جنت میں نہیں جائیں گے۔
جہاں تک مصارف زکاۃ اور مستحقین کا تعلق ہے وہ قرآن مجید میں صاف صاف بیان کردیے گئے ہیں۔سورہ توبہ کی آیت 60 میں ارشاد باری ہے۔”یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں، اور اُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔“
اس آیت کی روشنی میں زکاۃ آٹھ مستحقین کو دی جاسکتی ہے۔(1) فقیرکو(2)مسکین کو(3)محصلین زکاۃ کو(4)برائے تالیف قلب غیر مسلموں کو(5) آزاد ی حاصل کرنے کے لیے غلاموں کو(6) قرض ادا کرنے کے لیے مقرض کو(7) اللہ کی راہ میں (8) اور مسافر کو
مسلمانوں کو نماز با جماعت کی طرح زکاۃباجماعت ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ زکاۃ ادا کرنے کا حکم جمع کے صیغے میں دیا گیا ہے۔دوسری دلیل یہ ہے کہ مصارف زکاۃ میں ایک مد”والعاملین علیہا“(زکاۃ وصول کرنے پر مامور لوگ)ہے۔جس کا مطلب ہے جو لوگ زکاۃ وصول کرنے پر مامور ہوں گے ان کے مشاہرے زکاۃ سے ادا کیے جائیں گے۔ظاہر ہے محصلین تبھی متعین ہوں گے جب زکاۃ کا اجتماعی نظم ہوگا۔اگر انفرادی طور پر زکاۃ ادا کیے جانے کا حکم ہوتا تو محصلین کی ضرورت ہی کیا تھی۔تیسری دلیل یہ ہے کہ خلافت راشدہ میں زکاۃ کے عامل مقرر تھے جو لوگوں سے زکاۃ،عشر وغیرہ اکٹھا کرکے سرکاری خزانہ میں جمع کرتے اور وہاں سے مستحقین کی مدد کی جاتی تھی۔
حیرت ہے کہ دارالعلوم دیوبند سے جب زکاۃ کے اجتماعی نظم قائم کرنے کی اجازت چاہی تو انھوں نے منع کردیا۔فتوی: 811=706/ل ملاحظہ فرمائیں جو دارالعلوم کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
”زکات کی رقم جمع کرنا اور اس کو مصرف زکات تک پہنچانا بہت مشکل اور دشوار امر ہے، اس لیے میرے خیال میں آپ اس طرح کا اجتماعی نظام قائم نہ کریں۔ زکات دہندگان کی اپنی خود ذمہ داری ہے کہ وہ زکات کی رقم مستحقین زکات تک پہنچائیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب اموال کثیر ہوگئے اور ارباب اموال کے تلاش میں دشواری پیش آنے کا انھیں علم ہوا تو باجماع صحابہ اس بات میں مصلحت سمجھی کہ ادائیگی زکات کو ارباب اموال کے حوالہ کردیا جائے اور وہ خود مصارف زکات تلاش کرکے ان کو زکات ادا کریں: لکن لما کثرت الأموال فی زمن عثمان رضی اللہ عنہ وعلم أن فی تتبعھا ضررًا بأصحابہا رأی المصلحۃ فی تفویض الأداء إلیہم بإجماع الصحابۃ (شامی: ۳/۱۷۶، ط زکریا دیوبند)واللہ تعالیٰ اعلم، دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند“
جب کہ دارالعلوم ندوہ العلماء کی ویب سائٹ پر اجتماعی نظم زکاۃ کے ضمن میں درج ذیل دلائل دیے گیے ہیں۔
”اسلام اجتماعیت کو پسند کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں ہے:خذ من اموالھم صدقۃ تطہرھم وتزکیھم بہا(توبہ 103)”آپ ان کے مال میں سے صدقہ قبول کیجئے،تاکہ آپ اس کے ذریعہ انہیں پاک وصاف کردیں اور انہیں دعادیجئے۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺسے فرمایا کہ آپ ان سے زکوۃ وصول کریں، مسلمانوں کوانفراداً زکوۃ دینے کا حکم نہیں دیا گیا۔اسی طرح’اقیموا الصلوۃ وآتوا الزکوۃ‘ (سورہ بقرۃ: 43)کے الفاظ سے بھی اجتماعیت کا اشارہ ملتا ہے۔حضورﷺ کا ارشاد ہے:امرت ان آخذ الصدقۃ من اغنیائکم واردھا فی فقرائکم۔(متفق علیہ)”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے مالداروں سے زکاۃ وصول کروں اور تمہارے غریبوں پر خرچ کردوں“رسول اللہ ﷺ کایہ ارشاد بھی اجتماعیت کی تصدیق کرتا ہے۔خود حضورﷺ،خلفائے راشدین کا بھی اسی پر عمل تھا، اسلامی کارندے زکوۃ جمع کرتے تھے اور مرکز کی طرف سے اس کو مستحقین میں تقسیم کیا جاتا تھا۔جہاں جہاں زکوۃ جمع کرنے کا نظم نہیں ہے اور بیت المال نہیں قائم ہیں،وہاں کے مسلمان انفرادی طور پر اپنی زکوۃ نکال کر شرعی مصارف میں خرچ کرسکتے ہیں۔“
ان دونوں فتاویٰ میں نمایاں فرق ہے۔دارالعلوم دیوبند کی تحریر میں اجتماعی نظم زکاۃ کے مقابلہ انفرادی زکاۃ دینے کو ترجیح دی گئی ہے اور دلیل میں حضرت عثمان ؓ کا عمل نقل کیا گیا ہے۔ندوہ العلماء لکھنو کی تحریر میں اجتماعی نظم زکاۃ کے دلائل قرآن و احادیث اور آثار صحابہ ؓ سے دیے گئے ہیں۔قارئین خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کون سا موقف زیادہ قرین شریعت ہے۔
زکاۃ اس مال پر فرض ہوتی ہے جو ایک سال تک آپ کے پاس رہا ہو۔کوئی مال اگر ماہ محرم میں آیا ہے تو اس پر اگلے سال محرم کے مہینے میں ہی زکاۃ فرض ہوگی۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شخص رمضان میں زکاۃ نکال رہا ہے۔یہ دراصل اہالیان مدارس نے اپنی سہولت کے لیے کیا ہے۔
میرا احساس ہے کہ برصغیر میں زکاۃ کے معاملے میں علماء دیوبند و علماء بریلی اسلام کی صحیح تعلیمات کو چھپا رہے ہیں اور اجتماعی نظم زکاۃ کے قیام سے ان کوخاص قسم کے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔اس خطہ میں اکثرعلماء کی جملہ معاشیات زکاۃ پر ہی منحصر ہیں اسی لیے اگر سماج میں اجتماعی نظام زکاۃ قائم کرنے کی کوئی ادنیٰ کوشش بھی کی جاتی ہے تو ان علماء کی جانب سے اس کی مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔ان علماء نے اپنی مطلب برآری کے لیے اپنی جانب سے بہت سی شرائط دین میں داخل کردی ہیں۔
مصارف زکاۃکے تعلق سے بیشترحنفی علماء اپنی تقریر وں میں صرف مدرسہ کا ذکر کرتے ہیں،قرآن میں بیان کردہ مدات زکاۃ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کا تذکرہ نہیں کرتے۔ ان کے بیانات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ صرف مدرسہ میں ہی خرچ کی جاسکتی ہے اور وہ بھی ان مدرسوں میں جہاں بیرونی بچے زیر تعلیم ہوں۔
برصغیر ہند وپاک میں بڑے پیمانے پر زکاۃ گھوٹالہ ہوتا ہے، اگر اس کی جانچ کی جائے تو اچھے اچھے جبہ و دستار والے بے نقاب ہوجائیں۔زکاۃوصول کرنے والوں میں سے ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کا مدرسہ صرف رسید بک اور کاغذپر ہی ہوتا ہے،کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جنھوں نے ایک کمرے پر بھی جامعہ (یونیورسٹی) کا بورڈ لگا رکھا ہے۔سفراء کی اکثریت کو پچاس فیصد رقم کمیشن کے نام پر دے دی جاتی ہے۔کچھ مدارس کے ذمہ داران رسید بک کا یکمشت سودا تک کرلیتے ہیں۔زکاۃ کے اسی کرپشن کی وجہ سے مدارس کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ہر وہ عالم جو چندہ کرنے کے فن سے واقف ہے اپنا مدرسہ قائم کرلیتا ہے۔کچھ علماء اپنے ظاہری تقویٰ سے سیدھے سادے مسلمانوں کا بے وقوف بنا کر مدرسہ قائم کرلیتے ہیں۔بیرونی طلبہ کے نام پر اپنی فیملی کے بچوں کو یتیم کہہ کر داخل کردیتے ہیں۔بعض قراء و حفاظ بچوں کو اپنا یرغمال بناکر رکھتے ہیں وہ جہاں جاتے ہیں مدرسہ کے طلبہ انھیں کے ساتھ ہجرت کرجاتے ہیں۔جس کے ساتھ جتنے زیادہ بچے ہوں گے اس کی تنخواہ بھی اچھی ہوگی۔گاؤں کے ایک بچے کو مفت پڑھانے کے نام پر پورے گاؤں سے چندہ کرتے ہیں۔مثال کے طور پر آپ کا بچہ کسی مدرسہ میں مفت تعلیم حاصل کررہا ہے تو رمضان میں اس مدرسہ کا سفیر آپ کے پاس آئے گا اور آپ کے ساتھ گاؤں کے متمول افراد سے ملاقات کرکے زکاۃ وصول کرے گا۔زکاۃ گھوٹالوں میں ایک گھوٹالہ تملیک کے نام پر کیا جاتا ہے۔اس کے تحت زکاۃ کی ساری رقم ایک مستحق زکاۃ طالب علم کو دے دی جاتی ہے اور پھر پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت وہ بچہ رقم مدرسہ کو واپس کردیتا ہے۔علماء کے نزدیک اس طرح وہ زکاۃ امداد بن جاتی ہے،اور پھر ہر کام میں خرچ کی جاسکتی ہے۔یہ حلالہ کی وہ قسم ہے جس پر احادیث میں لعنت کی گئی ہے۔
میری گزارش ہے کہ اگر آپ اپنے محلہ،بستی یا برادری یا جماعت کے تحت زکاۃ کا اجتماعی نظم قائم کرلیں تو اس کے ثمرات سے مستفید ہوسکتے ہیں۔اگر یہ ممکن نہیں ہے تو اپنی زکاۃ پہلے اپنے غریب اعزہ کو دیں،چاہے وہ کہیں بھی رہتے ہوں،پھر اپنے محلہ اور بستی کے ضرورت مندوں کو دیں،اس کے بعد قریبی گاؤں یا شہر میں خرچ کریں۔یہ بھی یاد رکھیں کہ زکاۃ نکالنے کے بعد ساری زکاۃ ایک ماہ میں خرچ کرنا ضروری نہیں ہے،آپ چاہیں تو اسے ایک سال تک تھوڑا تھوڑا کرکے بھی خرچ کرسکتے ہیں،دوسری بات یہ ہے کہ زکاۃ لینے والے کو یہ بتانا قطعاً ضروری نہیں کہ آپ اسے زکاۃ دے رہے ہیں،اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ بتانے سے اس کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچے گی تو آپ اسے نہ بتائیں،بس آپ کی نیت کافی ہے۔مدارس میں بھی اگر آپ زکاۃ دیں تو اپنی بستی کے مدرسہ میں دیں۔ہر ایرا غیرا مدرسہ کی رسید نہ بنوائیں۔بڑے اور معروف مدارس کے اکاؤنٹ میں براہ راست جمع کریں۔محصلین اور سفراء کو دے کر کمیشن خوری کو بڑھاوا نہ دیں۔ہمارے ملک میں سکھوں اور جینیوں نے اپنے دان اور ڈونیشن کو منظم کرکے نہ صرف اپنی غربت دور کرلی ہے بلکہ انھوں نے انسانیت کی خدمت کے بڑے بڑے ادارے قائم کرکے قابل تحسین کارنامہ انجام دیا ہے۔افسوس کہ ہم ان کے اداروں سے فائدہ اٹھاتے ہیں،ان کی تعریف کرتے ہیں لیکن ان کی طرح اپنی زکاۃ کو منظم نہیں کرتے۔مجھے امید ہے کہ اس سال آپ اپنی زکاۃ سے کسی ایک مسلمان کی غربت دور فرمائیں گے۔