Site icon

بے حیائی و بے شرمی کا دن: ویلنٹائن ڈے

✍محمد قمر الزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

____________

مغربی ممالک نے بے حیائی، بے شرمی اور بے غیرتی کے جن کاموں کو تہذیب جدید اور ماڈرن ثقافت و کلچر کے نام پر فروغ دیا، اور جن کی نقالی اب مشرقی ملکوں میں بھی ہونے لگی ہے، ان میں ویلنٹائن ڈے بھی ہے، جس کو ہر سال چودہ فروری کو منایا جاتا ہے، اردو میں اس کو یوم عاشقان کہا جاتا ہے ۔ جس میں لڑکے اور لڑکیاں اپنی محبت و چاہت کا اظہار کرنے کے لئے تحفے اور کارڈز اور گلاب پیش کرتے ہیں،یہ لعنت، برائی اور بے حیائی پہلے صرف یورپ میں پائی جاتی تھی ۔ لیکن اب تو حد ہوگئی، کہ غیروں کے ساتھ ساتھ کچھ روشن خیال مغرب زدہ مسلمان بھی اس بے حیائی کی سالگرہ میں شرکت کرنے لگے ہیں اور یورپ کی غلامی پر فخر کرنے لگے ہیں، دھیرے دھیرے مشرقی ممالک میں بھی یہ بیماری عام ہوگئی ہے ۔ علامہ اقبال مرحوم نے ایسے ہی مسلمانوں سے شکوہ کیا تھا اور کہا تھا کہ :
یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے
یہ مغربی تہذیب ہی کی دین ہے کہ 14 فروری کی تاریخ بے حیائی اور بے غیرتی کا نشان بنی ہوئی ہے ، اور بے حیائی کی گرم بازاری نے مغرب کے ساتھ مشرق کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، St .valentine’s day کے نام سے فروری کی 14تاریخ لڑکوں اور لڑکیوں میں عشق و محبت کی آگ لگا جاتی ہے ۔
ایک عرصہ سے مغربی دنیا میں "ویلنٹائن ڈے؛؛ خصوصی اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے، تاریخ میں ویلنٹائن نامی متعدد انسانوں کا تذکرہ ملتا ھے”والنٹائن ڈے؛؛ سے متعلق پس منظر اور اس کے آغاز کی کہانی مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے، محض تاریخی واقفیت کے لئے اس کی بعض تفصیلات مشہور تر روایت کے مطابق ذیل میں درج کی جا رہی ہے ۔بیان کیا جاتا ھے کہ روم کی دیوی juno جو عورتوں کی عصمت و عفت اور ان کی عزت و آبرو کی محافظ سمجھی جاتی تھی، اس کے نام پر روم میں ماہ فروری میں یہ تہوار منایا جاتا تھا،اس موقع پر رومی تہوار کی عام روایت کے مطابق شراب و شباب کی محفلیں آراستہ کی جاتی،رقص و سرور کا بازار گرم ہوتا ،بعد میں جب یورپ میں عیسائیت کا غلبہ ہوا ،اور ہر طرف عیسائی مذہب اور تہذیب کے اثرات پھیلنے لگے تو عیسائیت کی مذہبی قیادت نے اس کافرانہ عہد روم کے مشرکانہ تہوار کو نصرانیت کا جامہ پہنا دیا،تفصیل یوں ہے کہ رومی فرماں روا 11 claudius (وفات ۲۱۴ ء) جس کا عہد حکومت دو سال (۲۶۸ء۔۲۷۰ء)پر محیط تھا، نے نوجوانوں پر شادی اور ازدواجی زندگی اختیار کرنے پر پابندی لگا دی،تاکہ وہ محاذ جنگ سے راہ فرار اختیار نہ کر سکیں، قیصر وقت کے اس فرمان کے خلاف اس وقت کی پادری والنٹائین نے تحریک شروع کی ، اور حکومت کی نگاہ سے چھپا کر لوگوں کی شادی کروانے لگا، قیصر وقت کو جب اس کی اطلاع ملی اور جرم ثابت ھو گیا تو اس پادری والنٹائن کو سزائے موت دی گئی، واضح رہے کہ پادری والنٹائن خود رومن کیتھولک چرچ کے اصولوں کے مطابق غیر شادی شدہ تھے، اس کی وفات کے تقریبا سوا دو سال بعد ۴۹۶ء میں یورپ نے اسے سینٹ کے خطاب سے نوازا، اور نصرانی اولیاء کی فہرست میں اسے شامل کر دیا، چونکہ یورپ مذہبی طور پر عیسائیت کو قبول کر چکا تھا ،اس لئے قدیم کافرانہ عہد روم کے اس تہوار کو والنٹائن کی موت (شہادت ) کی یاد میں عیسائی تہوار کی حیثیت دے دی گئی،” والنٹائن ڈے ؛؛ جب عیسائی مذہبی تہوار کی صورت میں نمودار ہوا تو شہوانیت، لہو و لعب اور فحش کاریوں کا زور کم ہو گیا،اور عشق و محبت اور عہد و وفا کی طرف زیادہ رجحان ہو گیا، گویا کافرانہ عہد میں یہ دن نفس پرستی و شہوت انگیزی (Eroticism )سے عبارت تھا، اور عیسائی مذہبی حیثیت میں اس مخصوص دن کا رجحان Romance کی طرف بڑھ گیا، (دیکھئیے The floker of world hidays صفحہ 133۔134)
(تعمیر حیات ۱۰/ فروری ۲۰۰۵ء)
بعض لوگوں نے اس بے حیائی کی ابتدا کے بارے میں لکھا ہے کہ تیسری صدی ہجری میں ویلنٹائن ڈے نام کا ایک پادری تھا ،جو ایک راہبہ کی محبت میں شکار ہوگیا اور دونوں جوش عشق میں سب کچھ کر گزرے جس سے کلیسا کو شرمندگی اٹھانی پڑی اور کلیسا کی بے ادبی کرنے پر اسے قتل کر دیا گیا،بعد میں کچھ نوجوان عیاشوں اور منچلوں نے ویلنٹائن کو شہید محبت قرار دیتے ہوئے ان کی یاد میں یہ دن منانا شروع کردیا ۔ تاریخ میں اس دن سے اور بھی کئی داستانیں منسوب ہیں ۔
افسوس کہ عشق و محبت جیسے پاکیزہ الفاظ بھی مغرب کی بے حیا تہذیب کے نتیجے میں بے غیرتی کا عنوان بن گئے ہیں ۔ اسی بے غیرتی اور بے حیائی کا انجام ہے کہ اس تہذیب کے علمبردار آج خاندانی نظام کے بکھراو کا شکار ہیں ۔ ان کی زندگی سے سکون رخصت ہوچکا ہے ،ماں باپ اور اولاد کے درمیان ربط و تعلق مفقود ہے ،ماں کی ممتا اور باپ کے پیار سے بچے محروم ہیں ۔ والدین اس وقت گھر پہنچتے ہیں جب بچے سو چکے ہوتے ہیں، اور بچے جب صبح اسکول کے لئے نکلتے ہیں تو والدین سوئے ہوئے ہوتے ہیں، اتوار کو ہفتے میں ایک دن ملاقات ہوتی ہے ۔
خیر جس نے بھی اس بے حیائی کا آغاز کیا ہو اس کا پس منظر کچھ بھی ہو جس مذہب نے اس لعنت کو فروغ دیا ہو، یہ بہت بے حیائی ،بے شرمی اور بے غیرتی کی بات ہے اور غیر شرعی و غیر انسانی عمل ہے ۔
کس قدر افسوس اور بے شرمی کی بات ہے کہ فحاشی اور بے حیائی کے لئے ایک دن خاص طور پر مختص کر لیا جائے کہ لوگ اس دن بے حیائی کی سالگرہ منائیں ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان جب گناہ کا عادی بن جاتا ہے،بے شرمی و بے غیرتی زندگی کا جز بن جاتی ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیئے کہ انسان اور انسانی سماج و معاشرہ ادب و اخلاق اور تہذیب و معاشرت کے بندھن سے آزاد ہوجاتا ہے ،تو یہی بداخلاقی اور بد تہذیبی اس سماج میں تہذیب و ثقافت کی صورت اختیار کرلیتی ہے ۔ اور لوگ اس پر فخر کرنے لگتے ہیں ۔
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
آج ضرورت ہے کہ اہل مغرب کو جس کی اباحیت پسندی اور فحش و آوارگی، جس نے تمام اخلاقی حدود کو پار کرلیا ہے اور اہل مشرق بھی ان کی نقالی میں پوری طرح اس بیماری میں شامل ہیں، ان کو اسلام کے نظام عفت و عصمت اور نظام حیاء سے واقف کرایا جائے ۔ اسی میں اس کے درد کا درماں اور مرض کا مداوا ہے ۔ اور اسلام ہی اور پیارے نبی کا طریقہ اور راستہ ہی اس بیمار معاشرہ کو صحت و تندرستی کی راہ دکھا سکتا ہے ۔ ضرورت ہے کہ بیمار مغرب کے لئے ہم مسیحا ثابت ہوں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو جس نظام اخلاق سے آراستہ کیا، اس میں ایک اہم وصف حیا بھی ہے ۔ یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے ۔ ایمان کا شعبہ ہے ۔ سلامتی فطرت کی علامت ہے ،اور شرافت و مروت کی پہچان ہے ۔ یہ انسان کا وہ فطری وصف اور خوبی ہے جس سے انسان خوبی و کمال کی راہ پاتا ہے اور اس سے شجر اخلاق و انسانیت کو غذا ملتی ہے ،اور اس کی شاخوں کو تازگی و شادابی فراہم ہوتی ہے ۔
الغرض شرم و حیا ایک ایسا فطری اور بنیادی وصف ہے جس کو انسان کی سیرت سازی میں بہت زیادہ دخل ہے ،یہی وہ وصف اور خلق ہے جو آدمی کو بہت سے برے کاموں اور بری باتوں سے روکتا اور فواحش و منکرات سے اس کو بچاتا ہے اور اچھے اور شریفانہ کاموں کے لئے آمادہ کرتا ہے ۔ حیاء کی اسی اہمیت کے پیش نظر قرآن و حدیث میں اس کے تفصیلی احکام بیان کئے گئے ہیں اور اس کی رعایت کا حکم دیا گیا ہے ۔ اسلام کے بیشتر احکام وہ ہیں جن کے توسط سے انسانی اخلاق کے اس جوہر کی حفاظت کا سامان فراہم کیا گیا ہے ۔ عورتوں کے لیے پردہ کا حکم، زیب و زینت کے ساتھ بے پردگی اور مواقع زینت کے اظہار (غیر محرم کے لئے ) پر پابندی ۔ نگاہوں کی حفاظت ۔ یہ سب احکام اسی پس منظر میں ہیں ۔ نکاح میں کنواری لڑکی کے لئے خاموشی کو رضا مندی سمجھا گیا کہ زبان سے اظہار اس کے لئے ضروری نہیں، مرد و عورت کی اندرون خانہ باتوں کو باہر ذکر کرنے سے روکا گیا ۔ اور نہ جانے کیا کیا باریکیاں اور حکمتیں اسلام کے نظام عفت و حیاء میں پوشیدہ ہیں کاش ہم پوری دنیا کو اور خاص طور پر اہل مغرب کو ان سے روشناس کراتے اور ان کو بے حیائی کی اس سال گرہ منانے سے بچا پاتے ۔ (مستفاد از معارف الحدیث / پندرہ روزہ تعمیر حیات لکھنئو ۱۰/ فروری ۲۰۰۵ء )

Exit mobile version