Site icon

اردو کے نثری ادب میں علماء کا حصہ

✍مفتی ولی اللہ مجید قاسمی

_______________

"اردو” ترکی لفظ ہے جس کے معنی ”لشکر“ کے ہیں چونکہ یہ زبان مجاہدوں اور مقامی لوگوں کے اختلاط سے وجود میں آئی، شاید اس لیے اسے اردو کہا جاتا ہے لیکن یہ نام بہت بعد کی پیداوار ہے، ابتدا میں ہندوستانی زبان ہونے کی بنیاد پر اسے” ہندی“ کہا جاتا تھا،چنانچہ قدیم کتابوں میں اسی نام سے اس کا تذکرہ ملتا ہے، اردو نثر کی ابتدا تو اسی وقت سے ہو چکی تھی جب کہ محمود غزنوی کی فوجیں پنجاب میں خیمہ زن ہوئیں ، آپسی میل جول سے اس وقت کی مقامی زبان میں ایک ہلکا سا تغیر ہوا جس نے رفتہ رفتہ ایک مکمل زبان کی شکل اختیار کر لی ،اور ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے پہلے ایک مکمل عوامی زبان بن چکی تھی لیکن چونکہ سرکاری زبان فارسی تھی،نیز پڑھے لکھے لوگ اس کے استعمال کو خلاف ثقاہت سمجھتے تھے، اس لیے اسے کوئی علمی اور فنی مقام اس وقت تک نہ مل سکا تھا ،آہستہ آہستہ صورتِ حال میں کچھ تبدیلی ہوئی مگر وہ بھی ”نظم“کے راستے سے، نظم لکھنا قابلیت اور صاحبِ علم ہونے کی بہت بڑی دلیل سمجھی جانے لگی یہاں تک کہ خطوط بھی نظم میں لکھے جاتے تھے،نثر اس وقت بھی ایک گوشۂ گمنامی میں پڑی ہوئی تھی ،کچھ لوگوں نے اگر اس طرف توجہ بھی کی تو ان کی نثر بھی نظم ہی کے طرز پر ہوتی،مغلق اور پیچیدہ عبارتیں اور اس پر طرفہ تماشا سجع اور قافیہ کی رعایت ۔
علماء کرام اور صوفیاء عظام نے — جن کا مقصدِ زندگی بندوں کو اللہ رب العزت سے جوڑنا اور اپنے مولی اور آقا سے برگشتہ لوگوں کو سیدھے راہ کی رہنمائی ہے —اس عوامی زبان کی طرف توجہ کی، اسے اظہار خیال کا ذریعہ بنایا، اور علمی و روحانی باتوں کو اس زبان میں منتقل کرناشروع کیا، اس زبان میں تصنیف و تالیف کا اتنا بڑا ذخیرہ تیار کردیا کہ لوگ دینی ، مذہبی اور روحانی مسائل کے لیے دیگر زبانوں سے بے نیاز ہو گئے،
اردو زبان پر علماء کا احسان یہ ہے کہ انہوں نے اس زبان کو اس وقت گلے لگایا جب کہ ابھی وہ آغوش تربیت میں تھی، ملکی،قانونی اور علمی زبان فارسی تھی، اہل علم اس کے استعمال سے احتیاط اور احتراز کیا کرتے تھے،جس کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہ تھی، ایسی حالت میں انہوں نے اس نوزائدہ زبان کو بال و پر عنایت کئے،تصنیف و تالیف اور تبلیغ کا ذریعہ بنایا ،نئے افکار، نیا لہجہ اور نیا اسلوب دیا، محاورات اور الفاظ کے ذخیرہ سے اسے مالا مال کر دیا، اس کی نشونما اور ارتقاء میں اہم رول ادا کیا،اور اس قدر ترقی دی کہ آج یہ زبان کروڑوں انسانوں کی دل کی دھڑکن بن چکی ہے۔
اردو نثر کے دریافت شدہ قدیم ترین چھوٹے چھوٹے رسائل آٹھویں صدی ہجری کے ہیں جن میں سے زیادہ کا تعلق ”تصوف“سے ہے مثلاً شیخ عین الدین (وفات: 795ھ) کی تصانیف اور خواجہ گیسو دراز کی تصنیف معراج العاشقین،شاہ میرانجی بیجاپوری کی شرح مرغوب القلوب ،برہان الدین جانم (وفات: 990ھ) کی ”جلترنگ“ اور گلباس وغیرہ.
سن : 1040ھ میں مولانا وجہی نے” سب رس “نامی ایک کتاب دکنی نثر میں لکھی جس میں انہوں نے تصوف کے مسائل کو قصہ کی شکل میں بیان کیا،زبان بہت شستہ،اور رواں ،صاف ،سادہ اور ادبی رنگ لئے ہوۓ ہے۔

1– شاہ عبدالقادر : (1814-1753ء)

سن: 1205ھ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے صاحبزادے شاہ عبدالقادر نے سلیس عام فہم،رواں ، شگفتہ اور دل آویز اردو میں قران مجید کے ترجمہ کا فریضہ انجام دیا، ایک زبان کو دوسری زبان میں منتقل کرنا ،خاص کر قران حکیم کا ترجمہ، اور ایک ایسے وقت میں جب کہ لغت کی کوئی کتاب موجود نہ ہو ،کس قدر دشوار اور مشکل ہے ؟آج اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں،ساتھ ہی دوسری زبان کی نزاکت کو ملحوظ رکھنا، اس کے نوک و پلک کو سنوارنا کوئی سہل کام نہیں ۔ زبان ابھی ابتدائی مرحلہ میں ہے، الفاظ کا ذخیرہ بہت کم، جو ہے وہ بھی غیر مرتب ،ایسی حالت میں اس قدر سہل،آسان اور بامحاورہ ترجمہ کرنا جوۓ شیر لانے سے کم نہیں، بابائے اردو مولوی عبدالحق اس ترجمہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ ترجمہ ٹھیٹ اردو میں ہے ،اس کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ عربی الفاظ کے لیے ہندی یا اردو کے ایسے برجستہ اور برمحل الفاظ ڈھونڈ کے نکالے ہیں کہ ان سے بہتر ملنا مشکل ہے( قدیم اردو /131)
ان کی تفسیر ”موضح القرآن “سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
"اللہ رب العزت سب کا حاکم، مالک سب سے نرالہ، کوئی اس کے برابر نہیں،کسی کا اس پر زور نہیں، یہ باتیں سب جانتے ہیں، اس پر چلنا چاہیے ،ایسے ہی کسی کی جان، مال کو ستانا، ناموس میں عیب لگانا، ہر کوئی برا جانتا ہے ،ایسے ہی اللہ کو یاد کرنا ،غریب پر ترس کھانا، حق پورا دینا، دغا نہ کرنا ہر کوئی اچھا جانتا ہے ،اس پر چلنا وہی سچا دین ہے”
دیکھیے کیا اس عبارت میں قدامت کی کوئی جھلک ہے؟ کیا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دو سو سال پہلے کی زبان ہے؟

2شاہ مراداللہ سنبھلی :

شاہ مراد اللہ سنبھلی،قصبہ سنبھل مرادآباد کے مشہور انصاری خانوادہ کے چشم و چراغ ہیں، مشہور صوفی، بزرگ مرزا مظہر جان جاناں کے اجل خلفاء میں شمار ہوتے ہیں، اردو میں پارہ عم کی بہت ہی آسان، عمدہ اور رواں تفسیر ان کی یادگار ہے، یہ تفسیر محرم کو 1185ھ، مطابق 1771ء کو پایہ تکمیل کو پہنچی، جو”تفسیر مرادیہ“اور”خدا کی نعمت“کے نام مشہور و متداول ہے،مولوی عبدالحق اس تفسیر کے سلسلے میں رقم طراز ہیں :
تفسیر کی زبان بہت صاف اور سادہ ہے،متروک الفاظ خال خال ہیں، اور وہ بھی بہت معمولی _______اس کتاب کی زبان بارہویں صدی کے اواخر کی زبان کا اچھا نمونہ ہے (قدیم اردو /31-130)
طرز تحریر یہ ہے:
"اس زمانے میں بہت لوگ مسلمان کہلاتے ہیں، اپنے تئیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت جانتے ہیں، لیکن دین کے کام انہوں نے چھوڑ دیۓ، قبروں کو سجدہ کرتے ہیں کافروں کی رسمیں بجا لاتے ہیں——– یہ نادانی کا سبب ہے،دین کے علم سے جاہل ہیں، ناواقف ہیں۔(تفسیر مرادیہ/119)

3-شاہ رفیع الدین دہلوی : (1233___1163ھ)
(1817ء___1749ء)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تیسرے فرزند اور شاہ عبدالقادر کے برادر کلاں شاہ رفیع الدین دہلوی ایک نامور محدث اور تفسیر، فقہ اور علوم عقلیہ میں یگانہ روزگار ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب سے بھی خصوصی لگاٶ رکھتے تھے،ترجمہ کلام اللہ اور تفسیر سورہ بقرہ کے علاوہ متعدد اردو رسالے آپ کی طرف منسوب ہیں ،ترجمہ میں عربی جملے اور ساخت کی پابندی کا خاص خیال رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے زبان کسی قدر نامانوس ہو گئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ آج جتنے بھی اردو تراجم ہیں سب کی بنیاد اور اساس انہی دونوں بھائیوں کا ترجمہ ہے،اردو بولنے والوں پر ان کا یہ ایک عظیم احسان ہے
ترجمہ و تفسیر کا نمونہ ملاحظہ ہو :
ترجمہ: اور معاف کر ہم سے،بخش واسطے ہمارے اور رحم کر ہم کو، تو ہی ہے دوست ہمارا اور نصرت دے کفار پر،
تفسیر: "اور ایک بڑی نعمت یہ بھی ہے کہ جب تلک اہل دین اپنے دین پر قائم رہیں اور عوام ان کی متابعت میں رہیں اور نفاق اور مذاہب باطلہ اور بدعتوں سے خالی رہیں، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور پرہیز رشوتوں سے اور سب حرام خوری سے کئے جاویں تو اور دین والا غالب نہیں آتا ۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے فرزندوں سے فیض یافتہ دیگر بہت سے علماء نے بھی اردو زبان و ادب میں تصنیف و تالیف کے ذریعہ گرانقدر اضافے کئے ہیں جس میں حکیم محمد شریف خاں دہلوی (1216_1137ھ)
(1801_1724ء) کا مشرح ترجمہ جس کی زبان مولوی عبدالحق کی رائے کے مطابق شاہ عبدالقادر کے ترجمہ سے زیادہ صاف ہے،نیز شاہ صاحب کی طرح ہندی میں نہیں بلکہ ریختہ میں ترجمہ کیا ،اور شاہ محمد رمضان مہمی (1204_1183ھ) کی تصانیف مولوی رشیدین دہلوی (وفات :1243ھ) کی رشید المومنین اور مولانا محبوب علی دہلوی (1280_1200ھ) کے رسائل قابل ذکر ہیں۔

4-سید احمد شہید : (1246_1201ھ,1831_1786ء)

اصلاح و تجدید،رشد و ہدایت، جرأت و شجاعت، اخلاص و للہیت، غیرت و حمیت، عشق و محبت، فقر و استغنا، ان سب کو جمع کر کے ایک وجود بنایا جائے تو سید احمد شہید کی صورت جلوہ گر ہو جائے گی۔ معاشرہ کی اصلاح و درستگی کے لئے ان کی برپا کردہ تحریک نے مردہ دلوں میں روح پھونک دی، نابینا دیدۂ روشن سے شرف یاب ہو گئے،سوکھی کھیتیاں لہلہا اٹھیں، متحدہ ہندوستان کے چپہ چپہ پر بہار آگئی، نیکیوں کا ماحول بن گیا، اور بھلائیاں گویا فطرت بن گئیں ۔
چونکہ یہ ایک عوامی تحریک تھی، اس کا مقصد معاشرہ کی اصلاح اور ماحول کی درستگی تھی اس لیے سید احمد شہید نے عوامی زبان "اردو” کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا،اور تقریر و ملفوظات کے ذریعہ براہِ راست دلوں مخاطب بنایا،تصنیف و تالیف سے بہت کم آپ کا تعلق رہا، دو کتابیں آپ کی یادگار ہیں، جن میں ایک رسالہ ”حقیقت الصلوة“آپ کے ملفوظات کی کتابی شکل ہے، اور دوسری کتاب تفسیر ”سورۃ الحمد“ ہے جو انہوں نے املا کروائی ہے جس میں بقول مولوی عبدالحلیم چشتی، بالکل بول چال کی زبان استعمال کی گئی ہے، ہندی کے ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو عام فہم ہیں اور اس دور کے محاورے میں رچ بس گئے تھے_(دیکھیے مقالہ عبدالحلیم چشتی/268)
تحریر کا اسلوب یہ ہے:
جزا کا دن قیامت ہے، اور اللہ کی مالکیت ہمیشہ ہے، دنیا میں بھی، اور آخرت میں بھی، مگر ان دونوں میں اتنا فرق ہے کہ دنیا میں بظاہر اور بھی مالک کہلاتے ہیں گو وہ مالکیت، عاریت ، ناپائدار ہے کیونکہ اصل مالک اللہ ہی ہے لیکن قیامت میں یہ عاریت کی مالکیت بھی اٹھ جائے گی( تفسیر سورہ الحمد33_32)

5-شاہ اسماعیل شہید دہلوی
(1246_1193ء،1831_1779ء)

سید احمد شہید سے فیض یافتہ ہر شخص اپنی جگہ آفتاب و ماہتاب ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سید احمد شہید کی ذات ایک جھیل ہے،ایک چشمہ ہے جس سے بیک وقت ہر چہار سمت عرفان و محبت اور کتاب و سنت کی نہریں بہ پڑیں، رشد و ہدایت، تصنیف و تالیف، تحقیق و تدقیق کے بے شمار تابندہ ستارے جگمگانے لگے، اور اظہار خیال کا ذریعہ بنایا ایک ایسی زبان کو جو ابھی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھ رہی ہے،اور اس میں ایسے شہ پارے بکھیر دیے کہ آج ان کا چننا مشکل ہے،قلم حیران اور سرگرداں ہے کہ آخر کس کے بارے میں لکھے،کسے نظر انداز کر دے؟ سب کا سرسری تذکرہ بھی مشکل ہے، اس لیے ان میں صرف چند کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
ملک و ملت کے سرفروش مجاہد اور ایک نامور محدث ،عظیم مفکر شاہ اسماعیل شہید سے کون ناواقف ہوگا؟جس کی کتاب زندگی کا آغاز "باب جہاد ” سے ہوا، اور اسی جہاد پر زندگی کا آخری ورق پلٹا گیا، آپ کی مشہور اردو تصنیف آج بھی بہت سے بھٹکے ہوئے لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے، ایک علمی اور دینی کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ بلا شبہ زبان و ادب کے اعتبار سے بھی یہ اعلی مرتبہ پر فائز ہے اور تقریباً دو سو سال گزر جانے کے بعد بھی وہ سدا بہار پھولوں کی طرح شگفتہ اور تروتازہ ہے،اس کی زبانوں وبیان کے متعلق مشہور ادیب اور مورخ غلام رسول مہر کا بیان ہے:
"اگرچہ یہ اس زمانے میں لکھی گئی تھی جب اردو نثر بالکل ابتدائی دور میں تھی لیکن شاہ صاحب کی عبارت ایسی سادہ سلیس،شگفتہ اور دلکش ہے کہ چند مخصوص الفاظ و محاورات کو چھوڑ کر آج بھی ایسی دلکش کتاب لکھنا آسان نہیں” (داستان تاریخ اردو /167)
اسلوب تحریر یہ ہے:
"آدمی جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ماں باپ سے، اولاد سے اور تمام مخلوقات سے زیادہ دوست جانے اور سب کی دوستی سے زیادہ ان کی محبت دل میں رکھے اور سب کی مرضی سے زیادہ ان کے مرضی کے کام مقدم کرے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو سب کے قول سے زیادہ مقدم جانے، تب وہ مسلمان ٹھہرے اور نہیں تو نہیں”( تقویة الایمان /83)

6-مولانا کرامَت علی جونپوری
(1290_1115ھ)
(1873_1800ء)

مولانا کرامت علی کے ساتھ ہی ذہن میں بنگال کا نام آجاتا ہے کہ موصوف کی تجدید و اصلاح کا زیادہ تر تعلق بنگال ہی سے تھا، تھوڑی دیر ماضی کی سمت پلٹ کر اس وقت کے بارے میں سوچئے جبکہ پورا ہندوستان بالخصوص بنگال کا علاقہ شرک و بدعت کا گڑھ بنایا ہوا تھا، خرافات کے گرد و غبار سے دین کا روشن چہرہ اٹ چکا تھا،ایسے حالات میں مولانا کرامت علی جونپوری کشتی کے ذریعہ گاؤں گاؤں اور بستی بستی اسلام کا پیغام پہنچاتے اور کتاب و سنت سے روشناس کرواتے، مسلمانوں کی اس کیفیت نے انہیں سیماب صفت بنا دیا کہ کسی کروٹ چین نہیں، کتاب و سنت کی دعوت کو عام کرنا اور اسے عوام تک پہنچانا ان کا اوڑھنا اور بچھونا تھا،اس غرض سے پچاس سے زیادہ رسالے اور کتابیں لکھیں جن میں سے اکثر اردو زبان میں ہیں، ان کتابوں کی مدد سے بنگال میں اردو زبان کو بڑھنے اور پنپنے کا موقع ملا، تحریر کا اسلوب نہایت صاف ،سہل، آسان اور سلیس ہے، ساتھ ہی شگفتگی، دل آویزی اور ادبی رنگ کی آمیزش بھی ہے، یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
اکثر لوگ سب علم تو پڑھتے ہیں مگر حدیث کا ذکر بھی نہیں کرتے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور ان کی شکل و صورت، رہن چلن، کھانے پینے، اوڑھنے پہننے، چلنے پھرنے، ہنسنے بولنے، وضو غسل، نماز اور روزہ وغیرہ، اخلاق و عادات کا احوال لوگوں کے نزدیک خواب و خیال ہو گیا بلکہ خواب بھی بھول گیا اور اس شیرنی کی لذتوں کو بھول گئے اور عشق دنیاوی کی قصہ کہانی میں مشغول ہو گئے( انوار محمدی /3)

7-مولانا ولایت علی صادق پوری (پٹنہ)
(1269_1205ھ)
(1852_1790ء)
ہندوستان کی آزادی میں علماء صادق پور کے کردار کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے؟ سید احمد شہید کی شہادت کے بعد تحریک بڑی حد تک صادق پور منتقل ہو چکی تھی جس کی قیادت ان کے نامور خلیفہ مولانا ولایت علی کے سپرد کی گئی، مولانا نے اس تحریک کو جس بیدار مغزی سے آگے بڑھانے کی کوشش کی اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوۓ وہ آزادی ہند کا ایک روشن باب ہے،دیہات، گاؤں اور کھیتوں پر پہنچ کر وعظ و پند کرتے، بیان و خطابت سے مردہ دلوں کو جوش سے بھر دیتے، آپ نے جیسی جہاں ضرورت دیکھی مختصر اور عام فہم رسالے بھی قلم بند فرمائے جن کی تعداد سو سے کم نہیں_( دیکھئے علمائے ہند کا شاندار ماضی 24/3)
:رسالہ ”نکاح ثانی “سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
ان دنوں ہندؤوں کی رسموں میں سے ایک رسم مسلمانوں میں بہت بری پھیلی ہوئی ہے جہاں عورت کا شوہر مرا اس کا نکاح نہیں کر دیتے بلکہ اس نکاح کو عیب سمجھتے ہیں اور اللہ تعالی نے دوسرے نکاح کو قرآن میں بہت تاکید فرمایا ہے اور اس کی تعریف کی، پہلے نکاح بلکہ تاکید سے نہیں فرمایا_ جتنا دوسرے کو فرمایا،اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کا دوسرا نکاح ہوا، اس کو عیب ٹھرانا رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کو بٹا لگانا ہے( رسالہ نکاح ثانی /9)

8– مولوی عبدالحق قریشی (مدراس)

دکن کے خصوصاً مدراس کی سرزمین مولوی عبدالحق کی اصلاحی اور تجدیدی کوششوں کو فراموش نہیں کر سکتی ،موصوف بھی سید احمد شہید کی تحریک کے نمایاں ارکان میں سے ہیں، اردو کی بہت سی کتابیں ان کی طرف منسوب ہیں جن میں سے ایک کتاب ”تنبیہ الغافلین عن طریق سید المرسلین“دستیاب ہے، جو اردو خاص کر دکنی ادب کا بہترین نمونہ ہے۔
یہ سید احمد شہید کی تحریک سے وابستہ محض چند علماء کا انتخاب ہے ورنہ اگر تمام متوسلین کی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو صرف سرسری تذکرہ کے لیۓ ایک دفتر چاہئے، مشہور مورخ ولیم ولسن ہنٹر کا بیان کس قدر مبنی برحقیقت ہے :
"انگریزوں کے خلاف ضرورت جہاد پر اگر وہابیوں کے نظم و نثر کی مختصر سے مختصر کیفیت بھی لکھنے کی کوشش کی جائے تو اس کے لیۓ ایک دفتر چاہیۓ،اس جماعت نے بہت سا ادب پیدا کر دیا ہے جو انگریزی حکومت کے زوال کی پیش گوئیوں سے پُر اور ضرورتِ جہاد کے لیے وقف ہے” (ہمارے ہندوستانی مسلمان/99 )
یہ حقیقت ہے کہ اردو میں سہل نگاری کی ابتدا سید احمد شہید اور ان کے متعلقین نے کی ہے، انہوں نے اس زبان کو آسان اور عام فہم بنانے میں اپنی پوری کوشش صرف کر دی،
مذکورہ ناموں کے علاوہ سید احمد کے رفقاء کی ایک کثیر تعداد ہے جنہوں نے اس زبان کی نشر و اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، مولانا سید عبداللہ حسینی کی تصانیف اور ان کے قائم کردہ ”مطبع احمدی“ نے اردو لٹریچر کے پھیلانے میں جو کردار ادا کیا ہے اسے کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے، مولانا خرم علی کانپوری، مولانا اولاد حسن قنوجی، ملا محمد عمران رام پوری، مولانا حیدر علی رام پوری، مولانا سخاوت علی جونپوری، حافظ اکرام الدین دہلوی، مولانا خیر الدین شیرکوٹی،مولانا عنایت علی صادق پوری کی تصانیف یقیناً خزانہ اردو کے بیش بہا جواہر ہیں ۔
ایک سرسری نظر :
تذکرہ نگاروں نے شاہ محمد اسحاق صاحب سے فیض یافتہ 14 علماء کا تذکرہ کیا ہے جن کا اردو زبان و ادب سے رشتہ رہا ہے اور ان کی تحریریں دستیاب ہیں ایسے ہی روہیل کھنڈ کے پچیس، اودھ اور لکھنو کے تیرہ، بہار اور بنگال کے چھ عالموں کا نام ملتا ہے جنہوں نے اس زبان میں گرانقدر اضافے اور بیش بہا خدمات انجام دیں، ان میں سے صرف تین علماء کا سرسری تعارف کیا جا رہا ہے:

9-مفتی عنایت علی کاکوری
(1279_1228ھ)
(1863_1813ء)
مفتی عنایت علی شاہ محمد اسحاق کے مشہور شاگرد ہیں، انگریزی حکومت کے بغاوت کے جرم میں انہیں جزیرہ انڈومان میں قید کر دیا گیا، قید ہی میں انہوں نے متعدد کتابیں لکھیں، علم صرف کی مشہور کتاب ”علم الصیغہ اسی زمانے کی تالیف ہے، چند کتابوں کے سوا ان کی زیادہ تر تصانیف اردو میں ہیں چونکہ مقصد عوام کی اصلاح اور تبلیغ تھا،اس لئے ان کتابوں میں بہت ہی آسان اور سلیس زبان استعمال کی گئی ہے ان کی کتاب ”تواریخ حبیب الہ“آج بھی محفلوں میں بڑے ذوق و شوق سے پڑھی اور سنی جاتی ہے ،گیارہ سے زائد کتابیں ان کی یادگار ہیں ۔

10-نواب قطب الدین دہلوی
(1280_1219ھ)
(1872_1804ء)
بڑی ناانصافی ہوگی اگر اس موقع پر نواب قطب الدین دہلوی کا نام نہ لیا جائے جنہوں نے 43 کتابیں اردو زبان میں لکھی ہیں گو ان میں کچھ پیچیدگی اور سقم ہے مگر پھر بھی ان کی یہ کوشش قابل قدر ہے کہ قرآن و حدیث، فقہ اور عقائد کے ایک خزانے کو انہوں نے اردو زبان میں منتقل کر دیا ہے ۔

11-مولانا محمد احسن نانوتوی
(متوفی :1312ھ_1895ء)
مولانا محمد احسن نانوتوی، قصبہ نانوتہ ضلع سہارنپور سے تعلق رکھتے ہیں، پوری زندگی درس و تدریس سے وابستہ رہے اور تصنیف و تالیف اور ترجمہ نگاری ان کا محبوبہ مشغلہ تھا، اردو زبان میں سترہ کتابیں ان کی یادگار ہیں، انداز تحریر صاف، دلکش اور بامحاورہ ہے ۔

12-شمش العلماء مولانا شبلی نعمانی
(1332_1274ھ)
(1924_1857ء)
علامہ شبلی نعمانی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے وہ حدیث،فقہ،تاریخ، فلسفہ ہر ایک پر حاوی تھے، ان کی ذات ایک بہترین ماہر تعلیم،سنجیدہ ناقد، شیریں بیاں واعظ سے عبارت ہے، اردو زبان و ادب کی حیثیت سے وہ تجدید کے مرتبہ پر فائز ہیں،اور ان کی کتابیں ادب و انشاء کا اعلی نمونہ ہیں اسلوب کی سہولت، عبارت کی روانی اور زور بیانی، عام فہم الفاظ کے انتخاب سے وہ طرز ایجاد کیا کہ وہ علمی اور مذہبی علوم کی ٹکسالی زبان بن گئی۔
بیان کی ندرت، تعبیر کی سنجیدگی، دلچسپ طریقہ تحریر، اسلوب تحقیق اور طرز تنقید کی تقلید سے کوئی حلقہ خالی نہ رہا ”ترقی انجمن اردو“ کے پہلے سیکرٹری کی حیثیت سے جو کارہائے نمایاں انہوں نے انجام دیئے ہیں وہ اردو اور اردو داں طبقہ پر ایک عظیم احسان ہے ،اگر شبلی نعمانی نہ ہوتے تو اردو کی یہ ترقی نہ ہوتی بلکہ اندیشہ تھا کہ وہ اپنے وجود کو بھی گنوا بیٹھتی، "ورنیکو اسکیم الہ آباد” کے مطابق اردو کو دیوناگری ہونے سے بچانے کے لئے انہوں نے جو کوششیں کیں اسے کیسے بھلایا جا سکتا ہے، ان کی مشہور تصنیف ”سیرت النبی“کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو، فتح مکہ کے بعد کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ان میں وہ حوصلہ مند بھی تھے جو اسلام کی مٹانے میں پیشرو تھے،وہ بھی تھے جن کی زبانیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر گالیوں کے بادل برسایا کرتی تھیں، وہ بھی تھے جن کی تیغ و سناں نے پیکر قدسی کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں، وہ بھی تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے تھے، وہ بھی تھے جو وعظ کے وقت آنحضرت کی ایڑیوں کو لہولہان کر دیا کرتے تھے،وہ بھی تھے جن کی تشنہ لبی خون نبوت کے سوا کسی چیز سے بجھ نہیں سکتی تھی، وہ بھی تھے جن کے حملوں کا سیلاب مدینہ کے دیواروں سے آ آکر ٹکراتا تھا………رحمت عالم نے ان کی طرف دیکھا اور خوف انگیز لہجہ میں پوچھا، تم کو معلوم ہے میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟یہ لوگ اگرچہ ظالم تھے، شقی تھے ،بے رحم تھے لیکن مزاج شناس تھے پکار اٹھے کہ تو شریف بھائی ہے اور شریف برادر زادہ ہے،ارشاد ہوا: تم پر کچھ الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو (سیرت النبی 294/1)

13-مولانا ابوالکلام آزاد دہلوی (1958_1888ء)

خدانخواستہ اگر ادبیات اردو کا سارا ذخیرہ جل کر خاکستر ہو جائے اور تنہا ابوالکلام کی تخلیقات باقی رہ جائیں تو انشاءاللہ ادب اردو کی عظمت و جلالت کا اندازہ لگانے کے لیے بس ہوگی ۔ ( اردو کا ادیب اعظم /11)
محی الدین احمد ابوالکلام کے متعلق ان کے معاصر مولانا عبدالماجد دریابادی کا مذکورہ اعتراف کسی مبالغہ پر مبنی نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے، بلاشبہ مولانا اردو کے ادیب اعظم ہیں، ان کی ادبی عظمت پر کلام کی گنجائش نہیں، مولانا آزاد کا انفرادی اسلوب،غیر معمولی نزاکت، فصاحت اور زور خطابت، سادگی و پرکاری اردو ادب میں ایک اہم اضافہ ہے جس پر زبان ہمیشہ فخر کرتی اور سر دھنتی رہے گی،مولانا کی تحریر میں گرمی اور روانی، موجوں کی طرح طغیانی اور آبشاروں کی سی بلند آہنگ موسیقی اس طرح جمع ہو گئی ہے کہ وہ سدا بہار پھولوں کا ایک حسین گلدستہ معلوم ہوتی ہے اور بقول مولانا دریابادی: ابوالکلام نے اگر اپنے قلم سے ادب اردو کے چمن کی آبیاری نہ کی ہوتی تو تاریخ ادب اردو کے ایک مستقل باب کے اوراق یقیناً سادہ رہ جاتے ( حوالہ سابق /12)
مولانا آزاد کا قلم وہ پرجوش، طاقت ور، اثر انگیز اور آتش ریز قلم ہے کہ آج تک اردو ادب کی تاریخ میں ان کا ہمسر نہ پیدا ہو سکا، سجاد انصاری کا یہ بیان گو کسی قدر مبالغہ پر مبنی ہے مگر بالکل بے حقیقت بھی نہیں ہے :
میرا عقیدہ ہے کہ قرآن نازل نہ ہو چکا تھا تو ابو الکلام کی نثر اس کے لیۓ منتخب کی جاتی (ابوالکلام ایک ہمہ گیر شخصیت /274)
طرز تحریر یہ ہے:
آہ ہم بہت سو چکے اور غفلت و سرشاری کی انتہا ہو چکی، ہم نے اپنے خالق سے ہمیشہ غرور کیا لیکن مخلوق کے سامنے کبھی فروتنی سے نہ شرمائے، ہمارا وصف یہ بتلایا گیا تھا کہ مومنوں کے مقابلے میں نہایت عاجز و نرم مگر کافروں کے مقابلے میں نہایت مغرور و سخت،( قران) ہمارے اسلاف کی یہ تعریف کی گئی، دشمنانِ حق کے لیۓ نہایت سخت ہیں پر آپس میں نہایت رحم والے اور مہربان، (القران) پر ہم نے اپنی تمام خوبیاں گنوادیں، اور دنیا کی مغضوب قوموں کی تمام برائیاں سیکھ لیں، ہم اپنوں کے آگے سرکش ہو گئے اور غیروں کے سامنے ذلت سے جھکنے لگے، ہم نے اپنے پروردگار کے سامنے دست سوال نہیں بڑھایا لیکن بندوں کے دسترخوان کے گرے ہوئے ٹکڑے چننے لگے، ہم پورے دن میں ایک بار بھی خدا کا نام ہیبت اور خوف کے ساتھ نہیں لیتے، پر سینکڑوں مرتبہ اپنے غیر مسلم حاکموں کے تصور سے لرزتے اور کانپتے رہتے ہیں (پیغام کلکتہ : 30 دسمبر سن 1921ء:ص:3)

14– مولانا عبدالماجد دریابادی (1978_1892ء)

ایک نامور مصنف، عظیم دانشور، مفسر، فلسفی اور صاحب طرز ادیب کو دنیا مولانا عبدالماجد دریابادی کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے، مولانا دریابادی کو بقول شاہ معین الدین احمد صاحب ندوی ”اس دور میں ادب و انشاء کے قلم کی حکمرانی نہیں بلکہ اس عہد کی صاحبقرانی ملی تھی“ مولانا کی تحریر سادگی بے ساختگی اور پرکاری کا بہترین نمونہ ہے، وہ ایک حسین گلدستہ ہے جس کے پھول ہمیشہ تر و تازہ اور پر بہار رہیں گے،چھوٹے اور مختصر مگر ادب سے بھرپور جملوں میں جذبات و احساسات کی ترجمانی ان کا خاص طرہ امتیاز ہے، ان کی تحریر ایک منہ بولتی تصویر ہوتی ہے، وہ اردو کے صفِ اول کے ادیب تھے،طرز بڑا اچھوتا اور البیلا اور رعایت لفظی کا خاص ذوق تھا، ان کی کتاب ”حکیم الامت نقوش تاثرات“ سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
مزار اشرف پر حاضری کی تمنا دل میں عرصہ سے تھی، جولائی کے مہینے سے یہ قرض برابر چلا آرہا تھا،نوبت وسط نومبر میں آئی دوپہر سے ذرا قبل تھانہ بھون اسٹیشن پر اترا اور سیدھا مزار پر حاضر ہو گیا،اسٹیشن سے مزار کا فاصلہ ہی کتنا، پورے دو فرلانگ بھی تو نہیں، اور مزار؟ آہ مزار، نہ کوئی گنبد، نہ کوئی کلس دار قبہ، نہ چار دیواری، نہ آستانہ نہ جنگلہ نہ کپڑا ،ایک اوسط درجہ کی وسعت کا باغ ایک سمت میں ایک مختصر پرفضا عمارت وسط باغ میں چند گز مربع کا ایک مسطح تختہ،اور وہی اللہ کے اس شیر کی خوابگاہ، نہ شامیانہ، نہ چھت، صرف آسمان کی کھلی ہوئی چھت کے نیچے ایک نیچی سی، کچی تربت، سادگی کی تصویر، صاحب قبر کی بے نفسی کا آئینہ، نہ لوح ، نہ کتبہ، نہ پھول، نہ چادر ،چند قدم کے فاصلے پر وصل بلگرامی مرحوم اور دوسرے مخلصین پیشوائی کے شوق میں پہلے ہی سے پہنچے ہوئے، شیخ کی قبر ان سب قبروں سے بھی پست، زندگی میں بھی تو اپنے کو اپنے متوسلین سے پیچھے رکھتے تھے_
تصور کی آنکھ نے کیا کیا دیکھا تخیل کے کان میں کیا کیا آوازیں آئیں کوئی کہے بھی تو کس زبان میں کہے“

15– علامہ سید سلیمان ندوی
(1373_1302ھ)
(1953_1884ء)
علامہ سید سلیمان ندوی (پٹنہ بہار) کا مختصر لفظوں میں تعارف یہ ہے کہ وہ ”دل درد مند“ اور ”زبان ہوش مند“ دونوں کے جامع تھے، سید صاحب کی گوناگوں خصوصیات سے کسے انکار ہو سکتا ہے؟ سید علی میاں ندوی کے الفاظ میں ”ان کے ذات اور علمی زندگی میں قدیم و جدید واقفیت، علمی تجربہ، ادبی ذوق، نقاد اور مورخ کی حقیقت پسندی،ادبا اور انشاء پردازوں کی شگفتگی و حلاوت اور فکر کا لوچ اور مطالعہ کی وسعت اس طرح جمع ہو گئی تھی جو شاذو نادر جمع ہوتی ہے“(پرانےچراغ35/1) ان کی تحریر میں متانت اور سنجیدگی، شیرنی اور چاشنی، سوز و گداز اور جوش و خروش ساتھ ساتھ چلتے ہیں، ان کا قلم منجھا ہوا اور نہایت شستہ ہے،ان کی تحریروں میں شستگی اور شائستگی، سلامت اور برجستگی دوش بدوش ہوتے ہیں، ان کا منفرد انداز بیاں قابل رشک ہے، بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک عظیم محقق، منفرد سیرت نگار، حقیقت پسند مورخ ،حدیث و فقہ کا شناور ہونے کے ساتھ اردو ادب کے اہم ستون تھے، سید صاحب کی تصنیفات، مقالات، خطبات اور مکاتیب اردو زبان و ادب کا قیمتی جوہر ہیں، خاص کر دو کتابیں ”خیام“ اور ”نقوشِ سلیمانی“ خالص ادبی تصنیف ہیں۔اقتباس تحریر یہ ہے:
غرض ایک ایسی شخصی زندگی جو ہر طائفہ انسانی اور ہر حالت انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا مجموعہ ہو صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے، اگر دولت مند ہو تو مکہ کے تاجر اور بحرین کے خزینہ دار کی تقلید کرو، اگر غریب ہو تو شعب ابی طالب کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو، اگر بادشاہ ہو تو سلطان عرب کا حال پڑھو، اگر رعایا ہو تو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھو، اگر فاتح ہو تو بدر حنین کے سپہ سالار پر نگاہ دوڑاؤ، اگر تم نے شکست کھائی ہے تو معرکہ احد سے نصیحت حاصل کرو، اگر تم استاد اور معلم ہو تو صفہ کے درسگاہ کے معلم قدس کو دیکھو،اگر شاگرد ہو تو روح الامین کے سامنے بیٹھنے والے پر نظر جماؤ ،اگر تم واعظ اور ناصح ہو تو مسجد مدینہ کے ممبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو،اگر تم تنہا اور بے کسی کے عالم میں حق کی منادی کا فرض انجام دینا چاہتے ہو تو مکہ کے بے یار و مددگار نبی کا اسوہ تمہارے سامنے ہے (خطباتِ مدراس97)

16– مولانا عبدالسلام ندوی (متوفی:1956ء)

مولانا عبد السلام ندوی کو علامہ شبلی نعمانی کی شاگردی کے ساتھ ہم وطنی کا شرف بھی حاصل ہے ”انہوں نے تقریباً پچاس برس تک علم و فن کی خدمت کی، اس پچاس سال میں قران پاک، تفسیر حدیث،سیرت،کلام،فلسفہ،منطق،نفسیات، اجتماعیات،اور شعر و ادب شاید ہی کوئی ایسا فن رہ گیا ہو جس کے کسی نہ کسی پہلو پر ان کا قلم نہ چلا ہو، علم و فن کا اتنا طویل المدت خدمت گزار اردو زبان میں شاید ہی کوئی گزرا ہوگا وہ جب اردو شعر و شاعری پر لکھنے بیٹھتے تو ان کا قلم طاؤس کی طرح رقص کرنے لگتا، ہے ان کی ”شعر الہند“ اردو زبان کی مایہ ناز تصانیف میں سے ہے “(بزم رفتگاں/351)
مولانا موصوف اردو کی چوٹی کے ادیب ہیں ان کی تحریر، ہمواری، روانی، رعنائی، اور دلفریبی کا حسین سنگم ہے، وہ لفظی تصنع اور کاریگری میں نہیں الجھتے بلکہ جو کچھ لکھتے ہیں اس میں برجستگی اور سبک روانی جاتی ہے اور ساتھ ہی ادبی چاشنی سے لبریز ہوتی ہے،یہ اقتباس ملاحظہ ہو :
دریائے حق کا جزر و مد کا یہ کتنا عجیب و غریب منظر ہے حضرت نوح علیہ السلام مدتوں توحید کا غلغلہ کرتے رہے لیکن ان کے سائے کے سوا کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا، حضرت عیسی علیہ السلام نے انصار و اعوان کی جستجو میں دشت و بیاباں کی خاک چھانی لیکن چند حوارئین کے سوا کسی نے ان کی حمایت نہ کی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو چھوڑا تو اس آفتاب عالم تاب کے نور سے ریگستانِ عرب کا ذرہ ذرہ روشن تھا (دیباچہ سیرت عمر بن عبدالعزیز2)

17-شاہ معین الدین ندوی (متوفی 1974ء)

شاہ معین الدین احمد ندوی کا تعلق باہ بنکی کے قصبہ” رودولی“ سے ہے،مخدوم شیخ عبدالحق کے خاندان کے چشم و چراغ تھے، تعلیمی زندگی فرنگی محل سے شروع ہوئی پھر ندوہ آگئے اور وہیں تعلیم کی تکمیل کی، فراغت کے بعد دارالمصنفین سے وابستہ ہو گئے اور پوری زندگی وہیں گزار دی، ہندوستان کے مشہور اور مستند مصنفین میں ان کا شمار ہے، اردو ادب کے سلسلہ میں وہ سند کا درجہ رکھتے ہیں الفاظ محاورات پر انہیں حد درجہ عبور تھا، ان کی تحریر میں بے ساختگی اور آمد ہے، قصداً عبارت کو پرتکلف اور رنگین بنانے سے احتیاط کیا کرتے تھے اور قلم برداشتہ لکھتے چلے جاتے تھے، طرز تحریر یہ ہے :
عدل و انصاف، رحم و کرم ،عفو درگزر اور احسان و سلوک سے جس طرح انسان سنورتا ہے،معاشرہ سرسبز ہوتا ہے، دنیا شاد و آباد ہوتی ہے، اسی طرح ظلم سے انسانی فطرت مسخ ہو جاتی ہے، اس کی درندگی سے معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے،اور دنیا ویران ہو جاتی ہے، اس لیے کلام مجید میں جتنی عدل و احسان کی توصیف و قیام عدل کی تاکید ہے، اس سے زیادہ ظلم کی مذمت بیان ہوئی ہے،(دینِ رحمت86)
ان کے علاوہ فضلاء ندوہ میں مولانا عبدالباری ندوی، مولانا رئیس احمد جعفری، مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا اسحاق جلیس ندوی، مولانا عبدالسلام قدوائی، مولانا محمد ثانی، مولانا ابوالعرفان ندوی، وغیرہ کی تحریریں بھی ادبی حیثیت سے نمایاں مقام رکھتی ہیں ۔

18– مولانا مناظر احسن گیلانی :(1375_1310ھ)

مولانا سید مناظر احسن ”پٹنہ“ کے ایک گاؤں ”گیلانی“کے رہنے والے ہیں، تعلیم کی ابتدا وطن ہی سے ہوئی، مزید حصولِ علم کے لیے ”ٹونک“ گئے اور دیوبند آکر تعلیم کی تکمیل، مولانا بڑے خوبیوں کے مالک تھے، ان کی شخصیت ایک بالغ نظر عالم، علم کلام کا ماہر، حدیث و فقہ کا شناور،حقیقت پسند مورخ سے عبارت ہے، اردو زبان کے تو وہ بادشاہ تھے،علامہ سید سلیمان ندوی انہیں ”سلطان القلم“ کہا کرتے تھے ان کی تحریر میں آبشاروں کا زور اور دریا کی روانی ہے، البیلا اور اچھوتا انداز، زبان صاف اور سادہ مگر ادبی لطافت سے مالا مال ہے ان کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ زبان و ادب کا دریا بہہ رہا ہے الفاظ کی نشست و برخاست اور اسلوب اور انداز کی جدت و ندرت نے ان کی تحریروں کو اردو ادب کا شہ پارہ بنا دیا ہے۔ نمونہ تحریر یہ ہے :
یوں تو آنے کو سب ہی آئے، سب میں آئے، سب جگہ آئے، سلام ہو ان پر ،بڑی کٹھن گھڑیوں میں آئے، لیکن کیا کیجئے ان میں جو بھی آیا جانے ہی کے لیے آیا، پھر ایک اور صرف ایک جو آیا اور آنے ہی کے لیے آیا وہی جو اگنے کے بعد پھر نہیں ڈوبا، چمکا اور پھر چمکتا ہی چلا جا رہا ہے، بڑھا اور بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، چڑھا اور چڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، سب جانتے ہیں اور سبھوں کو جاننا چاہیے کہ جنہیں کتاب دی گئی اور جو نبوت کے ساتھ کھڑے کئے گئے، برگزیدہ کے اس پاک گروہ میں اس کا استحقاق صرف اسی کو ہے، اس کے سوا کس کو ہو سکتا ہے؟جو پچھلوں میں بھی اس طرح ہے جس طرح پہلوں میں تھا اور دور والے بھی ٹھیک اس کو اسی طرح پا رہے ہیں اور ہمیشہ پاتے رہیں گے جس طرح نزدیک والوں نے پایا، جو آج بھی اسی طرح پہچانا جاتا ہے اور ہمیشہ پہچانا جائے گا، جس طرح کل پہچانا گیا تھا کہ اس کے اور صرف اس کے دین کے لئے رات نہیں ایک اسی کا چراغ ہےجس کی روشنی بے داغ ہے،(النبی الخاتم7)

19-علامہ شبیر احمد عثمانی
(1369_1305ھ)
(1949_1887ء)
مولانا شبیر احمد دیوبند کے مشہور عثمانی خاندان کے چشم و چراغ اور دارالعلوم دیوبند کے بلند مقام محقق اور نامور فرزند ہیں،علامہ عثمانی ایک بلند پایہ مفسر، عظیم محدث، فقیہ اور ماہر علم کلام کی حیثیت سے متعارف ہیں،وہیں ان کی ادبی قابلیت بھی مسلم ہے، ان کی تفسیر اردو ادب کا ایک عظیم شاہکار ہے، اس میں ادبی شہ پارے ستارے کی طرح بکھرے نظر آتے ہیں، انداز تحریر نہایت دلکش، صاف اور سہل ہے، وہ اردو کے ایک بلند پایہ ادیب اور مستند و معتبر اہل قلم تھے، ان کے نزدیک مترادفات کی بہتات اور رنگینی کا نام ادب نہیں، بلکہ وہ اپنے خیالات کو اس طرح مرتب کرتے ہیں کہ پڑھنے والا علمی تحقیق کے ساتھ زبان کی چاشنی سے بھی شاد کام ہوتا ہے۔ نمونہ تحریر کے لیۓ یہ اقتباس پیش ہے :
اور تھوڑے عرصہ میں ان سب کو مسخر و گرویدہ بنا لیا کہ جہاں آپ کا پسینہ گرے وہاں خون گرانے کے لیے تیار ہو گئے، گھر بار ترک کر دیا، زن و فرزند سے بگاڑ لی، مال و دولت کو سنگ ریزوں سے حقیر سمجھا، اپنے بےگانوں سے آمادہ جنگ و پیکار ہو گئے،پھر دو چار روز کا ولولہ نہ تھا بلکہ آپ کے بعد بھی اسی حالت پر استقلال کے ساتھ جمے رہے یہاں تک کہ قیصر و کسری کے تخت الٹ دیۓ ،فارس و روم کو تہ وبالا کر دیا ،اس پر معاملات میں وہ شائستگی کہ کسی لشکری نے سوائے مقابلے جہاد کسی کی ایذا رسانی یا ہتک ناموس کو گوارا نہ کیا،یہ تسخیر اخلاق، بتلائیے، اس سے پہلے بھی کسی سے ظاہر ہوئی؟ اس کے بعد بھی اگر کوئی کہے کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا ہے تو فی الواقع اس سے زیادہ کور چشم اور تنگ دل کوئی
معتصب نہیں ہو سکتا (خطباتِ عثمانی/75)

20– مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی :(1382_1318ء)

مولانا حفظ الرحمن، سیوہارہ ضلع بجنور کے ایک زمیندار علمی گھرانے میں پیدا ہوئے،تعلیم زیادہ تر سیوہارہ اور مدرسہ شاہی مراد آباد میں ہوئی اور سن1342ھ میں دارالعلوم سے سند فضیلت حاصل کی۔
"مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن کی شخصیت بڑی جامع تھی، ان کے کارنامے بڑے گوناگوں ہیں، وہ نامور سیاسی لیڈر بھی تھے،ممتاز عالمِ دین بھی ،پر جوش خطیب بھی تھے اور خوش بیاں واعظ بھی، ماہر تجربہ کار معلم اور مدرس بھی تھے، اور مشاق مصنف اور صاحب قلم بھی تھے”۔(شاہ معین الدین احمد ندوی)
مولانا کی زندگی کا بیشتر حصہ خارزار سیاست میں گزارا اس کے باوجود آپ کے قلم سے بہت سی ایسی کتابیں منظر عام پر آئیں جو تحقیقی اور ادبی اعتبار سے اپنی نظیر آپ ہیں،ان کی تحریروں میں ادب و انشاء اس طرح رچ بس گئی ہے جیسے پھول میں خوشبو اور آگ میں حرارت، تحریر کی شگفتگی اور عطر ریزی نے مشکل اور خشک مباحث کو لطیف اور دلکش نیز جملوں کے دروبست اور محاورہ و الفاظ کے انتخاب نے اسے اردو ادب کا شاہکار بنا دیا ہے،ان کی کتابوں سے ان کے قلم کی اثر انگریزی اور سکندری کا اندازہ ہوتا ہے۔ انداز نگارش یہ ہے :
ہندوستان ہمارا وطن ہے، یہ ہماری روایات کا مخزن ہے اور ہماری تہذیب و ثقافت کا گہوارہ،اس کی در و دیوار پر ہماری ہزار سالہ تاریخ کے نشانات کندہ ہیں، وطن عزیز پر بہت سے حوادث آئے ہیں، ایک حادثہ وہ تھا کہ برطانوی سامراج یہاں مسلط تھا، ایک حادثہ یہ ہے کہ ہندو واریت کا دیو حملہ آور ہو رہا ہے، اگر ہم نے تمام لاچاریوں اور مجبوریوں کے ساتھ برطانوی سامراج کا مقابلہ کیا تو کوئی وجہ نہیں ہم ہندو جبر پرستی کے مقابلے میں مرد بہادر نہ بنیں،اور مجبور ہو کر وطن عزیز کو خیرباد کہہ دیں، ہمیں یہیں رہنا ہے، اور باعزت طور پر ان تمام حقوق کے ساتھ رہنا ہے جو ایک باعزت شہری کو حاصل ہو سکتے ہیں_ بے شک ہم مظلوم ہو سکتے ہیں مگر غلام نہیں بن سکتے، اگر ہم نے برطانیہ کی غلامی برداشت نہیں کی تو ہم اکثریت کی غلامی بھی برداشت نہیں کر سکتے (بیس بڑے مسلمان/928)
ان کے علاوہ علماء دیوبند میں مولانا حبیب الرحمن عثمانی، مولانا اعزاز علی ، مولانا عبدالصمد رحمانی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا محمد میاں دیوبندی، مفتی عتیق الرحمن عثمانی، قاضی اطہر مبارک پوری کی کتابیں بھی اردو ادب و انشاء کے اعتبار سے ایک اہم مقام رکھتی ہیں، ان کی تحریریں عالمانہ اور محققانہ ہونے کے ساتھ اسلوب اور دلکشی و دل آویزی کے لحاظ سے معیاری اور ٹکسالی ہوتی ہیں،اور تاجور نجیب آبادی، مظہر الدین بجنوری، حامد الانصاری غازی،شائق احمد عثمانی، عامر عثمانی شعر و ادب کی دنیا میں مضمون نگار اور ادبی حیثیت ہی سے متعارف ہیں ۔

حرف آخر :

مجھے احساس ہے کہ مضمون کہ اس حصہ پر پہنچ کر آپ تشنگی محسوس کریں گے، اس میں بہت سے ایسے لوگوں کا تذکرہ نہیں ملے گا جن سے آپ مانوس ہیں، جنہوں نے اردو ادب میں گرانمایہ اضافہ اور اس کی ترویج و ارتقا میں نمایاں حصہ لیا ہے، اس کی وجہ ان سے متعلق مواد کا بر وقت فراہم نہ ہونا ہے، تاہم بڑی ناشناسی اور ناانصافی ہوگی اگر اس موقعہ سے مولانا سید ابوالاعلی مودودی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں، مولانا احمد رضا خان بریلوی، مولانا تقی امینی کا نام نہ لیا جائے، ان میں سے بعض کی فکر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کی ادبی حیثیت سے انکار ممکن نہیں،انہوں نے اردو اور اسلامی ادب کو جو کچھ دیا ہے اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا اور اردو ادب و انشاء میں جو قیمتی اضافے کیۓ ہیں ان کا منکر کون ہو سکتا ہے؟ انہوں نے اس چمن کو لالہ زار اور پر بہار بنانے کے لیے جو کوششیں کی ہیں اس گلستان میں جو گل و بوٹے کھلائیں ہیں انہیں اس وقت تک یاد رکھا جائے گا جب تک اردو اس دنیا میں زندہ و پائندہ ہے ۔
یہ ان مشہور علماء عظام کا سرسری جائزہ ہے جنہوں نے تحریر کی شکل میں اپنی یادگار چھوڑی ہے ، ان کی کتابیں دستیاب اور ان کے نام تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں، اردو کے محسنوں میں بہت سے اللہ تعالی کے بندے ایسے ہیں جن کا نام گوشۂ گمنامی میں پڑا ہوا ہے اور خدا کے سوا کسی کے علم میں نہیں، نیز کسی بھی زبان کی نشر و اشاعت کا ذریعہ صرف تحریر ہی نہیں بلکہ خطابت و بیان کا تصنیف و تالیف سے زیادہ دخل ہے، یہ شاہ ولی اللہ کے نامور فرزند شاہ عبدالعزیز ہیں جن کے جمعہ کے خطبہ سے اردو کے چوٹی کا شاعر ذوق محاورات کے سیکھنے میں مدد لیا کرتا ہے جب شاہ نصیر دہلوی سے ذوق کی ان بن ہوگئی اور انہوں نے ذوق کی غزل درست کرنے سے انکار کر دیا تو وہ ہر جمعہ کو شاہ عبدالعزیز کے وعظ میں جانے لگے اور بڑے انہماک سے ان کی تقریر سنتے تھے کسی دوست نے اس کا سبب پوچھا تو کہا :
استاد اس گنہگار سے ناخوش ہو گئے ہیں، شعر و سخن میں اصلاح ملتی نہیں اس کا بدل میں نے یہ نکالا ہے کیونکہ مولانا عبدالعزیز اردو زبان دانی میں شاہ نصیر سے کسی طرح کم نہیں، ان کے بیان اور گفتگو سنتا ہوں اور اردو کے روز مرہ محاورے کو یاد کرتا ہوں (رود کوثر/589)
جن علماء کرام نے اپنی شعلہ بیانی سے دلوں کی بستیاں زیر و زبر کر دی ہیں جن کی تقریروں نے زندگی کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، ان کی خطابت سے اردو زبان کو پھلنے اور پھولنے میں جو مدد ملی ہے اس سے کیسے صرف نظر کیا جا سکتا ہے؟واقعہ ہے کہ اردو کا وجود علمائے کرام ہی کی رہین منت ہے، علماء ہی ہیں جنہوں نے ابتدا میں اسے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا اور علماء ہی ہیں جو آج بھی اسے گلے لگائے ہوئے ہیں۔ اردو کا قصر ادب جن بلند اور مضبوط ستونوں پر قائم ہے ان میں اکثر علماء ہی ہیں،مولانا علی میاں ندوی کے الفاظ میں "چنانچہ سب کہتے ہیں قصر ادب کے چار ستون ہیں ،مولوی حسین آزاد دہلوی،خواجہ الطاف حسین حالی، ڈپٹی نظیر احمد اور مولانا شبلی . آپ دیکھیں گے کہ چاروں اسی تعلیم کے پروردہ تھے، مدرسہ کے پڑھے ہوۓ اور علماء کے شاگرد تھے اور جہاں تک مولانا شبلی اور ڈپٹی نظیر احمد کا تعلق ہے وہ مستند عالم تھے، ایک قرآن کے مفسر تھے تو دوسرے سیرت نگار، اور ایسے ہی خواجہ الطاف حسین حالی پورے طور پر دینی حلقے کے آدمی ہیں” (دین ادب 44)
اردو کا بقا آج انہی مدارس اسلامیہ اور ان کے فضلاء پر منحصر ہے، اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو کبھی یہ ایک "تاریخی زبان” بن چکی ہوتی، ہندوستان کے بہت سے حصوں میں جہاں اردو برائے نام ہے، وہاں بھی ان مدارس میں ذریعہ تعلیم اردو ہی ہے، اور دیگر ممالک کے طلباء جو ان مدارس سے متعلق ہوتے ہیں ان میں بھی اس زبان سے لگاؤ پیدا ہو جاتا ہے مگر بڑی ستم ظریفی ہے کہ جو لوگ اپنی گفتگو اور بول چال میں اردو استعمال کرتے ہوئے شرماتے ہیں، جن کے گھروں سے اردو کا جنازہ اٹھ چکا ہے آج وہ اردو کے ٹھیکے دار بنے بیٹھے ہیں اور علماء کا جن سے اردو کا وجود ہے کوئی نام اور کوئی تذکرہ نہیں، اس میں جہاں غیروں سے شکوہ ہے وہیں اپنی کوتاہی کو بھی دخل ہے، آج ہماری ذمہ داری ہے کہ اس میدان میں آگے آئیں اور لوگوں کو علماء کی خدمت سے روشناس کرائیں ۔

بشکریہ:سہ ماہی صفا دارالعلوم سبیل السّلام حیدرآباد کا خصوصی شمارہ "ادب اسلامی ایک مطالعہ”1996ء

Exit mobile version