__________________
تعلیم، نظام تعلیم ، تدریس، طریقئہ تدریس اور نصاب تعلیم پر برابر گفتگو ہوتی رہنی چاہیے، اور جس زمانہ میں جو چیزیں اس سلسلہ میں مفید ہوں ان کو اخذ کرنا چاہیے ، اس کو نصاب تعلیم میں شامل کرنا چاہیے ، اور جدید اسباب و وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہیے ، زندگی کے ہر میدان اور شعبہ میں ندرت اور جدت شرعی حدود میں ہم قبول کر رہے ہیں تو تعلیم نظام تعلیم تدریس اور طریقئہ تدریس اور نصاب تعلیم میں اس ندرت اور جدت کو قبول کرنے میں کیوں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ ہر زمانے کے اعتبار سے افراد و اشخاص کو تیار کرنا اور زمانہ کی زبان اور اسلوب میں اسلام اور فلسفہ اسلام کو پیش کرنا اور شریعت کے مزاج سے واقف کرانا کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے ؟ کیا ہم اس کے مکلف نہیں ہیں؟
اس سلسلہ میں راقم کے ذہن میں چند باتیں ہیں ،جو قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ امید کہ اس پر توجہ دی جائے گی ۔
دوستو !!!
یہ دور اور زمانہ عالمی معاشی ترقی (گلوبلائزیشن ) کا دور ہے ۔ ہر شعبہ میں جدت اور ندرت پیدا ہو رہی ہے ، سائنس ، صنعت و حرفت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا اتنی ترقی کر گئی ہے کہ پوری دنیا ایک گاؤں کے مانند ہوگئ ہے۔ تحقیق و ریسرچ اور حوالہ کے بغیر لوگ کسی بات اور حقیقت کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ اس لئے مسلمانوں کو ہر اعتبار سے میدان کار میں آنے کی ضرورت ہے ۔
دوسری طرف مسلمان اس وقت جن حالات سے گزر رہے ہیں اور زمانہ جس تیز رفتاری سے ترقی کی راہ پر ہے، اس پس منظر میں امت کو اس وقت دو طرح کے افراد کی شدید ضرورت ہے ۔
امت کو جہاں ایک طرف دینی، مذھبی، ملی اور سیاسی قیادت کے لئے ایسے راسخ علماء کی ضرورت ہے ، جو ایک طرف تقویٰ و طہارت، صدق و صفا، اخلاص و للہیت ،علم کی گہرائی اور عمل کی پاکیزگی میں اپنے اسلاف کا نمونہ اور ان کے ذوق و مزاج کے امین و وارث ہوں، دوسری وہ حالات زمانہ اور اس کی گردش و رفتار سے واقف ہوں ،نیز وہ جدید اور ماڈرن تعلیم یافتہ طبقے بالخصوص نئی نسل اور نوجوان طبقہ کی الجھنوں اور نفسیات سے اچھی طرح واقف ہوں ۔ اور ان کے اندر یہ صلاحیت اور استعداد ہو کہ وہ ان سے ان کی زبان اسلوب اور معیار میں بات کرسکتے ہوں اور ان کو مطمئن کرسکتے ہوں ۔ علماء کے اس طبقہ میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی اسلام کے دین فطرت اور مسائل زندگی کے واحد حل ہونے کا یقین دلا سکیں ۔ ان علماء کے دل و دماغ اور ذوق و مزاج پر بگڑے ہوئے سماج اور سوسائٹی کے لئے غصہ اور نفرت کے بجائے داعیانہ ہمدردی اور خیر خواہی کے مثبت جذبات کا غلبہ ہو اور جو محبت حکمت اور دلسوزی کے ساتھ نہ صرف اپنوں کو بلکہ برادران وطن اور اور پوری انسانیت کے سامنے اسلام کا محبت بھرا پیغام اچھے انداز اور بہتر اسلوب میں زبان قال اور زبان حال سے رکھ سکیں ۔ آج کےحالات میں یقینا اس امت کو ایسے علماء کرام اور رہبران ملت اور داعیان قوم کی ہر ہر قدم پر ضرورت ہے ۔
دوسری طرف ملت اسلامیہ کو آج کے حالات میں میں اس کی بھی سخت ضرورت ہے کہ امت کا وہ بڑا طبقہ جو قانون، انتظامیہ، سول سروسز، دفاع ،صحت، تعلیم، اکونامس (معاشیات) صحافت، ادب ،سائنس، انجینئرنگ اور صنعت و تجارت کے شعبوں میں ہیں یا ان شعبوں میں پہنچنے کے لئے تیاری کر رہے ہیں ان لوگوں پر صحیح محنت کے لئے اور ان کی صحیح اور اسلامی تربیت کے لئے ایسے افراد کی سخت ضرورت ہے جو عصری تعلیم یافتہ لوگوں یا ان اداروں میں زیر تعلیم افراد پر ایسی محنت کریں کہ ان شعبوں میں موجود مسلمان صحیح معنی میں مسلمان بن جائیں اور وہ اپنے اپنے دائرے عمل میں وہ اسلام کی نمائندگی کرنے لگیں ۔ وہ ان شعبوں کی فنی مہارت کے ساتھ ایمانداری اور جذبہ خدمت کے لحاظ سے اپنی الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہو جائیں ۔ ان کا کام صرف مال کمانا اور عہدہ حاصل کرنا نہیں رہ جائے ۔اور ان کی یہ پیشہ وارانہ مشغولیت صرف مال کمانے کا ذریعہ نہ رہے ۔ بلکہ ان کا مقصد کسب معاش کے ساتھ خدمت خلق دعوت دین اور رضائے الٰہی کا حصول بھی بن جائے ۔ اور وہ اس راستے سے اسلام کا داعی دین کا ترجمان اور نمونہ بن جائیں ۔
پہلے افراد یعنی راسخ مخلص اور دین دار علماء کی تیاری کے لئے مدارس کی چہار دیواریاں کافی ہیں شرط یہ کہ اس کے لئے منصوبہ بندی کے ساتھ محنت کی جائے اور ان صفات کے حامل علماء کی پوری ٹیم تیار کی جائے ۔
دوسری قسم کے لوگوں کو تیار کرنے کے لئے یعنی عصری تعلیم یافتہ لوگوں کے مزاج کو دینی اور دعوتی بنانے کے لئے بہت سے نسخے ہیں اور ہوسکتے ہیں لیکن ان میں سے ایک کامیاب حل اور طریقہ وہ ہے جس کا خاکہ حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانی رح نے پیش کیا تھا کہ اس کے لئے اسلامی اقامت خانے کو قائم کیا جائے لیکن افسوس کہ حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانی رح کی اس تجویز پر امت نے نہ دھیان دیا نہ اس کی طرف پیش قدمی کی ۔
مولانا مرحوم کی فکر تھی کہ مسلمانوں کے لئے کالج اور یونیورسٹیوں کے قائم کرنے سے زیادہ ضروری اسلامی ہوسٹل یا اسلامی اقامت خانے قائم کرنا ہے جہاں ان کی پوری علمی اور فکری تربیت کی جاسکے ۔ جہاں ان کی نقل و حرکت کی نگرانی ہوسکے ۔ اور ان کی زندگی کو ملت کے لئے مفید اور آئیڈیل بنایا جاسکے ۔ ان اقامت خانوں میں وہ طلبہ قیام کریں جو سرکاری اور نیم سرکاری تعلیمی اداروں سے وابستہ ہوں ۔ اس تجویز کا فائدہ تعلیم گاہوں کے قیام سے زیادہ تھا ،اور کم خرچ بالانشیں کا مصداق تھا ۔لیکن افسوس کہ اب تک کسی نے اس بے مثال تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ اگر جمعیت علمائے ہند اور آل انڈیا ملی کونسل چاہ لے اور مخلص مسلمان سرمایہ داروں کو اس جانب متوجہ کرلے اور اپنی نگرانی میں اس کام کا بیڑہ اٹھایا لے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ اللہ تعالٰی ہم مسلمانوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔