ایک تاریخ ساز پیکر ِعزم وہمت کی رحلت

نالۂِ غم : شکیل منصور القاسمی

______________

آج علی الصباح اپنے معمولاتِ علمیہ میں مصروف تھاکہ بے وقت میری بچی عظمیٰ کاشفہ نے گھبرائی آواز میں کال کرتے ہوئے استفسار کیا : ابو جی ! کچھ معلوم ہوا ؟ اندازِ مکالمہ سے میں سمجھ گیا کہ کچھ انہونی ہوگئی ہے ، میرے لاعلمی ظاہر کرنے پہ کہا کہ “ کمال دادا “ کا ابھی ابھی انتقال ہوگیا ہے ۔
انتقال کی خبر سن کر میرا کلیجہ دھک سے بیٹھ گیا ، حواس گم ہوگئے ، استرجاع پڑھتے ہوئے فون رکھا ، احباب ورفقاء سے رابطے شروع کئے تو خبر کو سچ پایا ، پھر چاروں طرف سے رحلت کی اطلاعات آنے لگیں ۔
محترم کمال بن محمد شفیق صاحب جنہیں اب مرحوم کہتے ہوئے دل پہ زور کی چوٹ لگتی ہے ، میرے قریبی اعمام میں سے تھے اور خاندان کے بڑے وسرپرست ھے ، باپ کے اکلوتے فرزند تھے ، محترم الحاج مطیع الرحمن صاحب مرحوم کے چچا زاد بھے تھے اور بہنوئی بھی تھے ، بڑے رئیس وزمیندار تھے ، انتہائی بااثر باوزن وباوقار تھے ، بچپن میں ہم نے دیکھا کہ محلہ کے چھوٹے بچے ان کے سامنے بلند آواز میں بات تک کرنے کی جرات نہ کرپاتے ، اُس وقت غریبی کا زمانہ تھا ، محلہ کے  اکثر لوگ ملازمت وتجارت پیشہ تھے اور بسلسلہ روزگار  گھر سے باہر رہتے تھے ، کمال صاحب محلے میں سبھوں کے گارجین اور فیملی ذمہ دار ہونے کا کردار نبھاتے ، لوگوں کی آپسی ناچاقیوں  اور ناہموار یوں پہ فیصلے کرتے اور نزاعی قضیے چکاتے ، محلہ کے چلبلے شرارتی بچوں کی قاعدے سے گوش مالی بھی فرمایا کرتے ، والدین کو ان کی گوشمالی یا تادیب وتفہیم پر مجال اف نہ ہوتی ، اس وقت ہمارے گائوں میں ایک بھی دینی مدرسہ نہ تھا ، مسجد بھی صرف ایک تھی ، اب تو ماشاء اللہ چار مساجد ہیں ، آبادی کے تناسب سے مسجد اور مدرسہ کے تئیں ہمیشہ وہ فکر مند رہتے ، ہمارے محلے میں سالوں کنویں پہ نماز باجماعت ادا کی جاتی رہی ، بڑی محنتوں اور تگ ودو کے بعد الحاج نمازی عبد الربان صاحب مرحوم اور ان کے خانوادے کی زمین پر کمال چچا کی کوششوں سے ہمارے محلے میں پہلی چھپر پوش مسجد قائم ہوئی ، جس کے ایک گوشے میں پہلا کھپریل پوش مکتب بھی قائم ہوا ، ہمارے گائوں کی یہ دوسری مسجد تھی ، پہلی مسجد کے بالمقابل چونکہ یہ کمّاًچھوٹی تھی ؛ اس لئے یہ چھوٹی مسجد ، اور پہلی مسجد بڑی مسجد کے نام سے مشہور ہوئی ، جسے اب کچھ لوگ جامع مسجد بھی کہدیتے ہیں ؛ جبکہ اصلاً ہر وہ مسجد “جامع مسجد”  ہے جہاں جمعہ قائم ہوتا ہو ۔ ہماری یاد میں حافظ منور صاحب سانہا اس مسجد کے امام ومعلم تھے ، ہم لوگ مسجد کے اس چھوٹے سے مکتب میں پڑھنے آتے ، پڑھنے کم اور مکتب کے چاروں کونے میں آس پاس اور چھپن چھپائی کھیلنے زیادہ آتے تھے ، روز افزوں آبادی کے پیش نظر جب یہ مسجد ناکافی ہوگئی تو اس کی پختہ تعمیر ومزید توسیع عمل میں آئی ، نئی عمارت کی تکمیل کے بعد  محترم ماسٹر محمد صلاح الدین صاحب کے ایماء پر دارالعلوم دیوبند کے ایک تازہ دم وتازہ علم نو فاضل جواں سال عالم دین کو بطور امام ومعلم بحال کیا گیا ، جنہیں آج  ہم مولانا محمد صابر نظامی القاسمی کے نام نامی سے جانتے ہیں ، آپ بالکل جواں سالی اور تجرد کی عمر میں یہاں تشریف لائے تھے ، یہاں رہتے ہوئے ہی حضرت عقد نکاح سے وابستہ ہوئے ، حضرت نے یہاں اشاعت علم کی ایسی جان توڑ محنت کی کہ ہر سو علم کی شمع فروزاں ہوگئی ؛ بلکہ سمجھئے کہ علم کی بہار آگئی ، پڑھنے والے بچے بچیوں کی قابل ذکر ٹیم تیار ہوئی ، مکتب کو وسیع کرکے مدرسہ کی شکل دی گئی ، اپنی محنتوں سے اس کی باضابطہ عمارت بنوائی جہاں اس وقت تنظیم فلاح المسلمین قائم ہے ، اس کا باضابطہ “ مدرسہ نور العلوم سیدپور “ نام رکھا ،گوکہ ہمارے گائوں میں اس وقت تک دوچار حفاظ  کرام ( حافظ محمد شبیر صاحب ، حافظ محمد مستقیم صاحب مرحوم ، حافظ مجمد فاروق اعظم صاحب اور محترم قاری عبد القیوم صاحب ) اور دو عدد عالم دین : حضرت مولانا محمد زین العابدین صاحب قاسمی مرحوم اور مولانا محمد حسنین صاحب نعمانی  مرحوم)جیسی  شخصیات موجود تھیں ؛ لیکن جناب کمال صاحب کی خواہش تھی کہ ہمارے محلے میں بھی حفاظ وعلماء پیدا ہوں ، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ میرے بڑے بھائی محترم حافظ محمد شمشیر عالم صاحب نصر صاحب کی آٹا چکی مشین کی زد میں آکر اپنا داہنا ہاتھ کھو بیٹھے ، اس وقت میرے والد صاحب بنگلہ دیش رہتے تھے ، میں اس وقت وہی شاید دوتین سال کا تھا ، میرے گھر والوں کے لئے ناقابل تحمل صدمہ تھا ، مصیبت کی اس گھڑی میں یہی مرد مجاہد ظاہری سہارا بنے ، بھائی صاحب کو صدر اسپتال ایڈمٹ کرایا ، مہینوں علاج ہوا ، زخم تو بھر گیا لیکن وہ اپنے داہنے ہاتھ سے معذور ہوچکے تھے ، ان کی مستقبل کی فکر نے کمال صاحب کو بے چین کردیا ، والد صاحب کی غیر موجودگی میں وہ بھائی صاحب کا مدرسہ حسینیہ چلمل میں داخل کرا دیئے ، بھائی صاحب نے وہاں سے نہ صرف حفظ کی تکمیل کی ؛ بلکہ مثالی اور چمپئین حافظ بن کے نکلے ، یہ “میرے محلہ”  کے پہلے اور سپر فاسٹ حافظ قرآن تھے ، انہیں دیکھ کر اہل محلہ  میں اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنانے کا مسابقتی ذوق وشوق پروان چڑھا ، درجنوں بچے داخل مدرسہ ہوئے ، حفظ قرآن اور عالم دین بننے کا ایک عمومی مزاج پیدا ہوا ،  سن شعور کے بعد مجھے بھی بھائی صاحب چلمل لے آئے ، اس طرح قریب دس پندرہ سالوں میں محلے میں درجنوں بچے حافظ قرآن بن گئے ، اس وقت الحمد للہ ہمارے گائوں میں حفاظ وعلماء حد وحساب سے باہر ہیں ، محلے میں دینی علوم کے حصول کا شوق ورغبت دلانے  اور علماء وحفاظ کی ٹیم تیار کرنے کے پیچھے اصل محرک اور داعی یہی کمال صاحب تھے۔

سنہ دوہزار میں جب میں دارالعلوم دیوبند سے تکمیل افتاء کرکے وطن لوٹا تو گائوں کے بڑوں نے جن میں سر فہرست کمال چچا تھے میرا شاندار استقبال کیا اور میرے اعزاز میں جناب شفیق عالم صاحب مرحوم کے تاریخی دروازے پہ استقبالیہ جلسہ  رکھا گیا ۔
اس مختصر سے جلسے میں  ہم نے گاؤں میں ایک دینی مدرسے کے قیام کی ضرورت پر زور دیا ، چند دنوں بعد ہی مدرسہ کے قیام کے لئے ممکنہ زمین کے حصول پہ گاؤں سطح پر غور شروع ہوا ، جائے وقوع کے حوالے سے کئی آراء سامنے آئیں، گائوں کی آبادی سے باہر جانبِ مشرق بانس کی لامتناہی سنسان فصل میں کمال صاحب کا مویشی پالن کا ڈیرہ تھا ، یہ زمین ہمارے خاندان کے مختلف شاخوں کی مشترکہ زمین تھی ، جس میں ہر شاخ  کا تھوڑا تھوڑا حصہ تھا ، دیگر دور اندیش حضرات کے ساتھ کمال صاحب  کی بھی  رائے ہوئی کہ تمام حصہ دار اس قطعہ اراضی کو مدرسہ کے نام وقف کریں ،  چنانچہ بڑی مشکل اور دوڑ بھاگ کے بعد اس زمین کا حصول ممکن ہوپایا اور یوں جہاں ان کا پہلے ڈیرہ تھا اس خالی زمین پہ حضرت مولانا عبد الماجد صاحب سیوانی ، مولانا محمد صابر نظامی صاحب اور دیگر مقامی علماء وحفاظ کے ہاتھوں شاندار مدرسہ قائم ہوگیا الحمد للہ !
اس مدرسہ کے نام کے انتخاب کا جب مرحلہ آیا ، تو حضرت نظامی ، برادر مکرم مفتی محمد ارشد شمس قاسمی اور عاجز نے کافی غور وخوض کے بعد اپنے محلہ میں قائم مدرسہ نور العلوم کا نام ہی باقی رکھنا مناسب سمجھا  ، صرف مدرسہ کی بجائے “جامعہ عربیہ “ کے اضافہ  کے ساتھ “ جامعہ عربیہ نور العلوم سیدپور “ نام منتخب کرلیا گیا ۔
آج بحمد اللہ یہ مدرسہ پورے علاقہ کے لئے مینارہ نور ہے ، شفاف اجتماعی نظام کے ساتھ سینکڑوں مقیم طلبہ کی تعلیم وتربیت کا کفیل ہے ۔مدرسہ اور ہمارے محلہ کی مسجد کی موجودہ ظاہری وباطنی ترقیات کے پیچھے کمال صاحب کا خون جگر شامل ہے ۔
کمال صاحب صرف اسی مسجد ومدرسہ تک محدود نہ تھے ، گائوں میں جہاں کہیں بھی اس طرح کا کار خیر شروع ہوتا وہ از خود وہاں پہنچ جاتے ، رات ودن اس کی نگرانی فرماتے ، مادی ومعنوی ہر طور سے مدد کی کوشش کرتے ، اصلاً وہ  علم وعلماء دوست اور ہر دینی کام کی تعمیر وترقی میں جان ودل نچھاور کردینے والے بے لوث ومخلص خادم تھے، مسجد تقوی کی اراضی کی خریداری اور تعمیر کی مہم جب میں  نے شروع کی تو ہمیشہ مجھے تنہائی میں بیٹھا کر ہدایات دیتے ، حوصلے بڑھاتے ، اچھے کاموں کی کھل کر ستائش کرتے ، دوسال قبل اپنے محلہ کی مسجد کی تزئین جدید اور ماربل کا کام شروع تھا تو برملا مجھ سے کہتے “آپ لگ جائیے گا تو کوئی کام نہیں رکے گا ان شاء اللہ “  
میں ان کی باتوں کو اپنے حق میں دعاء تصور کرکے زیر لب آمین کہتا ، ایک مجلس میں میرے دوست جناب سرفراز صاحب کو گواہ بناکر مجھ سے فرمایا کہ “میری وفات پر نماز وتدفین کا سارا کام آپ کریں گے “
یہاں آتے ہوئے جب بھی آخری ملاقات کے لئے حاضر ہوتا اور مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتا تو پچھلے چند سالوں سے یہ لازماً  فرماتے کہ “میری موت پہ مجھے اچھا سے پڑھ لکھ دیجئے گا “
پَر آہ !!! اے بسا آرزو کہ خاک شدہ !
جانا تو سب کو ہے ؛لیکن ایسی ، مخلص ، عزم وہمت کے پیکر ، مرد مجاہد ، سیدپور کی آن وشان کی رحلت ، ناقابل تحمل صدمہ ہے ، مجھے سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ میں ان کے جنازہ میں شریک نہیں ہوں
ایسی ہی محرومیوں کے وقت غربتِ دیار اور اجنبیت ٹیس مارتی ہے، میں بے حد دُکھی اس لئے ہوں کہ ایسی شخصیات اب پیدا نہیں ہوتی ہیں ۔انہیں کبھی کسی عہدے کی طلب رہی نہ داد وتحسین کی کوئی پروا، جب تک زندہ رہے دینی تعلیم کی سربلندی میں پورے دم خم کے ساتھ جٹے رہے ، ان کی بے لوث ومخلصانہ خدمات نے انہیں حیات جاودانی عطا کردی ہے ، وہ ہمیشہ دھڑکنوں میں اور سیدپور کی تاریخ میں زندہ رہیں گے ان شاء اللہ !
پسماندگان میں بیوہ اور ایک بیٹی ہیں ، نرینہ اولاد نہ تھی، صرف ایک بیٹی تھی ، جناب شمشیر صاحب کاریچک کے عقد میں ہیں ، ان کے منجھلے فرزند یعنی اپنے منجھلے نواسے عزیزی فردوس سلمہ کو بیٹا بناکر رکھے ہوئے تھے ، ان کی خبر گیری وتیمار داری بھی یہی کرتے تھے ، فردوس کا ایک فرزند مدرسہ میں حفظ قرآن کررہا ہے ، مرحوم کی خواہش تھی کہ اسے حافظ قرآن دیکھ لیں ، لیکن موت کے بے رحم پنجے نے مہلت نہ دی ، اور راہیِ ملک بقاء ہوگئے ۔
رب ذو الجلال آپ کو خلد بریں کا مکیں بنائے ، اولاد واحفاد میں علماء وحفاظ پیدا فرمائے ۔  غم بہت بڑا ہے ،ذہن بری طرح متاثر ہے ، آج تدریس سے بھی مجبوراً رخصت لینا پڑی ، صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں ، صبر ہی ہر درد کا درماں ہے ۔
إن في الله عزاء من كل مصيبة، وخلفا من كل هالك، ودركا من كل فائت۔
« اللَّهُمَّ إنَّ عمّنا في ذِمَّتِكَ وحَلَّ بجوارك، فَقِهِ فِتْنَةَ القَبْر ، وَعَذَابَ النَّارِ ، وَأَنْتَ أَهْلُ الوَفاءِ والحَمْدِ ، اللَّهُمَّ فاغفِرْ لهُ وَارْحَمْهُ ، إنكَ أَنْتَ الغَفُور الرَّحيم 

Exit mobile version