✍️ انس مسرورانصاری امبیڈکرنگر،یوپی
___________________
اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی اور ضابطۂ حیات ہے،اس صداقت سے کوئی بھی مسلمان،مسلمان ہونے کے بنیادی عقیدہ کی بنا پر انکار نہیں کر سکتا۔اسلام کی یہ سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ ر وحا نیت اور مادیت کے متضاد نظریوں کے درمیان کوئی حدِ فاصل نہیں کھینچتا۔ دیگر مذاہب کی طرح صرف راہبانہ زندگی کی ترکیب نہیں دیتا بلکہ ایک ایسے متوازن اور صحیح راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس سے دینی اور دنیاوی دونوں تقاضے پورے ہو جاتے ہیں۔اس کی عظیم صفت یہ ہے کہ آدمی کی پیدائش سے موت تک تمام شعبۂ حیات و کا ئنا ت میں انسان کی رہبری اس نہج پر کرتا ہے کہ آخرت بھی سنور جاتی ہے اور دنیاوی ضرورتوں کی تکمیل بھی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ انسانی سماج کی فلاح واصلاح اور استحکام کے لیے اسلام کی طرف سے جو ہدایات اور احکام جاری ہوئے وہ سب کے سب عباد ا ت کادرجہ رکھتے ہیں۔
اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں روزہ بھی ایک رکنِ عظیم ہے۔روزہ کے متعلق قرآن میں ہے کہ؛ ‘‘ روزہ کا مہینہ رمضان ہے جس میں قرآن کا نزول شروع ہوا ہے اور قرآن لوگوں کا رہنما ہے اور اس میں ہدایت اور حق وباطل کی تمیز کے کھلے کھلے حکم موجود ہیں۔ تو مسلمانو! جو تم میں سے اس مہینہ میں زندہ وموجود ہو تو چاہئے کہ مہینہ کے روزے رکھے۔اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پورے کرلے۔اللہ تمھارے ساتھ آسانی کرنا چاہتاہے،اور تمھارے ساتھ سختی نہیں کرنا چاہتا،اور یہ حکم اس نے تمھیں اس لیے دیئے ہیں تاکہ تم کو جو راہِ راست اللہ نے دکھائی ہے اس نعمت پر اس کی بڑائی اور تعریف بیان کرو اور تاکہ تم اس کا احسان مانو۔’’
(القرآن، مفہوم )
روزہ عبادت ہے، حکمِ خداوندی کی تکمیل ہے۔آدمی بھوکا رہ کر بھوک کی اذیت اور تکلیف کو اچھی طرح محسوس کر لیتاہے اور اسے غریب ونادار اور افلاس زدہ انسانوں کی دشوار کُن اور صعوبتوں سے بھری ہوئی زندگی کو سمجھنے میں آسانی ہو تی ہے۔غور طلب یہ ہے کہ روزہ کے فوراََ بعد زکوٰۃ کا نمبر آجاتا ہے۔زکوٰۃ بھی اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے۔زکوٰۃ ہر آزادو خود کفیل مسلمان پر واجب ہے۔ یہ مال کا چالیسواں حصّہ ہوتا ہے اور شرائطِ مقررہ کے بموجب اس کی ادائیگی واجب ہے۔زکوٰۃ کے بارے میں یہ بھی ہے کہ جب بھی دی جائے تو بہ رضا و رغبت اور بہ خوشی دی جائے نہ کہ جبرو کراہت اور مجبوری کے سبب ۔! زکوٰۃ دے کر احسان نہیں جتانا چاہئے۔ قرآن پاک میں ہے کہ ۔؛ نرمی سے جواب دینا اور سائل کے اصرار سے در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے سائل پر کسی طرح کا احسان جتایا جائے، اور اللہ بے نیاز اور بُرد بار ہے۔’’
‘‘مسلمانو! خدا کی راہ میں ان عمدہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے تجارت وغیرہ میں کمائی ہوں اور جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے پیدا کی ہو ں ۔’’
‘‘اور جو لوگ خدا کی رضا کے لئے اپنی نیت ثابت رکھ کر اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو انچی سطح پر واقع ہے ۔اس پر اگر زور سے پانی برسا تو وہ دو چند پھل لایا اور اگر اس پر زور کا پانی نہ بھی برسا تو اس کی ہلکی پھواریں بھی کافی ہیں اور تم لوگ جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔’’
ادھر آپ بھوک کی اذیت سے واقف ہوئے اور ادھر حکم ہوا کہ:۔مسلمانو!زکوٰۃ دو۔گویا اسلام نے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے جذبہ کی تحریک کے لیے پہلے ایک ایسے عمل کا حکم دیا جسے ‘‘روزہ’’ کہتے ہیں۔یہاں زکوٰۃ سے متعلق چند باتوں کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔
اسلام نے افراد کی ملکیت اور دولت جمع کرنے کے حق کو تسلیم کیا ہے ، جائز طریقوں سے دولت پیدا کرنے کی ترغیب دی ہے لیکن اسی کے ساتھ ہی انھیں اس جمع کی ہوئی دولت کا امین قرار دیا ہے ۔یعنی ان کے پاس جو دولت ہے وہ قوم کی امانت ہے۔اور یہ کہ اپنے جائز تصرف کے بعد اس کی شکل قومی سرمایہ کی ہوگی۔یہ دولت وقتِ ضرورت قومی ضروریات پر صرف کی جا سکتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں بہت کم ایسا وقت آیا ہے جب قومی اصراف کے لئے ریاست کو اپنے قومی فنڈ (بیت المال) میں دولت مند لوگوں سے چندہ جمع کرانا پڑا ہو، حا لانکہ سماج میں دولت کی مساوی تقسیم یا تکمیلِ ضرورت کے لئے ایسا بار بار ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام نے افراد کی جمع کی ہوئی دولت پر زکوٰۃ کی شکل میں براہِ راست ٹیکس لگا کر اسے ایک جگہ جمع ہونے سے روک دیا ہے اور وراثت کی وسیع تقسیم کے ذریعے سے ا یک ہی جگہ املاک کے انجماد کو نا ممکن بنا دیا ہے ۔
زکوٰۃ دنیا کا واحد ٹیکس ہے جس میں ریاست کی مجلسِ منتظمہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا ۔سماج میں دولت کی مساوی تقسیم سے متعلق اسلام نے ا پنے اقتصادی نظام کے نظریہ کو ایسی عملی شکل دی ہے کہ ا سلا می تاریخ میں ایسا بھی دور آیا ہے جب پوری ریاست میں ایک فرد بھی ایسا نہیں ملا جو خود کفیل نہ ہو۔نادار ہو اور زکوٰۃ لینے کا مستحق ہو۔لوگ زکوٰۃ کو لیے لیے پھرتے اور پریشان ہوتے کہ کوئی حقدار اور مستحق مل جائے لیکن کوئی نہیں ملتا تھا۔مجبوراََ زکوٰۃ کی رقم ریاست کے بیت المال میں جمع کر دیتے ۔یہ اسلام کے اقتصادی نظام کی آفاقی خوبیاں ہیں۔
اسلام نے بھیک مانگنے اور کسی انسان کو کسی انسان کا محتاج رہنے کو معاشرہ کی بڑی لعنت قرار دیا ہے۔انسان صرف خدا کا محتاج ہے اور اُسی کے آگے ہاتھ پھیلا سکتا ہے۔اسلام نے قومی اقتصادیات کو معتدل و متوازن رکھنے کے لئے جہاں بیکار افراد کو محنت و مشقت کی طرف راغب کیا ،ان کی روزی روٹی کے لئے وسائل و ذرائع فراہم کیے۔ وہیں برسرِ روزگار طبقہ اور دولت مندوں کو تاکید بھی کی ہے کہ وہ اپنی دولت اور سرمایہ کو قومی امانت سمجھیں اور جائز ضروریات کے علاوہ جو کہ ان کے متعلقین اور ان کے لئے کافی ہوں، غیر شرعی طور پر
ایک حبّہ بھی اپنے تصرف میں نہ لائیں۔ یہی وجہ ہے کہ نظامِ اسلام کے دائرۂ اختیار میں جو ادوار گزرے ان میں مسلم قوم دنیا کی سب سے زیادہ خوش حال،متمدن اور مال دار قوم رہی ہے۔
زکوٰۃ کے ذریعہ اسلام نے مسلم معاشرت اور اس کی اقتصادیات کو مستحکم و منظم اور مربوط کر دیا ہے۔آج نہ صرف ہندوستان بلکہ کئی ممالک اپنے سماج کو غربت کی لعنتوں سے پاک رکھنے کے لیے ‘‘غریبی ہٹاؤــ’’ کے نعرے لگاتے لگاتے تھک ہار چکے ہیں لیکن ہنوز یہ نعرہ بے اثر ثابت رہا ہے۔روز نت نئی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں اور ان پر سختی کے ساتھ عمل کرنے کی تاکید کی جاتی ہے لیکن سماج سے ٖغربت و افلاس کو دور رکھنے کے لئے اسلام نے زکوٰۃ کے جو اصول وضع کئے ہیں اگر ان کو صحیح انداز سے برتا جائے تو مسلم معاشرہ کو ‘‘غریبی ہٹاؤ’’ کے نعرہ کی کبھی ضرورت پیش نہ آئے گی۔زکوٰۃ کے ذریعہ مسلم معاشرہ میں دولت کی نسبتاََ مساویانہ تقسیم کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کو اجتماعی طور پر جمع کیا جائے ۔ یعنی اگر ایک علاقہ میں دس افراد ایسے ہیں جو ہر سال زکوٰۃ نکالتے ہیں تو انھیں چاہئے کہ فرداََ فرداََ تقسیم کرنے کے بجائے ،دسوں آدمیوں کی زکوٰۃ کو اکٹھا جمع کر لیا جائے اور اس بھاری رقم کو کسی ایک یا ایسے چند آدمیوں کو دے دی جائے جو مسلم سماج کے پسماندہ اور پچھڑے ہوئے لوگ ہوں تاکہ وہ بر سرِ روز گار ہو جائیں نیز یہ کہ ممکن حد تک ان کے کارو بار کی نگرانی و سر پرستی بھی کی جائے تاکہ وہ ترقی کر سکیں اور آئندہ سال وہ خود بھی زکوٰۃ دینے کے قابل ہو سکیں۔اس طرح کچھ پچھڑے ہوئے لوگ زکوٰۃ کے سہارے ہر سال اوپر اٹھ کر ز کوٰ ۃ نکال سکیں گے اور زکوٰۃ کی رقم میں اضافہ ہوتا جائے گا۔پھر مسلم سماج کو غربت کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔اس مسلم سماج کو ‘‘غریبی ہٹاؤ’’ کے نعرے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
زکوٰۃ کے اوّل مستحق آپ کے رشتے دار،اقرباء، پڑوسی، محلّہ اور شہر کے غرباومساکین ہیں۔ پھر درجہ بہ درجہ اور لوگ ہیں۔ارشادِ نبوی ہے کہ ‘‘ زکوٰۃ مال کا میل ہے۔ ’’ تو چاہئے کہ مال کے میل سے دین کا علم حاصل کرنے والے مدارس کے طلباء کی دینی تعلیم کا انتظام کرنے کے بجائے صاحبِ ثروت اور صاحبِ خیر حضرات اپنے پاکیزہ اور اصل مال سے اُ ن کی مدد کریں۔ارشادِ نبوی ہے کہ ایسے حاجت مندوں کو تلاش کرو جو زکوٰۃ کے مستحق تو ہو تے ہیں لیکن غیرت اور حیا کی وجہ سے کسی سے کچھ طلب نہیں کر تے۔ زکوٰۃ دینے والے کو اگر یہ نہ بتایا جائے کہ یہ زکوٰۃ کی رقم ہے اور دل میں صرف نیت کر لی جائے تو بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔اور زکوٰۃ لینے والا شرمندگی سے بچ جائے گا۔ حدیثِ نبوی میں ہے کہ مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے،توجب اپنے بھائی کو مصیبت میں پاؤ تو ہر طرح اس کی مدد کرو۔جسمانی مدد بھی اور مالی مددبھی۔مسلمان اس عمارت کی طرح ہیں جس کی انیٹیں ایک دوسرے میں پیوست ہوتی ہیں۔مسلمان گویا ایک جسم کی طرح ہیں کہ اگر ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارے اعضاء اس تکلیف سے متاثر ہو تے ہیں۔
تقسیمِ زکوٰۃ کا یہ طریقہ اس کا صحیح مصرف اور مسلم سماج کی ترقی کا واحد ذریعہ ہے ۔آج ہمارے سماج میں ایسے لوگ آسانی سے مل جائیں گے جو محنت اور جدو جہد تو کرتے ہیں لیکن سرمایہ کی کمی اور محدود وسائل کے سبب ترقی نہیں کر پا رہے ہیں۔غریبی اور تنگدستی کی و جہ سے ان کی لڑکیوں کی شادیاں محال ہوتی ہیں لیکن زکوٰۃ کے ذریعہ انھیں اس لائق بنایا جا سکتا ہے کہ وہ خوش حال ہو کر اپنی لڑکیوں کی شادیاں کر سکیں اور اپنے بچوں کو بہتر طور پر تربیت دے کر انھیں اعلیٰ تعلیم دلا سکیں۔پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے یہی بچے ایک روزمسلم سماج کے استحکام و اصلاح اور ترقی کا ذریعہ ہوں گے۔ہمارے سماج میں ایسے خوش حال مسلم افراد کی بھی کمی نہیں ہے جو ہر سال زکوٰۃ کی کافی بڑیں رقم نکالتے ہیں لیکن اس رقم کو اتنے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں کہ اس سے کسی کو بھی فائدہ حاصل نہیں ہو پاتا او ر زکوٰۃ کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ لوگو! اپنے اصل مال ہی کی طرح اپنی ز کا ۃ کے مال کی بھی حفاظت کرو۔ایسے لوگوں سے بچو جو زکوٰۃ کو تجارت بنائے ہوئے پچاس اور ساٹھ فیصد کمیشن پر شہروں شہروں،قصبوں قصبوں، گلیوں گلیوں روداد اور رسید بغل میں دبائے گھو متے پھرتے ہیں اور غریبوں، یتیموں، مسکینوں ،ا ور نادار مسلمانوں کے حقوق کو سمیٹ کر لے جاتے ہیں۔پھر ‘‘ حیلۂ شرعی’’ کر کے مستحقین کے غصب شدہ ما ل سے اونچی اونچی عمارتیں بناتے ہیں۔اپنے خاندان کی پرورش کرتے ہیں۔ان سے ہو شیار رہو ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تم زکوٰۃ بھی ادا کرو اور وہ ادا بھی نہ ہو۔ اور مسلم سماج میں بھیک مانگنے والوں کی تعداد بڑھتی رہے اور بڑھتی ہی رہے ۔اس کا کبھی خاتمہ نہ ہو۔اس لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ‘‘بیت المال’’ کو رواج دو تاکہ مستحق کو اس کا وہ حق مل سکے جو اللہ اور اس کے محبوب رسولﷺ نے اسے د یا ہے۔ لوگو ! اللہ سے ڈرو اور اس کی قائم کردہ حدوں کو نہ تو ڑو۔ قرآن حکیم میں صاف اور صریح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ زکوٰۃ کے مستحق کون لوگ ہیں ۔ جہاں تک معاملہ عربی مدارس کا ہے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اصل ما ل سے ان اداروں کو چلائیں۔مدارس کے طلباء کی مدد کریں اور دین کا علم حاصل کرنے والوں کو اپنی خوشیوں اور دکھوں میں اس طرح شریک رکھیں کہ اُن کی عزت اور توقیر میں اضافہ ہو۔ دینی اور عصری علوم کی تحصیل میں ہر طرح ان کی مدد کریں،معاونت کریں۔یہ بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔اور یاد رکھو کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمھارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔ اس سے ڈرتے رہو۔ یقیناََ تم ہی فلاح پاؤ گے۔