اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل

بھارت کے اس تکثیری سماج کو کبھی دنیا کے لیئے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا یہاں کی جمہوریت قانون اور دستور کی دنیا مثالیں پیش کرتی تھی لیکن اب وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں نظر نہیں آرہی ہے اگر کسی کو نظر آبھی رہی ہے تو صرف اوراق کے دامن پر جو قوانین جو باتیں پڑھنے لکھنے تک اچھی لگتی ہیں اتنی ہی خوب صورت عملی میدان میں بھی نظر آنی چاہیئے ورنہ خواب تو سجانے سے دور ہوجائیں گے بلکہ جو پایا وہ بھی کھوتے رہیں گے اس وطن عزیز کو ہمارے آبا و اجداد نے جس خون جگر سے سینچا ہے وہ کوئی معمولی قربانیاں نہیں تھی لیکن آج کے اس نئے بھارت میں ان قربانیوں کا صلہ ظلم، عدم رواداری،مذہبی تفریق کی شکل میں ملک کے گوشے گوشے میں دستیاب ہے

شکر گزاری کا فلسفہ
شکر گزاری کا فلسفہ

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ معمولی پریشانیوں یا مسائل پر فوراً ناشکری کرنے لگتے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ بڑی نعمتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مثلاً کسی کو ذرا سا مالی نقصان ہو جائے تو وہ اللہ کے رزق کو بھول کر شکایت کرنے لگتا ہے، حالانکہ اس کے پاس صحت، گھر اور خاندان جیسی بےشمار نعمتیں موجود ہیں۔ اسی طرح، اگر موسم کسی کے حق میں نہ ہو، جیسے گرمی یا سردی کی شدت، تو لوگ فوراً شکایت کرنے لگتے ہیں، یہ بھول کر کہ اللہ نے ہمیں لباس، رہائش، اور زندگی کی دیگر سہولتوں سے نوازا ہے۔

تنہا سفر کی ممانعت
تنہا سفر کی ممانعت

حالات بدل چکے ہیں، نقل و حمل کے ذرائع ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ہو چکے ہیں، انسان کئی کئی دنوں کا سفر اب گھنٹوں میں کر لیتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں کر رہا ہے ، سہولتوں کی فراوانی چاروں طرف نظر اتی ہے لیکن اس کے باوجود قول نبی برحق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بجا ہے اپ کی دوراندیشانہ گفتگو اور اپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ و کلمات خدائے رحمان و رحیم کی منشا و مراد کے مطابق ہوتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

تازہ ترین پوسٹ

تجزیہ و تنقید

بابری مسجد؛ جہاں انصاف کو دفن کر دیا گیا

چھ دسمبر1992کی رات، بی بی سی نے اپنی نشریات روک کر اعلان کیاکہ اتر پردیش کے شہر فیض آباد سے...
Read More
تجزیہ و تنقید

بابری مسجد کی شہادت کے قصوروار !

بابری مسجد کی شہادت کے قصوروار ! از: شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز) ___________________ آج 6 دسمبر...
Read More
تجزیہ و تنقید

بابری مسجد کا انہدام اور رام مندر کی تعمیر: چند مضمرات

بابری مسجد کا انہدام اور رام مندر کی تعمیر: چند مضمرات از: محمد شہباز عالم مصباحی ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ آف...
Read More
دین و شریعت

دور حاضر میں مساجد کی حفاظت اور ہماری ذمہ داریاں

اسلام میں مساجد کو ہمیشہ ایک مقدس مقام اور روحانی مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ محض عبادت کا...
Read More
دین و شریعت

انسان کا سب سے بڑا دشمن خود اس کا نفس ہے!

انسانی نفس میں اللہ تعالیٰ نے رشد و ہدایت ،زہد و تقویٰ اور خیر و بھلائی بھی رکھا ہے اور...
Read More

جوانو! یہ صدائیں آ رہی ہیں آبشاروں سے

تحریر:محمد توقیر اختر 

ڈائریکٹر  ریڈینس پبلک اسکول،  دھرم پور، سمستی پور

اسلامی معاشرہ میں تجرد کی زندگی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چونکہ اسلام ایک صالح اور پاکیزہ معاشرہ کا قیام چاہتا ہے اورپاکیزگی نکاح کے ذریعے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ لہٰذا تمام نوجوانوں کو نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  

”تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں،  ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا“۔  (النور:۲۳) 

اس مضمون کی اور بھی متعدد آیات قرآن مجید میں وارد ہوئی ہیں۔  رسول اکرم ﷺ نے بھی متعدد احادیث میں نکاح کی تاکید فرمائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسل نے فرمایا: 

  • ٌ٭ ”نکاح میری سنت ہے جو میری سنت سے کتراتا ہے وہ میرا نہیں ہے“۔ 
  •  ٭ ”کنوارے کی نماز سے شادی کی نماز کئی درجہ فضیلت رکھتی ہے“۔ 
  • ٭ ”دنیا ایک متاع ہے جس کا بہترین سامان نیک عورت ہے“۔ 
  • ٭”حضرت انس ؓ کی حدیث سے ارشاد ہوا:  جو اللہ سے طاہر و مطہر (پاک و صاف) ہو کر ملنا چاہے،  اسے شادی کرنا چاہیئے“۔ 
  • ٭ ”عورتوں سے نکاح کرو،  وہ تمہاری آمدنی میں برکت کا ذریعہ ہونگی“۔ 
  • ٭”حضرت جابر ؓ کی روایت میں ہے کہ تین اشخاص کی اعانت اللہ اپنے ذمہ لیتا ہے۔  ایک غلام آزاد کرنے والا،  دوسرے بنجر زمین آباد کرنے والا اور تیسرے وہ جو خدا کے بھروسے پر شادی کرتا ہے“۔ 

رسول اکرم ﷺ نے ایک بار نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:  ”نوجوانو !  تم میں سے جو شخص نکاح کی ذمہ داریوں کو ادا کر سکتا ہو،  اسے شادی کر لینی چاہیے  اس سے نگاہ قابو میں آجاتی ہے اور آدمی پاک دامن ہو جاتا ہے۔  ہاں، جو شخص نکاح کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزہ رکھے، کیونکہ روزہ اس کی شہوانی جذبات کو کم کردے گا“۔ (بخاری و مسلم) 

قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت اور احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام جو معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے اس میں رہبانیت اور جنسی انارکی کی کوئی گنجائش نہیں۔  اس لئے اسلام نے زنا کے خلاف جتنا سخت محاذ قائم کیا ہے،  نکاح کو اتنا ہی آسان بنادیا ہے۔ وہ معاشرہ میں کسی نوجوانوں کو مجرد دیکھنا پسند نہیں کرتا یہاں تک کہ لونڈیوں اور بیواؤں کی شادی کی ترغیب بھی دیتا ہے تاکہ مسلم معاشرہ و پاکیزہ ترین اور شریف ترین معاشرہ کے سانچے میں ڈھل جائے۔  لیکن افسوس! آج کہیں مال و دولت نے تو کہیں حسن وجمال اور ذات برادری نے مسلم معاشرہ میں نکاح کو مشکل سے مشکل تریں بنا دیا ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ”جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کے نکاح کا پیغام پہنچے جس کے دین و اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے شادی کردو۔ اگر تم ایسا نہ کروگے تو دنیا میں بڑا فتنہ برپا ہو گا‘۔  (ترمذی) 

اس فتنہ کی ایک بڑی وجہ ہمارے قائم کردہ معیارات ہیں۔  معیار  ایک ایسا جھوٹاپیمانہ ہے جس نے عام مسلمان گھرانوں کو آزمائش میں بلکہ فتنہ میں ڈال دیا ہے۔  یہ ایک ایسا مکڑی کا جالا ہے جس میں مسلم معاشرہ پوری طرح جکڑ چکا ہے اور جتنا ہی ہاتھ پیر ہلاتا ہے اتنا ہی اسی میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ 

ذرا سوچئے!      آپ سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ معیار کہتے کسے ہیں؟  تو آپ کا سیدھا سا جواب ہوگا کہ  ’کفو‘ ۔ 

بہت سے لوگ کفو کا مفہوم غلط سمجھتے ہیں،  حسب و نسب اور ہڈی کی تلاش کے سبب اس سلسلے میں اتنی شدت برتتے ہیں کہ ان کی بہنوں اور لڑکیوں کی زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے حالانکہ اللہ تبارک تعالیٰ نے اس کی جڑ ہی کاٹ دی ہے یہ فرما کر کہ:  

”لو گو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔  درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے“۔  (الحجرات) 

آج جب ہم معاشرہ پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ نائی، دھوبی، لوہار، سبزی فروش، بڑھی وغیرہ  یہ ساری ذاتیں مسلمانوں میں بھی مسئلہ بنی ہوئی ہیں اور اونچ نیچ کی بنیاد پر غیر کفو میں شادی بیاہ سے پرہیز ایک ایسا فتنہ ہے جس میں تقریبا سارے ہی مسلمان  مبتلا ہیں حالانکہ ہر پڑھے لکھے جانتے ہیں کہ اسلام میں اس تقسیم کی کوئی گنجائش نہیں۔  قرآن پاک تو صاف صاف کہتا ہے کہ فضیلت خاندان اور نسب کو نہیں عمل اور تقویٰ کو ہے۔ آپ پھر بھی خاندان اور شجرہ ٹٹولتے ہیں، ہڈی دیکھتے ہیں اور اپنے مسلمان کہتے نہیں شرماتے حالانکہ آپ کا یہ طرز عمل اسلام کی پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے اور آپ کے ملی  وجود کے لئے اہم ترین خطرہ!  

اللہ تعالیٰ نے تو آپ کو  ’خیر امت‘  بنا کر پیدا کیا تھا اور قیامت تک کے لئے سارے انسانوں کو برابر کر دیا تھا۔ کہاں ہے وہ ہدایت جس میں قریش کو غیر قریش اور آل رسول ﷺ کو غیر اہل بیت سے شادی سے منع کیا گیا ہو۔ اسوہٗ رسول ﷺ دیکھ لیجیے۔  امہات المو منین کس شجرے کی بنیاد پر رسولﷺ کے گھرانے میں داخل ہوئی تھیں؟  حضور اکرم ﷺ نے خود اپنے غلام کی شادی قریش جیسے اعلی ترین خاندان کی حسین ترین اپنی پھوپھی زاد بہن سے کر کے وہ ساری رسمیں توڑدی تھیں جن کو ہم اتنی اہمیت دیتے چلے آرہے ہیں۔  آپ کا یہ عمل بہت سے غیر مسلموں کے لئے ہدایت حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ 

معیار ہر گز یہ نہیں ہے کہ جب تک ہڈی نہ ملے اور پھر کوئی بڑا افسر یا عہدیدار نہ ملے جس کی تنخواہ بھاری بھرکم ہو تبھی آپ اپنی لڑکی کی شادی کی بابت سوچیں ورنہ اسے بٹھائے رکھیں۔ یاد رکھئے!  بلوغ کے بعد دو چار سال سے زیادہ لڑکی کو”معیار“ کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھانا اسلام کے احکام کی ہی صریح خلاف ورزی نہیں بلکہ فطرت کے بنائے ہوئے قانون سے روگردانی ہے اور اس کی سزا آپ کو جتنی بھی بھگتنی پڑے کم ہے۔ ہمارے بنائے ہوئے رسوم و رواج سے اسلام کو بہت بڑا نقصان پہنچ رہا ہے۔ آخر ایک غیر مسلم کیوں اسلام کرے جب کہ مسلم معاشرے کا جز بننے کے بعد پھر اسے اسی چھوت چھات یا ذات پات سے واسطہ پڑے گا جو خود اس کے مذہب کا جز ہے اگر آپ اپنے حالیہ معیار پر اصرار کرتے ہیں تو بتائیے کہ نو مسلموں کو آپ کن ذاتوں میں بانٹیں گے؟ کوئی راجپوت ہے،  کوئی برہمن ہے، کوئی چمار ہے، کوئی تیلی ہے، کوئی موچی ہے!  اگر آپ نے ان کے ساتھ تنگ نظری برتی اور اسی طرح ذات اور برادری میں جکڑ کر رکھنے کی کوشش کی تو آپ کا یہ طرز عمل دوسرے ہی دن اسے واپس بھاگ جانے پر مجبور کردیگا۔ آپ کے اندر کون سی خصوصیت یا کون سا امتیاز باقی رہ گیا ہے کہ وہ اپنے معاشرے سے کٹ کر آپ کے ساتھ آملیں اور پھر اپنی اسی طرح توہین کرائیں جیسی خود انکے اپنے معاشرے میں ہو رہی ہے۔ اگر اسلام بھی ذات پات اور برادری کا نظام ہے تو اس سے بہتر یہی ہے کہ وہ غیر مسلم بنے رہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری انہی جاہلانہ رسوم اور ناعاقبت اندیشانہ رواجوں نے غیر مسلموں کے لئے اسلام کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔  اسلام کی نظر میں سارے مسلمان برابر ہی نہیں بھائی بھائی ہیں۔ کفو کا یہ مفہوم ہر گز نہیں کہ سیدوں کی لڑکی سیدوں میں ہی جائے کسی اور جگہ اس شادی کرنا حرام ہے۔   

نبی ﷺ نے فرمایا:  ”عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر نکاح کیا جاتا ہے:

  •   ۱۔ مال و دولت   
  • ۲۔  حسن و جمال    
  • ۳۔  حسب و نسب
  •     ۴۔  دین۔  رسولﷺ نے فرمایا کہ تم دین دار عورت کو حاصل کرو،  یہ بات گرہ میں باندھ لو“۔ 

عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کے سلسلہ میں لوگوں کے رجحانات مختلف ہوتے ہیں۔ 

  • ۱۔ جو لوگ مال و دولت کے پجاری اور لالچی ہیں وہ مالدار عورتوں سے نکاح کر کے اپنی معاشی پوزیشن کو زیادہ مضبوط اور مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات بھی ان کے پیش نظر ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اپنی ماں کی ساری جائیداد کی وارث قرار پائے گی۔ کوئی اور خوبی اس عورت میں صاحب جائیداد کے علاوہ پائی جاتی ہو یا نہ پائی جاتی ہو اس سے ان کو دلچسپی نہیں ہوتی۔ 
  • ۲۔ انسانی فطرت کا ذوق  جمال پسند ہے۔ اس کے ساتھ اکثر افراد کے مزاج میں حیوانی جبلت کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے۔ وہ بیوی کے انتخاب میں اس کے شباب، تناسب اعضاء اور خوبصورتی کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اس عورت سے نکاح کرنا چاہتے ہیں جو حسن و جمال کا پیکر ہو، چاہے وہ اخلاقی اور دینی حیثیت سے قابل رشک ہو یا نہ ہو اور اس کا خاندان اچھی شہرت کا حامل ہو یا نہ ہو۔
  • ۳۔ بعض لوگ عزت و جاہ کے حصول کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ وہ اپنی جاہ پسندی کی تسکین کے لئے، معاشرے میں نمایاں ہونے کے لئے ایسی لڑکی سے نکاح کرتے ہیں جس کی فیملی معاشرے میں احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہو، آپ اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ آج معاشرے میں کسے احترام کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ 
  •  ۴۔ لیکن ایک مہذب اور شائستہ آدمی عورت سے نکاح کرنے میں سب سے زیادہ جس صفت کو تلاش کرتا ہے وہ ہے اس کی دینداری۔ وہ اس عورت سے نکاح کرتا ہے جو دیندار ہو خواہ پہلی تین صفتوں میں کوئی صفت اس میں پائی جاتی ہو یا نہ ہو پائی جاتی ہو۔ آپ کا یہ منشا نہیں ہے کہ دوسرے اوصاف۔   حسب و نسب، مال و دولت اور حسن و جمال۔ کو ملحوظ رکھنا گناہ ہے بلکہ آپ ﷺ نے تو بڑی تاکید اور شفقت کے ساتھ اپنے امتیوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ اگر تم دنیا میں کامیاب مسلمان کی طرح ازدواجی زندگی سے مسرت حاصل کرنا چاہتا ہو تو نکاح کے سلسلہ میں تمہیں اس عورت کو اہمیت دینی ہوگی جو دیندار ہو، پاکدامن ہو، سنجیدہ مزاج ہو، نیک سیرت ہو اور دین کے کاموں میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے والی ہو۔ 

  کسی باشعور مسلمان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی ایسی حسین اور خوبصورت عورت سے شادی کرے جو دین اور اخلاق سے کوسوں دور ہو۔ اور نہ کوئی ہوش مند آدمی یہ گوارہ کر سکتا ہے کہ عورت کے صرف مالدار ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ شادی کر لے، اور یہ نہ دیکھے کہ اس کی سیرت کیسی ہے۔ حسن اگر تقویٰ کی رسی سے بندھا ہوا نہ ہو تو کم از کم تین چار خاندانوں کے گھروں کے سکون کو تباہ کر سکتا ہے۔ مال اور دولت کی گھوڑی کو اگر دین کی لگام سے قابو میں نہ رکھا جائے تو یہ بہت سے کھیتوں کو اجاڑ کر رکھ دے۔ 

اب ذرا ایک بات اور سن لیجیے! مسلمان میں جن بے جا رسوم نے قدم جما لئے ہیں ان میں سے ایک جہیز یا تلک کی لعنت بھی ہے۔ جہیز کی برائیاں کرتے ہماری زبان نہیں تھکتی لیکن جب وقت آتا ہے تو ہم خود ہی جہیز لینے پر اڑ جا تے ہیں، جہیز بھی تھوڑا قبول نہیں، بنگلہ، گاڑی، ٹی وی، فریز، فرنیچر، برتن وغیرہ کی فرمائش ہوتی ہے اور نقد و کیش الگ سے۔

بہت سے عیار و مکار لوگ تو اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسؤہ مبارک کی مثال پیش کر نے سے بھی نہیں چوکتے۔ کہتے ہیں کہ آخر نبی ﷺ نے بھی تو حضرت فاطمہ ؓ کو جہیز دیا تھا اور حضرت علیؓ نے اسے قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی تھی اگر رسولﷺ دے سکتے ہیں اور ان کے قریب ترین صحابیؓ اسے قبول کر سکتے ہیں تو ہم تو ان کے گنہگار امتی ہیں، ہم کو لینے میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ 

ہاں! جہیز کے حامیوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن جہیز کے حامیوں کی عقلوں پر ضرور اعتراض کیا جا سکتا ہے  جو اتنے بے حیا ہیں کہ جس نبیﷺ کو ان تمام جاہلی رسوم کو ختم کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا اپنے اس عمل غلط کو اس نبی سے منسوب کرتے ہیں!!

حضرت محمد ﷺ نے حضرت فاطمہ زہرہ ؓ کو جو کچھ بھی دیا تھا اس کو بنیاد بنا کر جہیز کو وجہ جواز فراہم کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ آپ ﷺ نے جو کچھ بھی دیا وہ ضرورت کا چند سامان تھا نہ کہ فرمائش کی تکمیل،  پھراس حقیقت کو بھی یہ نادان فراموش کر دیتے ہیں کہاگر محمد ﷺ ایک طرف اپنی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کے وکیل تھے تو دوسری طرف حضرت علیؓ کے کفیل بھی تھے۔ چچا ابو طالب اور چچی فاطمہ بنت اسود کے بعد حضرت علیؓ کی تمام تر ذمہ داری آپ ہی پر تھی اس صورت حال میں آپ نے جو کچھ بھی دیا اپنی زیر کفالت حضرت علیؓ کو نئی زندگی شروع کرنے کے لئے بنیادی ضرورت کا سامان دیا نہ کہ مروجہ جہیز۔

پھر اس شرارت کو کیا نام دیا جائے کہ جب لینے کی باری تھی تو نبی ﷺ کی مثال پیش کردیا اور دینے کی باری یعنی مہر کی ادائیگی کی باری آئی تو آنا کانی کرنے لگے۔ مہر کے معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہو گئے یا تو اتنی کم مہر طے کرتے ہیں کہ لڑکی بے وقعت ہو کر رہ جاتی ہے یا اتنی بھاری بھرکم مہر طے کرتے ہیں کہ ادائیگی بس سے باہر ہوتی ہے۔ بہر حال کم ہو یا زیادہ شوہر نامدار کو بھولے بھٹکے بھی یہ خیال نہیں آتا کہ اس کی ادائیگی کرنی ہے اور پوری عمر اس امید پر گذار دیتے ہیں کہ آخر میں بیوی سے معاف کرالیں گے،گویا ادا کرنے کا ارادہ ہی نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں ذیل کی حدیث رونگٹے کھڑے کردینے کے لئے کافی ہے:  

”جس نے اس طرح شادی کی کہ اس کا مہر ادا کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا تو ایسا مرد  زانی ہے“ 
       اب آپ میرے چند سوالات کے جواب دیجئے: 

  • ۱۔ کیا آپ نے ”مہر“ ادا کردیا ہے؟ جو رسول ﷺ کی سنت ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ اس ادا کرنے میں آپ کتنے نیک نیت ہیں؟ 
  • ۲۔ لڑکی کے باپ یا بھائی کو آپ کی ”خوشی“ کے لئے کتنا مقروض ہونا پڑا ہے؟  اگر اس نے یہ رقم کسی سے سود پر ادھار لی ہے یا گھر کے زیور اور جائیداد گروی رکھ کر پیسے جمع کئے ہیں تو اس کا گناہ آپ کے سر ہوگا یا آپ کی بیوی کے باپ اور بھائی پر؟ 
  • ۳۔ کیا واقعی نبی ﷺ نے اسی طرح جہیز لیا اور دیا تھا جیسا آج ہم مسلمانوں میں پاتے ہیں؟ 

چھوٹا موٹا جہیز تو آنکھوں کو بھاتا ہی نہیں ارے محلے والے کیا کہیں گے۔ رشتہ داروں میں تو ناک ہی کٹ جائے گی، میرے فلاں رشتہ دار کو تو اتنا جہیز ملا تھا کہ اٹھا کر گھر تک لانے کے لئے شہر میں مزدور نہیں مل رہے تھے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس نے تقریبا ہر جگہ مسلم معاشرے کو گھن لگا دیا۔ لڑکی پیدا ہوتے ہی باپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ وہ اپنی قسمت کو کوستا ہوا اسی دن سے جہیز جوڑنا شروع کر دیتا ہے، اگر دو چار لڑکیاں ہو گئیں تو خود کشی کے سونچنے لگتا ہے اس طرح آج بھی لڑکیاں مسلم معاشرہ کا بوجھ بن کر رہ گئی ہیں جس طرح دور جاہلیت میں بوجھ تھیں اور زندہ در گور کر دی جاتی تھیں لیکن آج———-  آج تو صورت حال اور بھی سنگین ہے، وہ تو پھر بھی کسی حد تک رحم کرتے تھے کہ ایک ہی بار میں قصہ پاک کر دیتے تھے لیکن آج اسے سسک سسک کر مرنے کے لئے چھوڑ دیا جا تا ہے۔ 

اسی لئے میں خصوصا نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ آگے آئیں اور جہیز کے جائز اور ناجائز ہونے کے چکر میں نہ پڑیں بلکہ آج یہ عہد کریں کہ ہم نہ جہیز لینگے اور نہ دینگے۔  جہیز نہ لیں، ہر گز نہ لیں،  میں تو کہتا ہوں کہ اگر لڑکی والے کی طرف سے اصرار ہو تب بھی واپس کردیں۔ 

نوجوانو!  آپ خود مثال بن کر دکھائیں،  میرے مخاطب آپ ہیں ہر وہ فرد جو عقل رکھتا ہے اور ہوش و حواس میں اسلام کو ماننے کا دعویٰ کرتا ہے۔ آپ خواہ لڑکے کے باپ یا ولی کی حیثیت رکھتے ہوں یا خود دولہا میاں ہوں۔ 

جہیز ہر گز مت دیں۔ آپ اپنے ہونے والے داماد اور اس کے گھر والوں سے صاف صاف کہہ دیں کہ جہیز سے شادی کرنی ہو تو کوئی اور گھر ڈھونڈ لیں۔ ہم تو ’موتی‘ جیسی لڑکی دینگے بس۔  

اگر نوجوان یہ طے کر لیں تو انشا ء اللہ ہمارے معاشرے سے یہ لعنت آہستہ آہستہ دور ہو سکتی ہے کیوں کہ اس صورت حال کی وجہ سے نکاح جیسا اہم دینی فریضہ ایک ٹیڑھی کھیر بن کر رہ گیا ہے۔  یہ تمام متذکرہ بالا مسائل نوجوانوں کو تجرد کی زندگی گذارنے کا جواز فراہم کرتے ہیں،  لہذٰا ان بوجھل زنجیروں اور طوق سے مسلم سماج کو آزاد کرائیں۔ 

جوانو !  یہ  صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے  

چٹانیں  چور ہو جائیں  جو  ہو  عزم سفر  پیدا    

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: