۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

بیماری کاعلاج کیجئے،بیمار کانہیں

مفتی ناصرالدین مظاہری

_____________

‘’بعلبک” (لبنان)کی ایک مسجد میں تقریرکررہا تھا ،اہل مجلس بڑے مردہ دل تھے ،کسی پرمیری تقریرکاکوئی اثرنہیں ہورہا تھا، میں نے اپنی تقریرکاموضوع اللہ تعالیٰ کے اُس فرمان کے متعلق شروع کیاہواتھا کہ ہم انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ،میں اپنی ترنگ میں وعظ کئے جارہاتھا اور سامعین کی بے حسی پر افسوس بھی ہورہا تھا پھر میں نے ایک شعرپڑھاجس کامطلب یہ تھاکہ میرادوست میرے زیادہ قریب ہے جب کہ میں اس سے دُور ہوں اورکس قدربدنصیب ہوں کہ دوست پہلومیں ہے اورمیں اس سے جدا ہوں۔
جس وقت میں یہ شعر پیش کررہا تھا ایک مردقلندروہاں سے گزرا ،اُس نے جب یہ شعرسناتواُس پروجدطاری ہوگیا، بے اختیارنعرے لگانے لگا، اس کی مستی اوربے خودی کودیکھ کرحاضرین مجلس بھی کیف وکیفیت میں آگئے اوروہ بھی نعرے لگانے لگے۔میں نے بے اختیاراللہ تعالیٰ سے عرض کیاکہ اے اللہ! اہل دل اگرچہ ُدوررہتے ہوئے بھی دل کے قریب رہتے ہیں مگرعقل کے اندھے دل کے نزدیک ہوکربھی دُوررہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لوگ خداکوتلاش کرتے ہیں کبھی جنگلوں میں ،کبھی بیابانوں میں،کبھی خشکی میں، کبھی تری میں،کبھی پہاڑوں میں کبھی ریگستانوں میں مگرانھیں یہ پتہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تودل کے اندرہے ،اُسے جب بھی دیکھناہوذراسی گردن خم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہروقت دیکھاجاسکتاہے، اسے ہروقت محسوس کیاجاسکتا ہے ،اسے ہروقت سناجاسکتاہے ۔وہ تووہ ہے اس جیساکوئی نہیں ،نہ ذات میں نہ صفات میں ،نہ یہاں نہ وہاں ،کہیں نہیں کبھی نہیں۔قل ھواللّٰہ احداللّٰہ الصمد،لم یلدولم یولد ولم یکن لہ کفواً اَحد۔ (شیخ سعدی شیرازی کے واقعہ سے مستفاد)
جلسوں ،تقریروں،مواعظ وبیانات اورمجالس ومحافل کادور دورہ ہے ،جگہ جگہ جلسے ہورہے ہیں کبھی کبھی توایک ہی بستی میں دودوجگہ اسٹیج سجتے ہیں،مقررین اپنی دھواں دھار تقریروں سے صرف فضامیں صوتی آلودگی بکھیررہے ہیں کیونکہ ہم جن کوسنانا چاہتے ہیں ،راہ راست پر لاناچاہتے ہیں ،وہ بالکل آمادہ اورتیار نہیں ہیں ،جو کچھ ہم سناناچاہتے ہیں ہمارا خوداس پرعمل نہیں ہے،ہم لمبے لمبے مواعظ ارشادفرمادیں ،لمبی چوڑی لچھے دارتقریریںکردیں،دھواں دھاربھاشن دیدیں،چیخ وپکار کرکے مجمع کوحیران کردیں ، تحقیقات کے انبارلگادیں،لوگوں کے دلوں پرہماری گفتگواُس وقت تک بالکل اثراندازنہیں ہوسکتی جب تک ہم خودان باتوں پرعمل پیرانہ ہوجائیں۔ہماری تقریریں ہمارے گلے سے نہیں اترتی ہیں اورہم اصلاح کاٹھیکہ اپنے نام کراناچاہتے ہیں،ہمارے اعمال خلافِ سنت وشریعت ہیں،ہمار اخلاق اورہماری عادات دینی تعلیمات سے متصادم ہیں،ہم تقریروں کے چکرمیں نمازوں کے اوقات میں تبدیلیاں کردیتے ہیں، خلاف شریعت امورکا ارتکاب ہم کررہے ہیں،تقریروں کاریٹ ہم مقررکرتے ہیں، شاندار گاڑیاں،سہولتیں اورشرطیں ہم لگاتے ہیں،مسلمانوں کی معاشی حالت ہمارے پیش نظرنہیں ہوتی،ان کی دینی پستی کااحساس ہمیں نہیں ہوتاہے ،مدرسہ ہویا مسجد، گاؤں ہویادہات ہرجگہ ہمارا نفس اورنفسانیت ہمارے دائیں بائیں آگے پیچھے گردش کرتی رہتی ہے،رات دیرتک تقریرکرکے فجرکی نمازیں قضاکرانے کاذریعہ ہم بنتے ہیں اورپھربھی ہمیں خوش فہمی ہے کہ ہم دین کاکام کررہے ہیں۔ہم یہ نہیں کہتے کہ خرچہ اورکرایہ نہ لیں ہاں ہم یہ ضرورکہتے ہیں کہ ٹھگنے کاکام تونہ کریں۔اگربستی غریب ہے ،نادارہے ،جہالت کی دلدل میں دھنسی اورشیطانی جال میں پھنسی ہوئی ہے توہم خوداپنے خرچے اوراپنے دینی جذبے کامظاہرہ کرکے وہاں دینی پروگرام کیوں نہیں کرتے ؟
مقررین کی مثال اطباء کی سی ہے انھیں وہی دوا اور وہی علاج کرناچاہئے جس کی ضرورت ہے ، کوئی ڈاکٹر نزلہ کی جگہ بخارکی دوا دیدے، کوئی دکان دارچینی کی جگہ نمک دیدے، کوئی استاذ سبق کی جگہ تقریرکردے،کوئی امام نمازکی جگہ فضائل اعمال پڑھ دے توآپ ہی بتائیں کیاآپ کاپارہ گرم نہ ہوگا؟ارتدادکی لہریں اورالحاد کی آندھیاں چل رہی ہیں اورہم تاریخ اسلام بیان کررہے ہیں،شریعت میں تبدیلیاں ہورہی ہیں اورہم فضائل اعمال پرتقریرکررہے ہیں،کفراپنے ترکش کے سارے تیراپنی کمان سے پھینک چکاہے اورہم معاشرہ کی اصلاح پرگفتگوکررہے ہیں۔بے شک اِن موضوعات کی ہردورمیں ضرورت رہی ہے لیکن فی زماننا ایمان پہلے ہے ، عقائدپہلے ہیں،دعوت پہلے ہے،تحفظ پہلے ہے،تشخص پہلے ہے ،پیاس کے وقت کھانا،بھوک کے وقت پانی ،گرمی کے وقت آگ اوربارش کے وقت کھلی فضاکے فضائل بیان مت کیجئے،ضرورتیں پوری کیجئے ،پہلے اپنا موضوع طے کیجئے ،اپنی قوم کے مزاج اورضرورت کوپرکھئے پھرخوب خوب مطالعہ کیجئے جب اندرسے آٖپ بھرجائیں پھرعوام کے درمیان پہنچئے ۔جوکچھ بھی کہئے کہنے سے پہلے اپنے گریبان میں ضرورجھانک لیجئے کہ ہمارا عمل اس کے خلاف تونہیں ہے؟

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: