✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
_________________
سلیقہ کا مطلب کسی بھی کام کو نظم وترتیب سے انجام دینا ہے، اگر یہ سلیقہ مجموعی طورپر کسی معاشرہ میں پایا جائے تو اسے عربی میں ’’الذوق الاجتماعی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، اسے قرینہ، خوش اسلوبی اور ذوق کے متبادل کے طورپر بھی استعمال کیا جاتا ہے، میر تقی میر کا مشہور شعر ہے۔
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کہنے کو ہنر چاہئے
ڈاکٹر کلیم عاجز بھی یاد آگئے۔
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کرنے کا سلیقہ چاہئے
وسیم بریلوی کی بھی سن لیجیے
کون سی بات کب کہاں کیسے کہی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
یہ سلیقہ مندی نظام وانتظام کی خوبی سے پیدا ہوتی ہے، یہ خوبی پوری دنیا کو اسلام کی دَین ہے کہ جو کام کیا جائے سلیقہ سے کیا جائے، خواہ کام چھوٹا ہو یابڑا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سارے کاموں میں اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اسے سلیقہ سے کیا جائے ’’ان اﷲ تعالیٰ یحب اذا عمل احدکم ان ینقیہ‘‘ (شعب الایمان، باب فی الامانات) حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے معارف القرآن میں سورۂ صافات کی ابتدائی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
’’اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر کام میں نظم وضبط اور ترتیب وسلیقہ کا لحاظ رکھنا دین میں مطلوب اور اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہو یا اس کے احکام کی تعمیل یہ دونوں مقصد اس طرح بھی حاصل ہوسکتے تھے کہ فرشتے صف باندھنے کے بجائے ایک غیرمنظم بھیڑ کی شکل میں جمع ہوجایا کریں، لیکن اس بد نظمی کے بجائے بتا دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا بہت پسند ہے‘‘(۷؍۴۱۷)
یہی وجہ ہے کہ عبادات، معاملات اور معاشرت تینوں میں سلیقہ مندی پر شریعت نے زور دیا، نماز میں صفوں کی ترتیب، درمیان میں خلا نہ چھوڑنا یہ بھی سلیقہ مندی کا مظہر ہے، جانور کو ذبح کرتے وقت کم سے کم تکلیف پہونچانا اور پورا سر نہ اتارنا، صرف مطلوبہ رگوں کو کاٹنے کا حکم سلیقہ سے ذبح کرنے کی غرض سے ہی دیا گیا ہے۔
مسلمانوں کے یہاں اس پر توجہ کم دی جارہی ہے جس کی وجہ سے سلیقہ مندی یاتو ختم ہوتی جارہی ہے یاکم ہورہی ہے، حالاںکہ ہمارے یہاں تو دسترخوان بچھانے اور اٹھانے تک میں سلیقہ کی رعایت سکھائی گئی ہے، دسترخوان پر گرے ہوئے اجناس کو اٹھاکر کھالینا، اپنے سامنے سے کھانا، چھوٹے چھوٹے لقمہ اٹھانا، خوب چبا چبا کر کھانا، دسترخوان پر اس کی رعایت کرنا کہ میرا بھائی مجھ سے زیادہ کھائے، مشروبات کے استعمال میں چسکی کی آواز نہ آنا، کھانا اٹھ جانے کے بعد دسترخوان سے اٹھنا، یہ سب سلیقہ مندی کے ذیل میں ہی آتے ہیں، حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے اپنے والد مفتی محمد شفیع صاحبؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک بار وہ میاں اصغر حسین محدث کے مہمان ہوئے، کھانا ختم ہونے کے بعد حضرت مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ دسترخوان جھاڑدوں؟ فرمایا کہ تمہیں دسترخوان اٹھانا آتا بھی ہے؟ فرمایا : اس میں کیا خاص بات ہے؟ارشاد ہوا: تمہیں نہیں آتا، حضرت نے فرمایا: سکھا دیجئے، میاں اصغر حسین صاحب اٹھے، ایک پلیٹ لیا، دسترخوان پر روٹی کے بُرادے کو ایک طرف رکھا، گوشت کے چھیچھڑے کو دوسری طرف رکھا، روٹی کے بڑے ٹکڑے جو بچ گیے تھے اسے ایک طرف رکھا، ہڈی کو پلیٹ کے ایک کونے میں رکھا اورباہر نکل پڑے، ایک جگہ بُرادے کو، دوسری جگہ روٹی کے ٹکڑے کو تیسری جگہ ہڈی اور چوتھی جگہ روٹی کے پس ماندہ ٹکڑے کو الگ الگ رکھا، واپس آکر دستر خوان اٹھا لیا، دریافت کرنے پر فرمایا کہ روٹی کے ذرات ہم نے چیونٹی کے سوراخ پر، ہڈی کتوں کے آنے کی جگہ، روٹی کے ٹکڑے پرندوں کی جگہ اور چھیچھڑے بلی کے آنے کی جگہ پر ڈال دیا ہے ، یہ باقیات سب کی خوراک کے کام آئیں گے ، ہڈی تو جناتوں کی بھی خوراک بنا کرتی ہے، اگر ایسے ہی دستر خوان جھاڑ دیتا تو باقیات ضائع ہوجاتے، سلیقہ کی وجہ سے کتنی مخلوقات کے کھانے کا نظم ہو گیا۔
ہمارے استاذ حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی ؒ کے کمرہ میں بعد نماز عصر چائے وائے کی مجلس لگتی تھی، حضرت خود ہی دسترخوان پر غذائی اشیاء لگاتے اور متوجہ کرتے کہ اس کو یہاں رکھنا چاہیے، چائے اس طرح پینی چاہیے کہ چُسکی کی آواز نہ نکلے، حضرت نستعلیق قسم کے آدمی تھے، ان کے شاگردوں میں جو جس قدر ان سے قریب رہا وہ اسی قدر سلیقہ مند بن گیا، حضرت کی سلیقہ مندی کا لازمی جزیہ بھی تھا کہ وہ آنے والے سے پورے کپڑے،کرتا، پائجامہ ٹوپی اور شیروانی کے ساتھ ملا کرتے ، فرماتے کہ مہمان کے استقبال اور اکرام کا یہ سلیقہ ہے، گنجی وغیرہ میں مہمانوں سے ملاقات کرنا ملنے والے کی بد سلیقگی کو بتاتا ہے اور مہمان کو یہ موجب ہتک محسوس ہوتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ سلیقہ مندی سے سامنے والا متاثر ہوتا ہے اورکام جلد ہونے کی توقع رہتی ہے ، گھر کو سجانے کے لیے گلدستے اور پھول ہی ضروری نہیں ہیں ، سلیقہ مند عورتیں کھانا پکانے کے برتن اور چائے کی پیالی اور کیتلی سے بھی گھر کو سجا لیتی ہیں اور’’ناک میں فقط نیم کا ٹکڑا‘‘ بھی حسن کو دو بالاکر سکتاہے ، لیکن اگر سلیقہ نہ ہو تو کام میں دشواری پیدا ہوتی ہے اور بسا اوقات کام رک جاتا ہے ، مثلاً آپ کو کسی دفتر سے کوئی کاغذ نکلوانا ہے، آپ نے مطلوبہ کاغذ فراہم نہیں کیا، درخواست کی ترتیب الٹ کر نیچے لگا دیا، درخواست پر دستخط ہی نہیں کیا، یوں ہی چھوڑ دیا، سادہ کاغذ کا استعمال کر لیا ، دستخط کی جگہ مہر لگا دیا، دستخط اور مہر لگا ہوا لیٹر پیڈ سادہ کسی کے حوالہ کر دیا، یہ سارے کام بد سلیقگی کے ہیں، اگر آپ نے دستخط کے بجائے نام کی مہر لگی ہوئی درخواست کسی کے حوالہ کر دیا تو ایساممکن ہے کہ وہ سادے لیٹر پیڈ پر آپ کی مہر لگا کر آپ کا استعفیٰ نامہ کمیٹی کے سامنے پیش کر دے اور آپ منہہ دیکھتے رہ جائیں، چوں کہ لیٹر ہیڈ ، مہر سب اصلی ہیں، ایسے میں آپ اپنے استعفیٰ کا انکار نہیں کر سکتے ، اسی طرح اردو ، ہندی میں پِن لگانے کے قاعدے الگ الگ ہیں، ہندی، انگریزی کے صفحات بائیں کھلتے ہیں، اس لیے پِن بائیں میں لگایا جاتا ہے اردو کی درخواست میں آپ نے بائیں پِن کر دیا تو وہ داہنی طرف کھل ہی نہیں سکے گا، یہ بد سلیقگی کے ذیل میں آئے گا۔ آپ کہیں گے یہ بہت چھوٹی بات ہے ، یقینا چھوٹی ہے، لیکن شاعر نے کہا ہے۔
ایک تنکا حقیر ہے لیکن وہ ہواؤں کا رخ بتاتا ہے
اسی طرح بعض کا غذات کے حصول کے لیے اصل کاغذات پیش کرنے ہوتے ہیں، اب اگر فوٹو کاپی لے کر آئے ہیں، تو یہ بد سلیقگی ہے اور خطرہ یہ بھی ہے کہ دوسرا کوئی جس کے پاس اصل کاغذات ہیں، آپ کے مطلوبہ کاغذات لے کر چلا جائے اور آپ کو فوٹو کاپی لے کر واپس جانا پڑے، اس لیے ہر ممکن سلیقہ برتیے، اپنے مطلوبہ کاغذ کے حصول کے لیے ضروری شرائط کی تکمیل کیجئے، آپ آسانی سے اپنے مطلوب تک پہونچ جائیںگے، جو کاغذات تیار کرنے ہیں ، اسے جس دفتر سے کاغذ نکلوانے ہیں وہاں بیٹھ کر تیار نہ کریں، اسے گھر سے تیار کرکے لے جائیں اور خوب اچھی طرح دیکھ لیں کہ کوئی چیز چھوٹ تو نہیں رہی ہے، درخواست پر دستخط کا سلیقہ یہ ہے کہ اگر آپ مکڑی کے جالے کی طرح دستخط کرتے ہیں تو اس کے نیچے قوسین (برائکٹ) میں صاف صاف نام لکھیں، تاکہ اسے پڑھا جاسکے، دستخط کے نیچے فارم وغیرہ لکھنے کے بجائے اپنا عہدہ صاف صاف لکھیں۔
بعض کاغذات کو دوسروں کو اٹسٹیڈ کرنا ہوتا ہے ، اٹسٹیڈ کرنے والے کا سلیقہ یہ ہے کہ وہ سامنے والے کے تمام کاغذات کو بغور دیکھ لے۔ اس لیے کہ اس میں کسی قسم کی کمی کی وجہ اس کی بدسلیقگی اور بے اعتنائی کو قرار دیا جا سکتاہے اور ہو سکتا ہے کہ اس سے باز پرس بھی ہو جائے کہ آپ نے سادے کاغذ پر تصدیق کیوں کر دی ، اور مطلوبہ کاغذات کی جانچ کیوں نہیں کی ، اس کا مطلب ہے کہ آپ کی تھوڑی سی توجہ اور سلیقہ مندی سے آپ کا کام جلد ہو سکتا ہے، آسانی سے ہوسکتا ہے اور آپ بہت سارے خطرات سے بچ سکیں گے ۔خوب یاد رکھیے بدسلیقگی سے پریشانیاں بڑھتی ہیں، سرکاری دفاتر میں ہرکام رشوت کی ہی وجہ سے نہیں رکتا، آپ کی بدسلیقگی کا بھی اس میں بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔