Slide
Slide
Slide

روزے کے مقاصد

✍️ محمد علقمہ صفدر ہزاری باغ

______________

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، یعنی اسلام  پانچ ستونوں پر کھڑا ہے جن میں سے ایک روزے کا اہتمام کرنا ہے، جس کی ایک ظاہری شکل تو یہ ہے کہ انسان کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رکے رہے، لیکن اس کی روح اور حقیقت دراصل انسان کے اندر صبر کی عادت پیدا کرنا ہے، روزے کا مقصد یہ ہے کہ ایک مسلمان کے اندر یہ عمومی مزاج و مذاق پیدا ہو جائے کہ وہ ناموافق، غیر مرضی اور ناخوشگوار باتوں کو تحمل و برداشت کر سکیں، خلافِ مزاج باتوں کو نظر انداز کر کے صبر و شکر والی زندگی گزار سکے۔
                  رمضان کا مہینہ ایک مکمل عمل کا زمانہ ہے، اس کی ابتدا 29 شعبان کے شام میں اگلے مہینے کے چاند نظر آنے سے ہوتی ہے، یہ ماہ دینی سرگرمیوں کا خاص مہینہ ہے، اب تک تو بندۂ مومن کھانے پینے کے معاملے میں آزاد تھا، لیکن جس مہینے میں وہ داخل ہوا ہے وہ کھانے پینے سے متعلق پابندیِ وقت کا تقاضا کرتا ہے، دوسرے دنوں میں تو ایسا تھا کہ جب بھوک لگی یا پیاس نے پانی طلب کی تو بلا کسی تردّد اور پس و پیش کے کھا پی لیا، دوسرے لفظوں میں گویا کہ خواہش و طلب ہی اس کی رہنما تھی، مگر یہ بابرکت مہینہ اس کو اصول و ضوابط اور اوقات کا پابند بناتا ہے، اب اسے کھانے پینے کے لیے یہ جاننا لازم و ضروری ہے کہ یہ دن کا وقت تو نہیں، یعنی اب اس کو اس زندہ احساس کے ساتھ شب و روز گزارنے ہیں کہ کب کھانا ہے، کب پینا ہے، کب کیا کرنا ہے، کس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، گویا کہ یہ پورا رمضان کا مہینہ ایک بندۂ مومن کے لیے تربیت گاہ کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں ضبطِ نفس اور خود احتسابی کی تربیت دی جاتی ہے۔
                     روزے کی ابتدا سحری کھانے کے بعد سے شروع ہوتی ہے، اس میں اس بات کی تعلیم ہے کہ جب پروردگارِ عالم بظاہر کسی سخت چیز کا حکم دیتے ہیں تو اس کے لیے آسانی کا انتظام بھی فرما دیتے ہیں، وہ روزے کا حکم دیتا ہے مگر اسی کے ساتھ سحری کے ذریعے وہ آسانی بھی پیدا فرما دیتا ہے، اب جب بندۂ مومن روزے کے لیے سحری کھا لیتا ہے تو عبدیت کی ایک خاص کیفیت اس کے اندر پیدا ہو جاتی ہے، جب وہ قصداً اللہ تعالیٰ کے لیے دن میں کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے تو گویا وہ زبان حال سے کہتا ہے کہ ” اے میرے پروردگار میں تیرے حکم کا پابند ہوں، تو جب جس چیز کو میرے لیے حلال کر دے تو استعمال کروں گا، اور اگر استعمال سے روک دے تو فوراََ رک جاؤں گا، اور جب تک حکم نہ دے استعمال میں نہ لاؤں گا، میں ہر حال میں تیرے حکم کا پابند ہوں“ ۔
                انسان جب روزے کی حالت میں بھوک و پیاس سے دوچار ہوتا ہے تو کھانے کے تمام اسباب مہیا ہونے کے باوجود حکمِ خداوندی کے بنا پر کھانے پینے پر ہاتھ نہیں لگاتا، یعنی ایک وہ چیز جو معمول کی زندگی میں بلا تکلف استعمال کرتا تھا لیکن جب خدا کا حکم آ گیا تو معمول کی ایک جائز چیز بھی اپنے اوپر حرام کر لیا، گویا یہ اس بات کا اعلان و اظہار ہے کہ ایک بندۂ مومن اپنے فعل و عمل میں آزاد نہیں ہے، وہ اپنی خواہشوں اور آرزؤں کا غلام نہیں ہے، بلکہ وہ صرف اپنے پروردگار کے حکم کے تابعدار ہے، اس کے حکم کے آگے اس کی تمناؤں اور خواہشوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اسے بھوک اور پیاس کی صورت میں اگرچہ تکلیف بھی اٹھانی پڑے مگر اس کے حکم کے سامنے کوئی شکوہ شکایت نہیں، وہ صبر کریں گے اور نفس کے تقاضے کو کچل دیں گے، لیکن ہر حال میں دین کے تقاضوں پر قائم رہیں گے، گویا کہ خدا تعالٰی رمضان میں یہ بتانا چاہتا ہے کہ بندۂ مومن صرف اللہ تعالی کا محکوم ہے، وہ اسی کے بتائے ہوئے طریقے پر چلیں گے، اسی کے بتانے کے مطابق سوئیں گے اور جاگیں گے، اسی کے کہنے سے کریں گے اور اسی کے منع کرنے سے رک بھی جائیں گے، پھر جب شام میں افطار کا وقت ہوتا ہے اور روزے دار روزہ کھولنے کے لیے بیٹھتا ہے، تو اس وقت کی کیفیت ناقابل بیان ہے، اب تک تو وہ خاص ذمہ داریوں کا پابند تھا لیکن وہ پابندیاں اب چند ہی لمحوں میں ختم ہونے والا ہوتا ہے، اور سرور اور شادمانی کا مقام آنے والا ہوتا ہے، گویا کہ یہ روزہ اور افطار دونوں ایک اعتبار سے دنیا اور آخرت کی تمثیل ہے کہ دنیاوی زندگی پابندیوں کی زندگی ہے، اس میں شب و روز صبر و مشقت کے تجربے سے گزرنا پڑتا ہے، اب جو بندہ اس پابند زندگی کو صبر و مشقت کے ساتھ گزار لیں، تو اس کے بعد جو آخرت کی زندگی ہے وہ ایک خوشیوں بھری لافانی زندگی ہے، جہاں کا عیش عیشِ دوام ہے، خلاصہ یہ ہے کہ بندے مومن کے لیے روزہ دنیا کی زندگی کا تجربہ ہے اور افطار آخرت کی زندگی کا تجربہ ہے۔
              ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” الصيام جنة فاذا كان يوم صوم احدكم فلا يرفث يومئذ ولا يصخب فان شاتمه احد او قاتله فليقل انى صائم فليقل انى صائم “ یعنی روزہ ڈھال ہے پس جب تم میں سے کسی کا روزے کا دن ہو تو نہ فحش کلامی کرے اور نہ شور کرے، اور اگر کوئی شخص اس کو برا کہے یا جھگڑے تو اس کو چاہیے کہ وہ کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں، میں روزے دار ہوں، اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ روزہ خواہشات پر روک لگانے کا نام ہے جس کی مشق اس مہینے میں آخری حد تک کرائی جاتی ہے، کہ اگر کوئی برا بھلا بھی کہے تو اپنے پاکیزہ روزے کو یاد کر کے اس کو نظر انداز کر دے، اور اس بےہودہ گوئی کا کوئی جواب نہ دے، دراصل یہی وہ عادت و خصلت اور سیرت ہے کہ جس کو اللہ تبارک و تعالی بندۂ مومن کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے، اور اس کے لیے مسلسل ایک مہینے کی مشق اور ٹریننگ دیتا ہے کہ 11 مہینے اسی پاکیزہ خصلت اور تحمل مزاجی کے ساتھ گزرے، اور ایک مومن تمام لہو لعب اور خرافات و فسادات سے پاک و منزہ ہو کر اللہ تعالی کے دربار میں حاضر ہو۔
اللہ تعالی ہم تمام مسلمانوں کو رمضان المبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس سے مطلوبہ اور خاطر خواہ فوائد حاصل کرنے کی سعادت بخشے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: