✍️ محمد عمر فراہی
__________________
بیسویں صدی کے خدا بیزار افسانہ نگاروں نے اپنی تخلیقات میں لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے جہاں بے شمار فحش جملوں سے کتابوں کے صفحات کو آراستہ کیا ایسے ایسے سنسنی خیز اقتباسات بھی شامل کئے جس نے ایک نسل کو الحاد کی طرف موڑ دینے کا حوصلہ فراہم کیا۔مثال کے طور پر جب ایک ترقی پسند افسانہ نگار لکھتا ہے کہ
"میرے خدا نے مجھے تم سے محبت کرنے سے منع کیا تھا لیکن تم اتنے خوبصورت تھے کہ میں نے تمہاری محبت کی خاطر اپنا خدا ہی بدل دیا”
تو اس خوبصورت جملے پر اس کے مداح اس طرح تالیاں بجاتے ہیں جیسے اس نے کوئی ایسی بات لکھ دی ہو جو اب تک لکھی ہی نہیں گئی ہو !
کمال کی بات یہ ہے کہ ایسے ہی روشن خیال افسانہ نگاروں کی تخلیقات کی حوصلہ افزائی کے لئے نہ صرف ان کے ادب کو بحث و مباحثات کا موضوع بنایا گیا انہیں قومی اور عالمی سطح پر نوبل انعامات سے بھی نوازا گیا اور نوازا جارہا ہے ۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس طرح سے سارے خدا بیزار ادیب امیر ہو گئے ۔بیشتر نے انعامات اور اعزازات کی لالچ میں اپنے اس باغیانہ رجحانات کی وجہ سے اپنی زندگیاں بھی برباد کر لیں ۔کہنا چاہئے کہ اکثریت کو نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ۔میں نے ایسے بیشتر افسانہ نگاروں اور صحافیوں کی آخری زندگی کو بدحالی میں گزارتے ہوۓ دیکھا ہے ۔کچھ نے آخری وقت میں توبہ بھی کرلیا اور کچھ مصنفین کی موت پر مرثیہ بھی پڑھا گیا کہ یہ اردو ادب کے خدمت گار تھے اور مسلمانوں نے ان کی مدد نہیں کی ۔یہ بات غلط ہے ۔انہوں نے خود مسلمانوں سے ہمیشہ نفرت کی اور آخری وقت میں انہوں نے جیسا اپنی اولادوں کی تربیت کی تھی ان کی اولادوں نے ہی انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا اور ان کی تخلیقات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ۔
ہم کہتے ہیں کہ فرقہ پرست ہندؤوں کو ہمارے مذہب ہماری عورتوں کے حجاب اور ہماری کتاب سے نفرت ہے جب کہ نام نہاد ترقی پسند ادیبوں نے سب سے پہلے اپنے مذہب سے نفرت کی شروعات کی ۔خخاص طور سے پڑوسی ملک کے اردو مصنفین نے اس معاملے میں لمبا سفر کیا ۔انہوں نے صرف ادب کی خدمات انجام دی ہوتی تو کوئی بات نہیں انہوں نے غیر مسلم دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کے تعلق سے نفرت کا موضوع بھی فراہم کیا ۔
آج سے تقریبا دس بارہ سال پہلے عالم نقوی، دانش ریاض اور ممتاز میر صاحب نے ایک اردو رسالے کی اشاعت کا ارادہ کیا، جس میں میں بھی شامل تھا ۔رسالہ کچھ ایک سال تک شائع بھی ہوا لیکن جیسا کہ اردو اخبارات اپنے کارکنان کی غیر منصوبہ بندی، بدنظمی اور اشتہارات کی قلت کی وجہ سے بند ہو جاتے ہیں؛ یہ رسالہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔اسی رسالے کی اشاعت کے دوران ممبئی یونیورسٹی میں اس وقت کے اردو کے ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ کی صدارت یا نظامت میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا جس کا عنوان تھا "ممبئی کے معاصر اخبارات رسائل اور ان کا مستقبل "۔یہ دو یا تین دن کا سیشن تھا جس میں اس وقت کے تقریبا چھوٹے بڑے تیس کے قریب اردو رسالے اور اخبارات کے ایڈیٹرز حضرات کے ساتھ بہت سارے قلمکار حضرات کو بھی مدعو کیا گیا تھا تاکہ وہ قلم اور اخبارات کے اصل غرض و غایت اور اخبارات نکالنے میں آنے والی دشواریوں سے لوگوں کو آشنا کرسکیں ۔ہم لوگ نئے تھے اس لئے ہمیں مدعو تو نہیں کیا گیا تھا لیکن ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ صاحب علی صاحب سے بات کر لیں، ہو سکتا ہے وہ آپ کو بھی کسی سیشن میں اپنے رسالے کی نمائندگی کا موقع فراہم کردیں ۔
چونکہ ہمارے رسالے کا نام ہی صحیفہ والدین تھا اس لئے مجھے جب ایک سیشن میں اپنے رسالے کے تعارف میں بولنے کا موقع ملا تو میں نے لفظ صحیفہ اور صحافت کو قرآن کے حوالے سے تشریح کرنے کی جرات کی ۔ابھی میں نے چند منٹ کی گفتگو کا آغاذ ہی کیا تھا کہ محفل میں موجود ایک ترقی پسند افسانہ نگار نے جن کا پچھلے سال بہت ہی کسمپرسی کی حالت میں انتقال ہو چکا ہے ٹوک دیا ۔ان کا کہنا تھا کہ اس محفل میں قرآن اور مذہب کا تذکرہ فضول ہے ۔میں احتجاجاً خاموش ہو گیا تو وہاں موجود کچھ اردو اخبارات کے ایڈیٹرز اور ناظم نے محترم افسانہ نگار سے درخواست کی کہ کسی کو جو سوال بھی کرنا ہے سیشن ختم ہونے کے بعد کرے۔کسی اسپیکر کی گفتگو کے دوران ٹوکنا اچھی بات نہیں ہے ۔خیر میں نے کسی طرح اپنی بات مکمل کی لیکن جو بات مجھے یہاں کہنا ہے وہ یہ کہ میں نے بیشتر اردو ادیبوں کو نہ صرف بے ادب اور اردو کے نام پر اردو کو نقصان پہنچاتے دیکھا یہ لوگ بھی زعفرانی ذہنیت کی طرح اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانے کے بھی مجرم رہے ہیں ۔