۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

تقوی

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى

_________________

تقوى ايكـ معنوى حقيقت ہے، معانى نگاہوں سے مخفى ہوتے ہيں، بالعموم ان كا استحضار نہيں ہوتا، اور غلطى سے مظاہر ورسوم كو ان كا بدل قرار دے ديا جاتا ہے، يہى ظلم تقوى پر ہوا ہے، اور يه ظلم بڑا دردناكـ رہا ہے، ظاہرى شكل وصورت كو تقوى كا نام ديا جاتا رہا، اور "نہند نام زنگى كافور” كى مشق ہوتى رہى، اسى لئے نبى اكرم صلى الله عليه وسلم نے اپنے سينۂ مباركـ كى طرف اشاره كرتے ہوئے فرمايا كه تقوى يہاں ہے، يعنى تقوى نظر نہيں آتا ہے، بلكه وه دل كے نہاں خانه ميں ہوتا ہے۔
اس مضمون ميں تقوى كى حقيقت بيان كرنے كى كوشش كى جا رہى ہے، آسانى كے لئے مضمون كو دو حصوں ميں تقسيم كر ديا گيا ہے: مظاہر تقوى؟ حقيقت تقوى؟

مظاہر تقوى:
كرتا، پائيجامہ، اور شروانى پہننا تقوى نہيں ہے، تركى پوشاكـ پہننا، ايرانى قبا اوڑهنا، عربوں كا ثوب زيب تن كرنا تقوى نہيں، بوريه نشينى تقوى نہيں، كسى مخصوص قوم كا لباس پہننا تقوى نہيں، بخارى شريف ميں ذكر ہے كه كچهـ صحابۂ كرام رضي الله عنہم جانگهيه پہنتے تهے، امام مالكـ، امام بخارى اور علماء كى ايكـ بڑى تعداد كے نزديكـ ران كا چهپانا بهى ضرورى نہيں، جو لوگ تقوى كے امام تهے ان كى ايكـ كثير تعداد ستر عورت كى اقل مقدار پر اكتفا كرتى تهى۔
عمامہ باندهنا يا ٹوپى لگانا تقوى نہيں، بالوں كے اسٹائيل كا بهى تقوى ميں كوئى دخل نہيں، كچهـ لوگ پٹه دار بال ركهتے ہيں، بعضے بال منڈواتے رہتے ہيں، يا قلندرانه شكل وصورت بناتے ہيں، اس دنيا ميں وه لوگ بهى گزرے ہيں جو گيسو دراز يا زلف دراز كے لقب سے مشہور ہو گئے، بالوں كى جمله قسموں كا قربت الہى ميں كوئى دخل نہيں، لباس درويشانه اور جبه وعمامه فقيرانه بهى تقوى نہيں، شيخ شيراز كا حكيمانه فرمان ہے:
دلقت به چه کار آید و مسحى و مرقع
خود را ز عملهاى نکوهیده برى دار
حاجت به کلاه برکى داشتنت نیست
درویش صفت باش و کلاه تترى دار
كچهـ لوگ زمين پر بيٹهكر كهانے كو تقوى كى علامت سمجهتے ہيں، جبكه ان كے دسترخوانوں پر اعلى انواع واقسام كے لذيذ ترين كهانے ہوتے ہيں جن كا پيغمبروں كے طريقه سے دور كا بهى رشته نہيں، كچهـ لوگ معمولى كهانا كهاتے ہيں مگر ميز اور كرسى پر كهاتے ہيں، ہر فريق دعوائے تقوى ميں سبقت لے جانے كى كوشش كر رہا ہے، حالانكه ان ميں سے كوئى چيز بذات خود تقوى نہيں۔
ايسے لوگ بهى ہيں جو تقوى كو اپنے مسلكـ ومشرب ميں منحصر سمجهتے ہيں، جو ان كى طرح ٹوپى لگائے وه متقى ہے، جو ان كے اكابر كے ملفوظات كا مطالعه كرے وه متقى ہے، اس وقت بر صغير كے بازاروں ميں رنگ برنگ كى ٹوپيوں اور طرح طرح كے ملفوظات كے مجموعوں كا دهندا زور وشور سے چل رہا ہے، بعضے خلافتوں، بيعتوں اور اجازتوں پر ناز كرتے ہيں، كچهـ لوگ سلسلوں كى گردانيں گردانتے ہيں، يه سب ظاہر پرستى ہے، ان ميں زياده تر منافق اور ريا كار ہوتے ہيں، اسى لئے اله آباد كے عالم ربانى مولانا شاه وصى الله فتحپورى رحمة الله عليه كے مواعظ زياده تر نفاق اور خصال نفاق كے متعلق ہوتے تهے۔
ان كى تعداد بہت زياده ہے جو مدرسوں اور خانقاہوں ميں زندگياں گزار ديتے ہيں، اور گمان كرتے ہيں كه ان كا ہر عمل تقوى كى علامت ہے، ان ميں بہت سے لوگ اس قدر متكبر، صاحب پندار، مدعى ہمه دانى، تند مزاج اور ضرر رساں ہوتے ہيں كه زمين وآسمان كى سارى مخلوقات ان سے پناه مانگتى ہے، انہيں لوگوں كے بارے ميں امير خسرو نے فرمايا تها: (گر چه پنہاں خورند باده)، يه لوگ دنيا داروں سے محبت كرتے ہيں، اور فقراء ومساكين كو بنظر حقارت ديكهتے ہيں، حالانكه جن بزرگوں كا نام ليتے ہيں وه زبان حال وقال سے كہتے تهے:
ما آبروئے فقر وقناعت نمى بريم
با مير خاں بگوئے كه روزى مقرر است

حقيقت تقوى:
وه تقوى جس كا حكم كتاب الہى ميں ہے، اور جس پر نبيوں اور رسولوں نے سختى سے عمل كيا ہے، اس كے تين اركان ہيں: خوف، مراقبه، اور معاصى سے اجتناب۔
ان ميں سب سے مہتم بالشان خوف خدا ہے، يہى سارى نيكيوں كى جڑ ہے، يہى وه شجرۂ طيبه ہے جس سے بابركت پهل پيدا ہوتے ہين، يه خوف مردوں ميں بهى ہوسكتا ہے اور عورتوں ميں بهى، مالداروں ميں بهى اور غريبوں ميں بهى، عربوں ميں بهى اور عجموں ميں بهى، عالموں ميں بهى اور غير عالموں ميں بهى، مدرسوں والوں ميں بهى اور كالجوں اور يونيورسيٹيوں والوں ميں بهى، يه بات سو فيصد درست ہے كه جب معرفت آتى ہے تو خوف بهى آتا ہے، جسے خدا كے اسماء وصفات كا جتنا علم ہوگا وه خوف سے اسى قدر متصف ہو گا، الله تعالى كا ارشاد ہے: "إنما يخشى الله من عباده العلماء”، نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كا فرمان ہے: "أنا أعلمكم بالله وأخشاكم لله”، يه وه منتخب بندگان الہى ہيں جن كا باطن ظاہر فريبى كا محتاج نہيں ہوتا:
غضب نگاه نے ساقى كى بند وبست كيا
شراب بعد كو دى، پہلے سب كو مست كيا
دوسرا ركن ہے مراقبہ واستحضار، يعنى انسان كہيں ہو ہمه وقت الله تعالى كو اپنے سامنے اور اپنے ساتهـ ديكهے، اس كے دل ميں راسخ ہو جائے كه وه خدا كى نگاه سے كبهى اوجهل نہيں ہو سكتا، وه خدا كے نام سے بيتاب ہوجائے، وه مجمع ميں ہو يا تنہائى ميں، ہمه وقت اپنے رب كا مشاہده كرے:
جہاں پہنچے اسى كا نور پايا
جدهر ديكها وہى خورشيد رو تها
تيسرا ركن ہے معاصى سے اجتناب كا، يہى خوف ومراقبه كا لب لباب ہے، اگر معاصى سے اجتناب نہيں تو خوف ومراقبه حاصل نہيں ہوا۔
تقوى كے بہت سے مدارج ہيں، جب كسى كو تقوى كى تينوں خصلتوں پر قدرے استقامت نصيب ہو جائے تو اسى متقى كہا جاتا ہے، اس مقام كا علم صرف خدا كو ہوتا ہے، خلق آثار وعلامات سے حسن ظن كر سكتى ہے، ايكـ متقى انسان طاعت گزار وعبادت شعار ہوتا ہے، گناہوں سے دور ہوتا ہے، بغض وحسد سے پاكـ ہوتا ہے، خوش دل وخوش خو ہوتا ہے، عام انسانوں كے ساتهـ نرمى اور تواضع سے پيش آتا ہے، اہل تقوى كہتے ہيں اور بجا كہتے ہيں:
خاكـ نشينى است سليمانيم
ننگ بود افسر سلطانيم
ہست بسے سال كه مى پوشمش
كہنه نه شد جامۂ عريانيم

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: