ڈاكٹر محمد اكرم ندوى, آكسفورڈ
________________
سنه 1912 ميں شاہجہانپور كے كچهـ مسلمانوں كے مرتد ہونے كى خبر پهيلى، علامه شبلى اس وقت سخت بيمار تهے، يه خبر سنكر بيچين ہوگئے، نه دن كو آرام، نه رات كو سكون، كسى طرح اس علاقه ميں پہنچے، انتظاميه كى جانب سے جائے وقوع پر سخت پہرا تها، وہاں پہنچنے كے لئے بيقرار تهے، ہر نوع كى سعى كى، اسى مناسبت سے كى گئى اپنى ايكـ تقرير ميں فرمايا: "بهائيو! مجهے تو پالكى ميں ڈال كر وہاں لے چلو، ميں چلتا ہوں، ليكن كوئى شخص نہيں لے گيا، غرض تين دن تكـ ميں وہاں پڑا رہا” (حيات شبلى ص 558)۔
اسى تقرير ميں شبلى نے يه بهى فرمايا: "جس وقت ميں يہاں سے چلا ہوں، ميرى جو حالت تهى يه طلبه ندوه كے جو يہاں بيٹهے ہيں وه اس كے شاہد ہوں گے كه ميں نے اس وقت كوئى گالى نہيں اٹها ركهى تهى، جو ميں نے ان ندوه والوں كو نه سنائى ہوگى كه اے بيحياؤ! اور اے كمبختو! ڈوب مرو، يه واقعات پيش آئے ہيں، ندوه كو آگ لگادو، اور عليگڑهـ كو بهى پهونكـ دو” (حيات شبلى ص 557-558)۔
استاذ محترم مولانا شہباز عليه الرحمة نے ہمارے سامنے شبلى كا يه كرب كئى بار بيان كيا، اور افسوس كا اظہار كيا كه اب وه حميت وغيرت مدرسوں اور خانقاہوں سے گئى۔
اس وقت ہندوستان دوباره ارتداد كى زد ميں ہے، صورت حال مہيب اور خوفناكـ ہے، مگر ہم نشۂ غفلت ميں اس طرح مست ہيں كه اپنے مقدر كى كهلى كتاب بهى نہيں پڑهـ سكتے، مشفق معظم مولانا وقار عظيم ندوى مد ظله كا ايكـ پيغام نظر نواز ہوا: "آج سے تقریباً پچیس سال قبل میرے اپنے عزیزوں کے ایک گھر میں لوگوں نے دیکھا کہ اسکول جانے والا ایک چھوٹا بچہ بے وقت لحاف اوڑھ کر لیٹا ہوا ہے، دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ اس بچے کی کوئی کتاب یا ہوم ورک کی کاپی کھو گئی تھی، اِس لیے وہ ہنومان چالیسہ پڑھ رہا تھا، اسکول میں اسے یہى بتایا گیا تھا ہنومان چالیسہ پڑھنے سے کھوئی چیزیں مل جاتی ہیں، بچے کو ہنومان چالیسہ یاد کرایا گیا ہوگا، بہت ممکن ہے اس بچے کو گھر والوں نے دعائے قنوت نہ سکھایا ہو۔
یہ ایک نمونہ ہے، مگر آخری نہیں، علم و دعوت کے منتسبین کو نئی نسل کے ساتھ گھلنا ملنا چاہیے، ہمارا غراتا اور منہ بسورتا مولوی طبقہ اس قضیہ سے بے خبر اور اس کو ہینڈل کر سکنے میں نا اہل ہے۔”
شبلى نے ندوه والوں كو جو گالياں سنائى تهيں، كہاں ہيں وه غيور مصلحين قوم جو ان گاليوں كو دہرائيں، گالى دينے والے معذور بلكه ماجور ہوں گے، حالات سے چشم پوشى كا يه عالم ہے كه ہم تراويح كى ركعتوں كا معركه سر كرنے ميں لگے ہوئے ہيں، آٹهـ والوں كو بيس ركعتيں پڑهائى جا رہى ہيں، اور بيس والوں كو آٹهـ ركعتوں كى تلقين جارى ہے، يه ہيں اس امت كے بہى خواه، جس كى اكثريت سرے سے فرض نماز ہى نہيں ادا كرتى، بے دينى وبے حيائى عام ہو رہى ہے، كفر وشركـ كا بول بالا ہے، كاش ہوش كے ناخن ليتے، سارا درد مسلكـ ومشرب كا ہے، خدا كے دين كى پرواه نہيں۔
كون شبلى كا مقام پيدا كرے؟ كون اس كا اہل ہوگا كه ندوه والوں كو گالياں دے؟ مہلت نہيں كه كسى گالى دينے والے كے انتظار ميں دن گنے جائيں، التماس كرسكتا ہوں، سوال والتجا كرسكتا ہوں، گريباں نہيں تو دامن پكڑ سكتا ہوں، حيف ہے اگر ميرى درخواست ميرى ہى برادرى كو ناگوار گزرے۔
آپ كے اداره كى تاسيس كا مقصد اولين وآخريں تها كه مسلمانوں كو جزئيات ميں نه الجهايا جائے، فروعى مسائل ميں نرمى اور لچكـ اختيار كرنے كا درس ديا جائے، اجتہادى غلطيوں سے درگزر كيا جائے، مسلكـ ومشرب اور ذوقيات سے صرف نظر كيا جائے، كوئى حنفى ہو، مالكى ہو، شافعى ہو، حنبلى ہو، اہل حديث ہو، ہونے ديں، كوئى جماعت اسلامى سے رشته استوار كرے يا تبليغى جماعت سے، كرنے ديں، سب كے ساتهـ احترام ومحبت سے پيش آئيں، اور مسلكوں اور رايوں كى ترجيح كے فضول مشغله سے دور رہيں، مسلمانوں كو اصول دين كى دعوت ديں، ان كے اندر خوف خدا پيدا كريں، آخرت كى ياد دہانى كرائيں، جنت وجہنم كے تذكره سے دلوں كو معمور كريں، امت كى وحدت كى سعى كريں، اور فقہى وكلامى تعصب وفرقه پرستى كے زہر سے كوسوں دور رہيں۔
آپ كے نصاب ميں كتاب الہى اور سيرت نبوى كو مركزى حيثيت حاصل تهى، يہى دونوں چيزيں مسلمانوں كو جوڑ سكتى ہيں، آپ اس بهولے ہوئے عہد وپيمان كو دوباره باندهيں، كسى انسانى كلام كو ان كے برابر درجه نه ديں، "من لم يتغن بالقرآن فليس منا” كا مفہوم سمجهيں، اور خدا ورسول كے متعلق غيرت پيدا كريں، ان كى تعليمات ميں مصنوعى پيوند كارى نه كريں: حاجت مشاطه نيست روئے دل آرام را۔
اپنے اپنے محلہ كى مسجدوں ميں، جديد تعليمى اداروں ميں، كميونٹى سنٹرز ميں، مردوں ميں اور عورتوں ميں دو درس ديں، ايكـ قرآن كريم كا درس، دوسرے سيرت نبوى كا درس، دونوں رشد وہدايت كا منبع ہييں، ان كے مضاميں نہايت پاكيزه، عقلوں كو مطمئن كرنے والے، اور دلوں پر اثر انداز ہونے والے ہيں۔
قرآن كے درس ميں كوشش كريں كه چند آيتوں كى عربى ميں تلاوت كريں، پهر آسان زبان ميں ان كا ترجمه كريں، اور بقدر ضرورت ان كى تشريح كريں، ان تفسيروں كا مطالعه كريں جو عصر حاضر كے انسانوں كے ذہن كے مطابق لكهى گئى ہيں، عربى ميں سيد قطب شہيد كى تفسير (فى ظلال القرآن)، اور اردو ميں (تدبر قرآن) اور (تفہيم القرآن) آپ كے لئے معاون ہوں گى، ان تفسيروں سے استفاده كريں گے تو آسانى سے قرآن كريم كا پيغام عام انسانوں تكـ مؤثر انداز ميں پہنچا سكيں گے۔
سيرت ميں جتنا كام آپ كے اداره نے كيا ہے كسى اور نے نہيں كيا ہے، آپ مولانا ابو الحسن على ندوى كى (نبى رحمت)، سيد سليمان ندوى كى (خطبات مدراس)، اور شبلى وسليمان كى (سيرة النبى) كا مطالعه كريں، اور ان كى روشنى ميں پيغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم كى محبت وطاعت مسلمانوں كے دلوں ميں جاگزيں كريں۔
يه نه سوچيں كه حالات اس قدر سنگين ہيں تو ہمارے دروس سے كيا ہوگا؟ يه شيطان كى بہت بڑى چال ہے، اس سے ہوشيار رہيں، آپ اپنے مقدور بهر كوشش كريں، الله تعالى سے دعا كريں، پهر الله كى وه مدد آئے گى جس كا آپ تصور نہيں كرسكتے، يه دونوں درس انسانوں كو خواب غفلت سے بيدار كريں گے، طبيعتوں كو بدليں گے، افراد اور معاشروں ميں غير معمولى تغيرات لائيں گے، بندوں كو رب سے قريب كريں گے، اور اسوۂ حسنه سے سب كو مزين كرديں گے:
مزه آتا ہے باتوں ميں خدا كى
بهلى لگتى ہيں باتيں مصطفى كى
يه دنيا نا پائيدار ہے، يہاں نه كسى كو بقا ہے نه قرار ہے، يه گزشتنى اور گزاشتنى ہے، نه دل بستنى ہے اور نه دل آويختنى ہے، مرنے سے پہلے اس مولى كو راضى كرليں جس كے پاس جانا ہے، الله تعالى ہم سب كو نيكـ بنائے اور اپنے دين كى خدمت كے لئے قبول كرے۔ آمين۔