۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

افطار کا بے جا اہتمام اور اسکے نقصانات

✍ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی

______________

        دوسرے روزہ کو میری چار سالہ بیٹی فائزہ نے اپنی اماں سے سوال کیا ۔ اماں ! آج تو آپ بہت ساری چیزیں بنائیں گی ، اماں نے پوچھا کیوں؟ بولی ۔ رمضان ہے نا، رمضان آتا ہے تو خوب ساری چیزیں بنتی ہیں نا ۔ اماں نے کہا یہ کس نے کہا ۔۔۔۔ اور یہیں ان کی گفتگو کا سلسلہ ختم ہو گیا تھا لیکن میں سوچ میں پڑ گیا تھا ۔ اس وقت جو بات ذہن میں آئی تھی وہ لکھنے سے رہ گئی تھی ، ابھی یاد آ گئی ۔

         رمضان میں افطار و سحر کے وقت بلاوجہ کے اہتمام کی وجہ سے تین نقصان ہوتے ہیں۔
1 ۔  بچے میں بچپن سے ہی یہ رجحان پیدا ہو جاتا ہے کہ رمضان کھانے ، پکانے ، مزے اڑانے اور تنوعات کا اہتمام کرنے کے لیے آتا ہے ، رمضان کے نظام تربیت ، مجاہدے،  عبادات اور تقوی کا تصور سب پیچھے رہ جاتا ہے ، افطار و سحر کا اہتمام رمضان کا مقصد بن جاتا ہے اور بچے اسی تصور کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں۔

2 ۔  اس بے جا اہتمام کے سبب عورت کی زیادہ تر مبارک ساعتیں باورچی خانے اور لوگوں کی خواہشات پوری کرنے میں گذر جاتی ہیں،  کم سے کم وقت اسکو عبادت کے لیے ملتا ہے ، اور جو وقت ملتا ہے اس میں وہ پہلے ہی عام دنوں کے بالمقابل گھر کے بڑھے ہوئے کاموں سے تھک چکی ہوتی ہے ۔ مرد بھی قبولیت کے اوقات بازار کی بھیڑ میں گنوا دیتا ہے، عین وقت پر اسے کیلے اور تربوز کی کمی بازار کے چکر لگوا دیتی ہے ۔

3 ۔   اس غیر ضروری اور بلاوجہ کے اہتمام کے سبب اچھے خاصے نارمل اور عام دنوں میں کھاتے پیتے لوگوں کو غربت و محرومی کا احساس ہونے لگتا ہے ۔ اس کے ساتھ پھر مزید کئی نقصانات لگ جاتے ہیں۔

اس لیے افطار و سحری میں شکم سیری اور ستم گری سے گریز کیجیے تاکہ روزے کے اصل مقاصد سے ملاقات ہو سکے ، یہ نہ ہو کہ روزہ جو سوشل پریکٹس اور روحانی مشق کرانا چاہتا ہے  آپ کا بھرا ہوا دسترخوان اس پر پانی پھیر دے ، افطارو سحری میں کثرت و تنوع دراصل ہمارا سماجی رویہ بن چکا ہے ، اس پر مستزاد اب کچھ نازک مزاج  اور نئے نئے شعوری طور پر بالغ ہوئے لوگ مزید  ستم ڈھاتے ہیں،  کمزوری نہ بڑھنے ، بھوک پیاس نہ لگنے کے نئے نئے نسخے بتاتے ہیں ۔ روزہ جس چیز کا احساس دلانے کے لیے مشروع ہے یہ اسی احساس کے نسخے لاتے ہیں اور لوگوں کو مزید پریشان کرتے ہیں ،  روزے کا روحانی ہدف حاصل کرنا ہو تو رمضان میں مادی خواہشات کم کیجیے ، نفس کی خواہشات،  سماج کی خواہشات،  پیٹ کی خواہشات کو مارنے کا نام ہی روزہ ہے ، دسترخوان عام دنوں جیسا ہو گا تو روزے کا اصل مقصد بھی حاصل ہوگا ، بچے بھی رمضان سے متعلق درست تصور کے ساتھ پروان چڑھیں گے ، اور خواتین پر بھی بے جا بوجھ نہیں ہو گا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: