—— مظلوم کیوں ہیں!!

بیٹیاں مظلوم کیوں ہیں!!

محمد عمر فراہی

اڑتیس سالہ سلمی شمس کہتی ہیں کہ جب وہ اپنے والدین کے ساتھ ایک شادی کی تقریب میں شامل ہونے کیلئے بھارت سے پاکستان کیلئے سفر پر روانہ ہو رہی تھیں تو ان کی چھوٹی بہنوں اور سہیلیوں نے خوشی خوشی ان کے ہاتھ میں بہت سارے سامانوں کی فہرست تھما دی تھیں کہ باجی لوٹتے وقت ہمارے لئے یہ سب لے کر آنا ۔وہ فہرست آج بھی میں نے محفوظ کر رکھی ہے لیکن آج تک مجھے اپنے وطن اور اپنے گھر کی دہلیز کا منھ دیکھنا نصیب نہیں ہوا ۔ہوا یوں کہ میں اپنے جس رشتہ دار کی شادی میں شریک ہونے کیلئے پاکستان آئی تھی اسی تقریب کے دوران ایک رشتے دار نے مجھے اپنے بیٹے کیلئے پسند کر لیا ۔چونکہ جہیز وغیرہ کا کوئی مطالبہ نہیں تھا اور رشتہ بھی مناسب تھا اس لئے والدین نے اسی سفر میں میرا نکاح بھی کروا دیا اور سسرال والوں نے کہا کہ ہم بیٹی کو پاکستان کی شہریت ملنے کے بعد فوراً رخصت کر دیں گے ۔انہوں نے نکاح کے فوراً بعد متعلقہ شعبے میں شہریت کیلئے عرضی بھی داخل کر دی لیکن بیس سال کا وقفہ گزر جانے کے بعد بھی نہ تو مجھے پاکستان کی شہریت ہی مل سکی اور نہ ہی بھارت آنے کا ویزہ ۔ اس دوران میرے والدین بھی دنیا سے رخصت ہو گئے اور میں ان کا آخری دیدار بھی نہیں کر سکی ۔

وہ کہتی ہیں کہ دونوں ملکوں میں آج بھی ایک دوسرے کے خونی رشتہ دار نہ صرف ایک دوسرے سے مل کر اپنا درد بانٹنا چاہتے ہیں وہ بچیاں جو سرحد کے دونوں طرف بیاہی گئی ہیں انہیں آج بھی اپنا آبائی گھر اپنا محلہ اور آنگن میں پیپل کے پیڑے کے نیچے کھیلتے ہوۓ بچپن کے دن یاد آتے ہیں ۔ وہ جو پاکستان میں ہیں انہیں چاندنی چوک کی گلی والے پراٹھے کی خوشبو اور وہاں کے لذیذ دہی بھلے کھانے کی یاد آتی ہے ۔ان خواہشات تمناؤں اور آرزوؤں کے درمیان اب بھی بہت سی خواتین صرف اتنا چاہتی ہیں کہ وہ اپنوں کی خوشی اور غم میں شریک ہو سکیں ۔جو دنیا میں نہیں رہے ان کو دیکھ نہ سکے تو ان کی آخری آرام گاہ کی زیارت تو کر سکیں لیکن بھلا ہو دونوں ممالک کے درمیان کی سیاسی کشیدگی کا کہ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں یادیں بھی دھندلا سی گئی ہیں ان بیٹیوں کی تمنائیں بھی دفن ہوتی نظر آ رہی ہیں ۔

سلمی شمس اپنے تلخ تجربات کے بعد کہتی ہیں کہ بیٹیوں کی شادی کہیں بھی کریں بھارت اور پاکستان میں نہ کریں !

 سلمی شمس نے ہندو پاک کی دو سرحدوں کے درمیان جو کچھ مظلوم بیٹیوں کے جذبات کی روداد سنائی ہے یہ دنیا کی ہر بیٹی کا درد ہے خواہ وہ سرحد کے پار ہوں یا سرحد کے اندر ۔بیٹیاں وہ مخلوق ہیں جنھیں عمر کے ایک مخصوص حصے میں ہجرت کے ایک تکلیف دہ مرحلے سے گزرنا ہی پڑتا ہے ۔وہ چاہے دو ریاستوں کی سرحدیں ہوں یا گاؤں اور شہر کی یا دو دہلیزوں کے درمیان گلی اور محلے کا فاصلہ۔ بیٹیوں کیلئے تو ایک دیوار کا فاصلہ بھی سرحد کی طرح ہی ہوتا ہے ۔فرق اتنا ہے کہ دو ریاستوں کی سرحدوں کے درمیان تحفظ کے نام پر ایک بڑی فوج اور سفر کے مرحلے کو طئے کرنے کیلئے سفارتی پیچیدگیاں ہوتی ہیں جبکہ دو دہلیزوں دیواروں اور شہروں کے درمیان بھی اکثر رشتہ داروں کی ضد اور جہالت کے سبب بیٹیاں سالہا سال اپنے میکے کا منھ نہیں دیکھ پاتیں ۔اس کا مطلب کہ سرحدیں اتنی ظالم نہیں ہوتیں جو کہ محض ایک کاغذ اور ذہن میں بنائی گئی لکیریں ہیں ۔ظالم وہ محافظ ہوتے ہیں جو سرحدوں کی رکھوالی کے نام پر دونوں طرف کی کمزور مخلوقات پر ظلم کرتے ہیں ۔ جی ہاں بیٹیوں کا چونکہ صنف نازک سے تعلق ہے اس لئے وہ سرحدوں کے آزادانہ ماحول کے اندر بھی خاص طور سے ایک ایسے دور میں بھی مظلوم اور معاشرے کے استحصال کا شکار ہیں جس دور کو خواتین کی آزادی کا سنہرہ دور کہا جاتا ہے ۔ جس دور میں بیٹیاں بے پردہ اور آزادانہ کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور جس دور میں وہ خود کفیل ہیں اور آزادانہ طور پر کارپوریٹ اور پارلیمنٹ میں وزیر اعظم اور ایگزیکیٹیو عہدے پر بھی فائز ہوئی ہیں اس دور میں بھی باپ جب اپنی بیٹی کو نکاح کے بعد رخصت کرتا ہے تو بہت مطمئن اور بےخوف نہیں ہوتا ۔وہ سالہا سال یہ جاننے کہ کوشش کرتا ہے کہ بیٹی سسرال میں خوش تو ہے نا !! ۔خاص طور سے جدید ترقی یافتہ معاشرے میں تیزی کے ساتھ طلاق کے معاملات کو دیکھتے ہوۓ بہت سی متوسط شریف گھرانے کی لڑکیاں شادی نہ کرنے یعنی سنگل رہنے کو ترجیح دینے لگی ہیں اور ہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ تیس چالیس سال پہلے تک جہاں اندھی اور گونگی لڑکیوں کی بھی شادی ہو جاتی تھی اب پینتیس سے چالیس سال کی پڑھی لکھی خوبصورت لڑکیاں بھی کنواری ہیں ۔لوگ ایک دوسرے کو جہاں لڑکیاں دینے سے خوف کھارہے ہیں بیٹوں کا نکاح بھی بہت آسان نہیں رہا ۔شہروں میں ہر ماہ دس سے بارہ مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادی کر لیتی ہیں اور ماں باپ بھی جو بیٹیوں کیلئے مناسب رشتہ نہ ڈھونڈھ پانے کے مجرم ہوتے ہیں بالاآخر خاموشی اختیار کر لینے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مسلم معاشرہ بھی تیزی کے ساتھ معاشی معاشرتی بدنظمی اور اخلاقی زوال کی طرف گامزن ہے ۔

من مانی رسم و رواج کا اتنا زیادہ چلن ہو چکا ہے کہ جنھیں کچھ دین دار کہا جا سکتا ہے انہیں بھی مجبوراً اس لعنت میں کچھ نہ کچھ شامل ہونا ہی پڑتا ہے اور وہ چاہ کر بھی ان خرافات پر پابندی نہیں لگا سکتے تو اس لئے کہ عصاۓ موسوی کو ابلیسی طاقتوں نے اپنے قبضے میں کر لیا ہے اور حقیقی انصاف کا فقدان ہے ۔سوشل میڈیا پر سہارنپور کی ابھی حال ہی میں ایک خبر وائرل ہوئی ہے کہ ایک مولانا نے ایک شادی کی تقریب میں ڈی جے کی وجہ سے نکاح پڑھانے سے انکار کیا تو دولہا اور دلہن کے رشتہ داروں نے مل کر اس کی ماب لانچنگ کر دی ۔ اب انہیں مسلم نوجوانوں کی جب غیر مسلم بھیڑ ماب لانچنگ کر دیتی ہے تو وہ چیختے ہیں کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے –

خیر شادیوں میں سجاوٹ موسیقی ہلدی مہدی کی رسم اور دیگر اخراجات اپنی جگہ غریب اور متوسط مسلم خاندان کے لوگوں میں بھی دولہا دلہن کے ایک دن کے جوڑے پر تیس سے چالیس ہزار خرچ کرنا لازمی ہو چکا ہے خواہ اس کے لئے قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے ۔ایک ایسے نظام میں جہاں بالغ بچوں اور بچیوں کو اپنا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہو اور کچھ مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کر لیں تو قصوروار کون ہے ؟ایسے پرآشوب دور میں بھی اگر مسلمانوں کے کچھ مولوی دین کے نام پر مسلمانوں کی بھیڑ میں منہج اور عقیدے کا لالی پاپ بیچ کر فرقہ پرستی کا زہر پھیلائیں تو خود ان مولیوں کو راہ راست پر لانے کا حل کیا ہے ۔

 وعظ و نصیحت اور دعوت و تبلیغ کی افادیت اپنی جگہ جو شریفوں کیلئے تو یاددہانی کا کردار ادا کرسکتی ہے لیکن جس انسانی معاشرے سے خدا کا خوف اٹھتا چلا جا رہا ہو کیا اسے اپنے ہی لوگوں کیلئے حیوانوں سے کم خطرناک تصور کیا جانا چاہئے ۔؟ جدید لبرل ماحول میں اب جو نسل پروان چڑھ رہی ہے اسے دیکھ کر کوئی بھی باشعور انسان کہہ سکتا ہے کہ اس نسل کی اصلاح کیلئے علماء اور صالحین کی نصیحت کافی نہیں ہے اور نہ ہی دنیا کے موجودہ لبرل سیاسی نظام اور اس نظام پر مسلط حکمرانوں سے کسی خیر اور صالح معاشرے کی تخلیق کی امید بھی کی جاسکتی ہے ۔علامہ اقبال کہتے ہیں کہ خود بے اختیار صالحین کو اختیار کیلئے ایک مقصد اور نصب العین کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے ۔

Exit mobile version