Site icon

الیکٹورل بانڈز:یہ گورکھ دھندا دشمن کےلیے پھنداہے

ڈاکٹر سلیم خان

ازقلم: ڈاکٹر سلیم خان

_______________

الیکٹورل بانڈز پر سپریم کورٹ  کے فیصلے نے  قارئین کے من یہ  خواہش تو ضرور پیدا کردی ہوگی کہ  آخر اس جادو کی چھڑی میں ایسا کیا ہے جس نے بی جے پی کے وارے نیارے کردیئے؟ اسے دنیا کی امیر ترین سیاسی جماعت بنا دیا۔ یہ دراصل  کرنسی نوٹ کی طرح  سیاسی  پارٹیوں کو چندہ فراہم کرنے کی  ایک قانونی دستاویز ہے جسے کوئی بھی ہندوستانی  شہری یا  رجسٹرڈ کمپنی اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی مخصوص شاخوں سے خرید سکتی ہے اور پھر اس بانڈ کو اپنی پسند کے مطابق کسی بھی  پارٹی  کو عطیہ کیا جاسکتا ہے۔ بانڈز خریدنے والے کو بینک کو اپنے بارے میں تفصیلات فراہم کرنی پڑتی ہیں ۔ اس سے سرکار کو پتہ چل جاتا ہے کہ کس  کی رشوت موصول ہو گئی اور کون حزب اختلاف کو چندہ دینے کی غلطی کر  رہا ہے۔ اسی بنیاد پر ہر صوبائی انتخاب سے قبل ای ڈی والے مخالفین کے حامیوں پر چھاپے مارتے ہیں اورپھر مودی جی ان کی رشوت خوری کا ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے ہیں۔  چندہ دینے والے فرد یا کمپنی کا نام صیغہ راز میں رکھے  جانے کی وجہ سے رائے دہندگان  کو یہ  پتہ ہی  نہیں چل پاتا ہے کہ کس  سے  کس پارٹی کو کتنا چندہ ملا ہے۔سپریم کورٹ نے اسی  رازداری پر اعتراض کو تسلیم کرکے  اسے کالعدم قرار دے دیا نیز اس میں غیر ملکی مداخلت کا خدشہ  بھی ظاہر کیا ہے ۔

مودی سرکار 2014 کے اندر اقتدار میں آگئی اور بقول کنگنا رناوت اسی وقت  آزادی ملی۔ کنگنا رناوت کے اس مکالمہ کا مطلب  لوگ سمجھ نہیں پائے اس لیے اس کا خوب مذاق اڑایا گیا نیز اعتراض بھی جتایا گیا حالانکہ وہ غالباً کہنا چاہتی تھیں کہ لوٹ کھسوٹ کی مکمل آزادی مودی جی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی ملی۔  پہلے ڈر ڈر کے رشوت لیتے تھے اب ڈنکے کی چوٹ پر لینے لگے  لیکن اس کے لیے راہ ہموار کرنے یعنی اس کی خاطر جواز فراہم کرنے والا قانون بنانے  میں چار سال کا وقفہ لگ گیا  جیسے اصلی آزادی کے بعد آئین سازی میں لگا تھا۔آگے چل کر  دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد  قوم پرست سیاسی جماعت بی جے پی  نے ان بانڈز کی مدد سے جس چندے کے دھندے کو فروغ دیااس کا اندازہ لگانے کی خاطر الیکشن کمیشن کے ذریعہ حاصل کردہ اعدادو شمار پر ایک غائز نظر ڈال لینا کافی ہے۔

نئے قانون کے مکمل  نفاذ سے قبل سال 2018-19 میں بی جے پی کو جملہ  1450 کروڑ روپے ملے تھے۔ اگلے سال یہ رقم مذکورہ مالی  سال کے دوران فروخت ہونے والے بانڈز کی مدد سے  25 ارب 55 کروڑ روپے تک پہنچ گئی یعنی  ایک برس   میں 75 فیصد کا اضافہ ہوگیا ۔اس سال کل  33 ارب 55 کروڑ روپے کے بانڈز فروخت ہوئے تھے۔ کانگریس کی جھولی میں صرف تین ارب 18 کروڑ روپے آئے جو اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 17 فیصد کم تھے۔  موجودہ نظام میں سیاسی جماعت کی حصے داری کا اندازہ اس کو حاصل ہونے والے ووٹ سے کیا جاتا ہے۔ 2014 کے انتخابات میں بی جے پی کو جملہ 31 فیصد ووٹ ملے تھے مگر 2019 ؍الیکشن سے  پہلے ہی بانڈز میں اس کا تناسب   76فیصد سے زیادہ ہوگیا تھا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ اور اس نے اگلے الیکشن کو کس قدر متاثر کیا اس کا احتساب ہونا چاہیے۔  اس سے سبھی جماعتوں کا نقصان ہوا مثلاً ترنمول کانگریس کو تقریباً ایک ارب، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کو 29.25 کروڑ، شیو سینا کو 41 کروڑ، ڈی ایم کے کو 45 کروڑ، راشٹریہ جنتا دل کو ڈھائی کروڑ اور  عام آدمی پارٹی کو اٹھارہ کروڑ  روپیوں کے الیکٹورل بانڈز کے ذریعہ  چندہ حاصل ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو انتخابی بانڈز بکتے ہیں ان کو سیاسی جماعتوں میں حاصل کردہ ووٹ کے تناسب میں تقسیم کردیا جائے لیکن ایسی انصاف کی بات بی جے پی کے گلے کیسے اتر سکتی ہے؟

کورونا بحران کے دوران عام ہندوستانی دانے دانے کا محتاج ہوگیا تھا مگر ان کی نمائندگی کرنے والی سیاسی  پارٹیوں کی تو چاندی ہی چاندی رہی؟ الیکشن کمیشن کو پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق، مالی سال 2020-21 میں بی جے پی کو 477.54 کروڑ روپے ملے، جبکہ کانگریس کو اسی مدت کے دوران 74.5 کروڑ روپے ملے۔ انتخابی اصلاحات پر کام کرنے والی تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (ADR) کے مطابق، کارپوریٹس اور افراد سے کل 258.4915 کروڑ روپے وصول کیے گئے۔ اس میں سے بی جے پی کو 212.05 کروڑ روپے اور دیگر  تمام پارٹیوں کو الیکٹورل ٹرسٹ  82.05 کا فیصد ملا ۔ اے ڈی آر نے انکشاف کیا تھا کہ بی جے پی نے مالی سال 2019-20 کے دوران 3,623.28 کروڑ روپے کی کل آمدنی کا اعلان کیا تھا، جبکہ اسی مدت کے دوران کانگریس کی کل آمدنی 682.21 کروڈ  روپے تھی۔ 2022-2023 میں پارٹی کی آمدنی پچھلے سال کے مقابلے بی جے پی کی  تقریباً 23 فیصد بڑھ کر 2360.84 کروڑ روپے پر پہنچی  جو کانگریس  سے پانچ گنا زیاد تھی ۔ 2022-2023 میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے ذریعے کل 2800.36 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ فروخت کیے گئے۔ بی جے پی نے  اس سال فروخت کیے گئے الیکٹورل بانڈ کی کل رقم کا 46 فیصد حاصل کیا۔

اس گورکھ دھندے سے قبل  تجارتی اداروں پر اپنے منافع کا ساڑھے سات فیصد سے زیادہ حصہ  سیاسی جماعتوں کو دینے پر پابندی تھی لیکن بانڈز نے اسے بھی ختم کردیا تا کہ  شتر بے مہار کی مانند لوٹ کھسوٹ  کا بازار گرم کیا جاسکے مگر  سپریم کورٹ نے بانڈز ختم کرکےقدیم  حدود و قیود کو پھر سے  نافذ کردیا۔    الیکٹورل بانڈز کا معاملہ ویسے تو پانچ سال سے زیادہ عرصے تک عدالتِ عظمیٰ میں   معطل رہا مگراس پر آخری بحث  بہت دلچسپ تھی ۔  سرکار کے پنجرے میں قید الیکشن کمیشن نے بانڈز کی حمایت کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں کہا کہ   اس کی غیر موجودگی میں  سیاسی پارٹیاں  نقدچندہ لیں گی جبکہ  انتخابی بانڈ اسکیم میں  شفافیت  ہے۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں کیونکہ بانڈز کی موجودگی میں بھی  زور و شور سے نقد چندہ لیا اور خرچ کیا جاتا ہے ویسے بانڈز خریدنے والے کا نام  بھی چونکہ ظاہر نہیں کیا جاتا اس لیے وہاں  پرشفافیت نہیں ہے۔  سپریم کورٹ نے شفافیت پیدا کرنے کی خاطر الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ سارے چندہ دہندگان کے نام اپنی ویب سائٹ پر شائع کرے۔ اس حکمنامہ پر ایمانداری سے عمل درآمد کے بعد ممکن کسی حد تک شفافیت آئے۔

الیکشن کمیشن کے خلاف  مدعی ادارہ اے ڈی آر کی پیروی کرنے والے معروف وکیل  پرشانت بھوشن کا کہنا تھا کہ الیکٹورل بانڈ تو حکمراں جماعت کو چندے کے نام پر رشوت دے کر اپنے کام کرانے کا ذریعہ بن گیا ہے۔اس دلیل کو  عدالت عظمیٰ نے تسلیم کرنے کے بعد  یہ اضافہ کیا کہ ہمیشہ یہ رشوت کا چندہ حکمراں جماعت کو ہی نہیں بلکہ اس جماعت کو بھی  ملتا ہے جس کے مستقبل میں  اقتدار سنبھالنے کا غالب امکان  ہوتاہے ۔  یہ بات درست ہے مگر اس صورت میں بھی الیکٹورل بانڈز رشوت ہی ٹھہرتےہیں اس لیے ان کا منسوخ ہونا درست ہے۔ پرشانت بھوشن نے  یہ دلیل پیش کی کہ خود  ریزور بینک آف انڈیا نے بھی اس پر اپنااعتراض درج کرایا تھا،کیونکہ آر بی آئی کے مطابق  بانڈز کا نظام  معاشی بدعنوانی کا ایک  ہتھیار یا ذریعہ ہے۔ ریزرو بنک نےاس خطرے سے بھی آگاہ کیا کہ  لوگ بیرون ملک رقم اکٹھا کرکے  انتخابی بانڈز خرید سکتے ہیں۔

ہنڈن برگ کی رپورٹ نے یہ بات ثابت کی ہے کہ گوتم اڈانی کے بھائی نے بے شمار شیل (بے نامی ) کمپنیاں  سنگاپور اور دبئی وغیرہ میں قائم رکھی ہیں۔ اس میں چینی مالکین بھی شامل ہیں۔ وہ لوگ بانڈز خرید کر ہندوستانی انتخابات کو متاثر کرسکتے ہیں ۔ اس لیے ریزرو بنک کا ایہ اعتراض درست معلوم ہوتا ہے کہ بدعنوانی کا ایک مکڑ جال ہے۔   یہ دراصل بی جے پی  کے کالے دھن کے خلاف مبینہ مہم  کے ناٹک کو بے نقاب  کرکے اور اس  کی ساکھ پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں کا ورد کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی  کے کھوکھلے نعرے کو اس فیصلے نے تار تار کردیا ہے۔ چیف جسٹس نے دورانِ مقدمہ یہ استفسار کیا  کہ  کیا  انتخابی بانڈز خریدنے والایہ ثابت کرتا ہے کہ  اس خریدمیں استعمال  ہونےوالی رقم اس کے اعلان کردہ اثاثوں کا حصہ ہے ؟ یعنی یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ کوئی بے نامی بانڈز خرید لے۔ اے جی کے کے وینوگوپال نےجب  کہاکہ لوگ  اپنے بینک اکاؤنٹ سے چیک کے ذریعہ بانڈز خریدتے ہیں  توکورٹ  اس جواب سے مطمئن نہیں ہوا اور  مزید پوچھا کہ  کیا وہ رقم خریدنے والے کی انکم ٹیکس اعلامیہ کے تحت ہوتی ہے یا غیر اعلان شدہ اثاثہ کا حصہ؟

ان مشکل مشکل سوالات کا اے جی کے پاس تو کوئی جواب نہیں تھا مگر مدعی کے وکیل پرشانت بھوشن نے یہ  کہاکہ اکثر لوگ نقد ادائیگی سے بھی بانڈزخریدتے ہیں ،خریدار  کو بنک کے ذریعہ ایک کو ڈدیا جاتا ہے اور اس  کے ذریعہ اپنی شناخت بتا کر وہ بانڈز کا مالک بن جاتا  ہے۔ بانڈز کے ذریعہ دہشت گردوں کو مالی مدد پر سوال کیے جانے پر  سالیسٹر جنرل نے کہاکہ صرف سیاسی جماعت ہی اسے کیش کراسکتی ہے۔ سی جے آئی نے پوچھا  کہ اگر کوئی پارٹی  کسی  خفیہ ایجنڈے میں کسی دہشت گردی مہم یا  کسی احتجاجی مظاہرےمیں حصہ لینے کی مہم کا تعاون کرے تو کیا ہوگا ؟ کیونکہ کئی پارٹیوں کا غیراعلامیہ ایجنڈا بھی ہوتا  ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہناتھا کہ سبھی پارٹیاں  اپنی آمدنی  کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو دیتی ہے لیکن دن رات جھوٹ بولنے والوں  کے ذریعہ پیش کردہ  تفصیلات پر کون یقین کرسکتا ہے؟سپریم کورٹ نے  ان سارے دلائل کی روشنی میں  الیکٹورل بانڈ اسکیم  کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔ اپنے اس فیصلے  سے سپریم کورٹ نے اپنے گرتے اعتماد اور وقار کو  بحال کرنے کی ایک قابلِ ستائش کوشش کی ہے۔

Exit mobile version