نسل نو کی تربیت کے بغیر اعلی تعلیم بھی کسی تباہی سے کم نہیں !

نسل نو کی تربیت کے بغیر اعلی تعلیم بھی کسی تباہی سے کم نہیں !

محمد عمرفراہی

کہتے ہیں انسان مہذب ہو گیا ہے ۔تعلیم کا گراف پہلے سے زیادہ ترقی کر چکا ہے لیکن پھر بھی دیکھنے کو یہ مل رہا ہے کہ جہالت اپنے عروج پر ہے ۔پہلے کم پڑھے لکھے کو جاہل کہتے تھے اب پڑھے لکھے بھی اچھی تعداد میں جاہل مل جائیں گے ۔انسان زندگی کے اصل رومانس اور سکون سے محروم ہے ۔لوگوں میں گھمنڈ تکبر ریاکاری ضد جھوٹ، فریب مکاری ،حسد ، جلن ،خلش اور رنجش کا سو فیصد اضافہ ہوا ہے ۔اس کے علاوہ وہ کون سے برائی ہے جو اپنے عروج پر نہیں ہے ۔ہاں انسانوں نے ترقی تو ضرور کی ہے ۔کل وہ پیدل چلتا تھا آج ہوائی جہاز سے چل رہا ہے ۔ہر کام کی رفتار بڑھ گئی ہے بس یہی نا لیکن جس سکون اور خوشحالی کیلئے انسان نے یہ ترقی کی ہے کیا اسے یہ سب میسر ہے اور کیا یہی متمدن سماج کی تصویر ہوتی ہے ؟۔

کیا کبھی ہم نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی ہے ۔ہمارے سماج اور معاشرے میں پہلے اتنے اسکول کالج مکتب اور یونیورسٹی نہیں تھی لیکن خاندانی بزرگوں میں بچوں کی تربیت کا ایک مزاج بنا ہوا تھا ۔ہمارے پڑوس کے بزرگ بھی ہماری غلط حرکتوں پر ٹوک دیتے تھے ۔اب اسکول کالج مکتب اور یونیورسٹی کی تو بھر مار ہے لیکن پڑوسی تو دور کی بات نہ صرف والدین خود اپنے بچوں کو نصیحت کرنے سے ڈرتے ہیں خود ان کی بھی ایسی حرکتیں ہوتی ہیں کہ سب سے پہلے تو والدین بھی تربیت کے محتاج ہیں ۔جب کسی سماج سے انسانی معاشرے کی اصلاح اور تربیت کا یہ ستون منہدم ہو جاۓ تو پھر وہاں خیر نہیں شر کا بول بالا ہو گا ۔جو ہم دیکھ رہے ہیں ۔

اب ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ تربیت کیا ہے ۔کیا اپنے بچوں کی یا ایک سماج کی زبانی طور پر اصلاح کر دینا یا روک دینا ہی تربیت ہے ۔نہیں تربیت یہ نہیں ہے ۔استاد ہوں یا والدین یا دین کے داعی اصلاح اور تربیت سے پہلے ان کے اپنے کردار و عمل سے بھی اس عمل کا مظاہرہ ہونا چاہئے جو وہ دوسروں سے چاہتے ہیں ۔مثال کے طور پر اکثر ہم میں سے کچھ لوگ ہوتے گھر پر ہیں لیکن فون پر کسی سے بات کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ میں ابھی فلاں جگہ ہوں اور بچہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اس کے بڑے جھوٹ بول رہے ہیں ۔آپ جھوٹ اور چوری کی تجارت کر رہے ہوتے ہیں اور گھر میں بچے بھی جانتے ہیں کہ آپ کی تجارت مشتبہ ہے ۔یہی حال تقریباً میڈیکل ، انجینیرنگ اور اکاؤنٹس وغیرہ کے تعلیمی اداروں کا ہے جہاں بچہ اپنے بڑوں کو چوری اور فراڈ سے پیسے کماتے ہوۓ دیکھ اور سن رہا ہوتا ہے اور سند حاصل کرنے کے بعد بڑا آدمی بننے کیلئے خود بھی اسی راہ کی تلاش میں ہوتا ہے ۔یقین نہ آۓ تو نوے فیصد بڑے ڈاکٹروں اور ہاسپٹل کو دیکھ لیں جو مریضوں کو لوٹنے کیلئے طرح طرح کی تدبیر کرتے ہیں ۔باقی پرائیویٹ سیکٹر کمپنیوں اور اداروں کا حال بھی بہت اچھا نہیں ہے ۔کیا اس طرح نئی نسل کی غلط تربیت نہیں ہو رہی ہے ۔یعنی بڑوں کی تربیت میں کچھ بچے جو بے روزگار ہوتے ہیں وہ بے راہ روی کا شکار ہوتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ نئی نسل بہت بدتمیز پیدا ہو رہی ہے مگر جو برسر ر زگار یا کسی عہدے پر فائیز ہوتے ہیں تو مہذب طریقے سے لوگوں کو لوٹتے ہیں ۔سچ یہ ہے کہ ہم میں اگر کچھ اچھائی باقی ہے تو صرف اپنے آباؤاجداد کی وجہ سے جن کے یہاں بچوں کی تربیت کا ایک مزاج پایا جاتا تھا ۔اب بچوں کو پیشہ ورانہ استاد اور پیشہ وارانہ اسکول اور کالج سے اعلیٰ تعلیم کی سند تو مل جاتی ہے لیکن یہ بچے بڑوں کی اخلاقی تربیت سے محروم ہونے کی وجہ سے بہت ہی بدتمیز جارح اور بدعنوان ثابت ہو رہے ہیں ۔اب اس نئی نسل کی تربیت اور رہنمائی میں جو نسل جوان ہوگی ان کے بارے میں خیر کی پیشن گوئی کرنا بڑا مشکل ہے ۔حالات حاضرہ کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانوں کو جوہری ہتھیاروں سے خطرہ تو ممکنہ جنگ کی صورت میں ہو سکتا ہے مگر اس سے زیادہ جدید مادہ پرست نسل کے ساۓ میں انسانوں کی روز مرہ کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہوگی ۔

Exit mobile version