✍️ ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی
___________________
ہندوستان کا نام آتے ہی ایسے معاشرے کا تصور ابھرتا ہے جو رنگا رنگی ، تعدد اور تنوع میں ایمان و یقین رکھتا ہے ۔ اسی کے ساتھ یہی وہ سر زمین ہے جس میں مختلف ادیان و مذاہب اور متعدد افکار و نظریات پائے جاتے ہیں ، اسی وجہ سے ہندوستانی سماج اپنے رسوم و روایات اور مذہب و دین کے اعتبار سے خوشیاں مناتے ہیں ، کبھی یہ شادمانی مذہب و دین کے حکم کی بنیاد پر ہوتی ہے تو کبھی یہ فرحت ، رسوم و رواج کی وجہ سے ادا کی جاتی ہے ۔ ہندوستان کے اس تہذیبی ، دینی اور روایتی کلچر میں ایک چیز مشترک ہے وہ ہے بلا تفریق مذہب و دین محبت بانٹا ۔ ہر کوئی اپنی خوشی اور تہوار کے موقع پر سعی کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ محبت کو عام کیا جائے۔ سماجی سطح پر ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا جائے ۔ برعکس اس کے نفرت ، عداوت یا باہمی پرخاش کو معدوم کیا جائے تاکہ معاشرہ پر امن طریقے سے گزر بسر کرسکے ۔ یہ تمام باتیں اور سماج میں پائے جانے والے وہ عوامل جو باہمی رکھ رکھاؤ اور فکری توازن و یکجہتی کی تحریک پیدا کرتے ہیں ان سے ہندوستان جیسے ملک میں سیکولرزم مستحکم ہوتا ہے۔ جمہوریت کو تحفظ ملتا ہے۔ ہندوستان میں منائے جانے والے تہوار خواہ ان کا تعلق کسی بھی کمیونٹی ، قوم ، برادری اور مذہب و ملت سے ہو سب کا پس پردہ یہ پیغام ہے کہ زیادہ تر انسان دوستی اور سیکولر اقدار کا فروغ کیا جائے ۔
ہم 2024ء میں عید الفطر منا رہے ہیں ۔ یہ عید الفطر عالم اسلام اور حساس معاشروں کے لیے کئی وجوہ سے اہمیت کی حامل ہے ۔ ایک تو یہ کہ اس وقت اسرائیل نے اہل فلسطین پر جو مظالم اور سفاکانہ اقدامات کیے ہیں۔ جس طرح سے غزہ پٹی میں رہنے والے بوڑھوں ، خواتین ، بچوں اور نوجوانوں کو اپنی بہیمیت اور بربریت کا شکار بنایا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ چنانچہ فلسطین میں شہید ہونے والے افراد کی روحیں ہم سے ضرور سوال کریں گی کہ آپ تو عید الفطر کی خوشیاں منارہے ہیں، لیکن ہمیں بے گناہ شہید کیا جارہا تھا تو آپ کہاں تھے ؟ کیا یہ عید الفطر کی خوشیاں ہمارے حصہ میں نہیں ہیں ؟ ہمارے تمام طرح کے خوابوں کو مسمار کر دیا گیا آخر کیوں ؟ افسوس اس بات کا ہے یہ مکروہ حرکتیں ان لوگوں نے کی ہیں جو اپنے آپ کو تحفظ نفس کے علمبردار کہتے ہیں ؟ ساری دنیا خاموش ہے ۔ کاش ہم زندہ ہوتے اور آپ کے ساتھ اسی طرح خوشیاں مناتے؟ فلسطین میں شہید ہونے والوں کی روحیں یہ بھی سوال کریں گی کہ کیا آپ کو عید الفطر کی اس وقت خوشیاں مناتے ہوئے اچھا لگ رہا ہے ؟ سوال تو ان لوگوں سے بھی ہوگا جنہوں نے استطاعت کے باوجود ان کا تعاون نہیں کیا ۔ لہذا عید الفطر کے مبارک موقع پر ہمیں فلسطین پر ہورہے مظالم کا احساس تک نہیں ہے تو پھر یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ہمارا سینہ انسانیت کے درد سے خالی ہوچکا ہے ۔ ہماری روح میں پوری طرح تعفن آچکا ہے ۔ ہمیں اپنے کردار اور عمل پر نظرِ ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ فلسطین پر جس طرح مظالم ہورہے ہیں اور اس وقت اہلیان غزہ پر جو مصیبت آئی ہے وہ تو ختم ہو جائے گی، لیکن جب تاریخ لکھی جانے گی تو مؤرخ اسرائیل کوایک سفاک اور بزدل کے طور پر یاد کرے گا کیوں کہ اس نے بے قصور اور نہتے بچوں ، بوڑھوں اور خواتین کو شہید کیا ہے ۔
عید الفطر کی ایک شرعی حیثیت ہے اور یہ خوشگوار موقع اللہ تعالیٰ کی جانب سے انعام میں ملا ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے روزے رکھے اور دیگر شرعی امور کی انجام دہی نہایت پابندی سے ادا کی ۔ علاوہ ازیں عید الفطر کی ایک سماجی اور قومی حیثیت ہے ۔ ہمیں قطعی یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں عید منا رہے ہیں، ممکن ہے ہمارے پڑوس اور قرب و جوار میں برادران وطن رہتے ہوں اس لیے ہم اپنی خوشیوں میں اپنے بھائیوں کو بھی شامل کریں گے تو یقیناً اس کا فائدہ ہوگا ۔ کسی بھی فرد کو اجنبیت کا احساس ہر گز نہیں ہونا چاہیے ، خواہ اس کا تعلق کسی بھی بھی مذہب و ملت اور دین و دھرم سے ہو ۔ اسی طرح ہمارے کسی عمل سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے ۔ صرف سویاں کھالینے اور دو رکعت نماز ادا کرنے کا نام عید الفطر نہیں ہے بلکہ اس کے شرعی ، سماجی ، قومی اور بین الاقوامی جو تقاضے ہیں انہیں بحسن و خوبی انجام تک پہنچانے اور سماج میں محبت کا اظہار کرنے کا نام عید الفطر ہے ۔
ارباب بصیرت اور اصحاب فکر اس بات سے بہت اچھی طرح واقف ہیں کہ اس وقت ہندوستان جیسے تکثیری سماج کی خوبیوں ، اچھائیوں اور امتیازات کو مخصوص فکر کا حامل طبقہ تباہ و بر باد کردینا چاہتا ہے ۔ اس کے لیے وہ ہر روز نت نئے ہتھگنڈے اختیار کررہاہے ۔ منظم کاوشیں کی جا رہی ہیں ہے ۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ فکری و نظریاتی طور پر اقلیتوں خصوصا مسلم اقلیت پر تشدد و زیادتی کرکے مفلوج کر نے کی پر زور سعی ہورہی ہے ۔ کھلم کھلا نفرت و عداوت کا درس بڑے بڑے اجتماعوں ، سیاسی جلسوں اور ریلیوں میں دیا جارہاہے ،یہی نہیں بلکہ یہ طبقہ اپنے اس متشدد نظریہ پر فخر محسوس کر رہا ہے۔ ان کے اس عمل کو سد باب کرنے کے لیے ہم عید الفطر کے موقع پر محبت و دوستی کا اظہار کریں اور نفرت کے سوداگروں کو بتائیں کہ معاشرے کی ہمہ جہت تعمیر و ترقی اور عروج و اقبال کے لیے نفرت کی نہیں بلکہ محبت کی ضرورت ہے ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں وہی قومیں فلاح و بہبود پاتی ہیں جو اپنے وجود ، اپنی روایات ، اپنے کردارو عمل کو دوسروں کے لیے مثبت و متوازن بناکر پیش کرتی ہیں ۔ نفرت یا اس سے وابستہ کوئی کردار کتنا ہی خوبصورت اور دلکش انداز میں پیش کیا جائے اس کے اثرات مایوس کن اور متنفرانہ ہی ہوتے ہیں ۔ اسی طرح عید الفطر کا ایک سماجی پہلو یہ بھی ہے کہ اس موقع پر ضرورت مندوں اور محتاجوں کا خیال رکھا جائے۔ ان کی مدد کی جائے ۔
آج دنیا بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ۔ ایجادات و اختراعات اور انکشافات نے جس درجہ ترقی کی ہے وہ اپنی جگہ مسلم ہے ۔ ان ایجادات نے جہاں سماجی اور معاشرتی سطح پر بہت ساری کامرانیاں حاصل کی ہیں اس کے باوجود سماج میں جو خلیج اور انسانی ہمدردی کا جذبہ سرد ہوا وہ نہایت قابل غور ہے ۔ علاوہ ازیں اسلام نے معاشرے کو جو تعلیمات وہدایات دی ہیں ان میں آج بھی سماجی اتحاد اور قومی ہم آہنگی کے عناصر پوری طرح پائے جاتے ہیں ۔ اسلام کا کوئی تہوار ہو یا پھر اسلامی تعلیمات کا کوئی جزو ان تمام کا لب لباب اور خلاصہ یہی ہے کہ سماج سے نفرت کو مٹادیا جائے ۔ اتحاد و یگانگت کو فروغ دیا جائے ۔
عید الفطر کے اس مبارک موقع پر اگر ہم اس کے تمام تقاضوں کو پورا کریں تویہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ معاشرہ پوری طرح امن کا گہوارہ بن جائے گا ۔