مسجد کے مائک اور ہمارا رویہ
✍️ مفتی ناصرالدین مظاہری
_________________
ماہ رمضان المبارک کا اٹھائیسواں روزہ ہے، صبح کے ساڑھے چھ بج چکے ہیں یعنی ختم سحر کو دو گھنٹہ گزر چکے ہیں، آفتاب نے مشرق سے نہ صرف اپنا رخ روشن دکھا دیا ہے بلکہ اس کی ٹکیہ پر نظر جمانا مشکل ہوگیا ہے۔ مجھے کسی مسجد سے کسی شاعر کی نعت پاک فل آواز کے ساتھ نشر ہورہی ہے، یہ بیدار امت کا حال ہے، زندہ قوم کاحال ہے، ویسے بھی ابتدائے سحر سے منتہائے سحر تک تمام مساجد سے وقفہ وقفہ سے اعلانات ختم سحر کا معمول ہے، کبھی ایک مسجد سے تو کبھی دوسری مسجد سے مختلف انداز میں اعلانات مسموع ہوتے ہیں اور اس بے ڈھنگے پن پر سوائے افسوس کے کوئی چارہ نہیں ہوتاہے۔
ایک صاحب اعلان کررہے تھے کہ حضرات! پورے چار بجے چکے ہیں نہ ایک منٹ ادھر نہ ایک منٹ ادھر” ایک بار اعلان سنائی دیا کہ "پونے چار بج چکے ہیں اٹھئے سحری کھا لیجیے پھر مجھے کچھ مت کہنا” ایک دن سنا کہہ رہاتھا اااٹھئے سحری کا جگاڑ کر لیجیے”۔
لطیفہ کی بات یہ ہے کہ دہاتی لوگ اعلانات بھی دیہاتی لب ولہجہ میں ہی شروع کردیتے ہیں۔ ہمیں یا تو شعور نہیں ہے یا ہم اتنے ٹھپ ہوچکے ہیں کہ ہم کچھ سیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں، مساجد سے ختم سحر و افطار کے اعلانات کی اجازت کا مطلب یہ تو ہرگز نہیں ہے کہ غلو اور مبالغہ کے ساتھ اعلانات کئے جائیں، اب ہر شخص کی جیب میں نہیں بلکہ ہاتھ میں موبائل موجود ہے، موبائل میں ٹائم ٹیبل اسکرین پر موجود ہے بلکہ اگر آپ کے موبائل میں کشکول اردو موجود ہوتو افطاروسحر اور زندگی کی تمام بنیادی چیزیں موجود ہیں، مطبوعہ جنتر یوں، کارڈوں، پوسٹروں اور اوقات سحر و افطار میں تو کمی بیشی کا بھی امکان ہے لیکن اس ایپلی کیشن کا کمال یہ ہے کہ آپ کے گاؤں کی لوکیشن بھی ظاہر کرتا ہے اور وہیں کا کرنٹ ٹائم بتاتا ہے۔
بعض مساجد والے سحری کے وقت نعت پڑھنا شروع کردیتے ہیں، اس سلسلہ میں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ وقت نعت سننے کا ہے نہ سنانے کا، نہ ہی نعت کا یہ مقصود ہے کہ خواہ مخواہ سنائی جائے، نعت کے آداب کی رعایت ضروری ہے اور اس وقت ہر شخص کھانے پینے یا سونے جاگنے میں لگا ہوتاہے اس وقت مساجد کے مائک پر نعت پڑھنا نہ صرف وقت کا ضیاع اور مال وقف کا زیاں ہے بلکہ عوام کی تکلیف کا بھی باعث ہے، آپ جہاں یہ اعلانات کررہے ہیں وہاں بہت سے بیمار ایسے بھی ہوں گے جن کی نیند آپ کے بےہنگم شور اور بے وقت کی نعت خوانی سے اچاٹ ہوجاتی ہے ، بنوری ٹاون کراچی کے ارباب حل وعقد کا فتوی ہے کہ
"نعت خوانی کرنا جس سے لوگوں کے کاموں میں خلل ہو، بیماروں، معذوروں کو تکلیف ہو، جائز نہیں، کیوں کہ فقہاءِ کرام نے ایسی بلند آواز سے ذکر یا تلاوتِ قرآن کریم کو منع کیا ہے، جس سے کسی کو تکلیف یا تشویش ہو”آگے اسی فتوے میں تحریر ہے کہ
"اور اگر مقصود لوگوں میں نماز کی ترغیب وتشویق کو پیدا کرکے، انہیں نماز کا پابند بنانا ہے، تو یہ مقصود دوسرے وقتوں میں بھی نماز کی تلقین و ترغیب کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے”
خدا جانے ہمارے لوگ اپنی بے شعوری کا اظہار کرنے کے لئے اتنے اتاؤلے اور باؤلے کیوں ہورہے ہیں، انھیں منبرومحراب سے جو چیزیں بتائی جاتی ہیں ان پر دھیان نہیں دیتے لیکن اپنے شوق اور اپنی بات آگے رکھنے کے لئے دارالافتاؤں کی بھی نہیں مانتے ہیں۔
ہم جس ملک میں رہتے ہیں یہاں کی اکثر بستیاں ہندو مسلم پر مشتمل ہیں، رات کے ان اعلانات سے انھیں یقینا تکلیف ہوتی ہے ، عدالت اور حکومت نے کچھ عرصہ پہلے مائک پر اسی لئے پابندی لگا دی تھی کہ جہاں ایک ہارن اور لاؤڈ اسپیکر سے کام چل سکتا ہے وہاں کئی کئی رکھے تھے، عدالت نے رات گیارہ بجے کے بعد پروگراموں اور مائک کا استعمال کرنے پر بھی پابندی لگا رکھی ہے، اگر وہ ہماری عبادات کے احترام میں چشم پوشی یا درگزر سے کام لے رہی ہے تو اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں ہے کہ آپ اپنے اس عمل پر جری ہوجائیں۔ حال یہ ہے کہ یہ عمل نہ دینی لحاظ سے بہتر ہے نہ عقلی لحاظ سے سود مند۔
آپ شروع میں ہی ختم سحر کا وقت بتادیں تاکہ باربار اعلان نہ کرنا پڑے۔ ورنہ سب سے بہتر ہے کہ مظاہرعلوم وقف سہارنپور کی طرح ایک عمدہ سا سائرن لے آئیں جو شہر کے اکثر حصہ کےلئے کافی ہوجائے، اگر شہر زیادہ بڑا ہے تو دوسرے علاقہ والے اپنے یہاں بھی یہی نظم کرلیں۔ یہ سائرن شروع میں بجتایے اور پھر ختم سحر کے وقت بجتایے اور بس۔