زکوۃ کی وصولی

زکوٰۃ کی وصولی، مستحقین میں تقسیم اور QR code

تحریر: مسعود جاوید

سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین ہماری زندگی کو آسان بنانے ، ہمیں راحت پہنچانے ، ہمارے کام کو منظم اور خوب سے خوب تر بنانے، اور کم محنت میں زیادہ کام کرنے کے لائق بنانے کے لئے دن رات جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے انسانوں کو سہولیات پہنچانے کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کر رکھا ہے ۔ ان کی عرق ریزی کا نتیجہ ہے کو جو کام پہلے ہفتوں اور مہینوں میں ہوتا تھا اب وہ چند گھنٹے میں ہونے لگا ۔ انہوں نے ایسی ایسی ایجادات کو متعارف کرایا کہ عقل حیران ہے۔‌ بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوانے ، پیسے جمع کرنے اور نکالنے کے لئے گھنٹوں قطار میں کھڑے رہنے سے اس طرح نجات دلایا کہ اب سارے ٹرانزیکشن آن لائن ہونے لگے۔ اسی طرح دوسرے میدانوں میں نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے کم وقت اور کم صرفہ میں بہتر اور زیادہ کام ہونے لگا۔

ہر سال رمضان مبارک میں زکوٰۃ ادا کرنے کے تئیں صاحب نصاب مسلمانوں کے ایمانی جذبے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ قیامت قائم ہونے میں ابھی وقت باقی ہے۔

تاہم زیادہ تر زکوٰۃ ادا کرنے والے اپنے کام کی مشغولیت اور دیگر وجوہات کی بناء پر زکوٰۃ ادا کرنے کے فریضہ سے جلد از جلد خلاصی چاہتے ہیں اس لئے بغیر تحقیق ہر کسی کو کچھ نہ کچھ رقم دے کر زکوٰۃ کی پوری رقم چند دنوں میں ادا کر کے فارغ ہو جاتے ہیں۔ بڑے سرمایہ داروں اور تاجروں کے یہاں مدارس کی فہرست میں ہر سال کتنی رقم انہیں دی جاتی ہے درج ہوتا ہے اسی کی بنیاد پر ان کا متعین اسٹاف مدارس کے محصلین کو زکوٰۃ کی رقم دے کر رسید لیتا ہے۔

 مدارس کے علاوہ زکوٰۃ وصولی کے دیگر ادارے ہیں جیسے زکوٰۃ فاؤنڈیشن اور زکوٰۃ انڈیا وغیرہ ہیں۔ عموماً مدارس کی طرح ان کے محصلین نہیں ہوتے ہیں اس کی بجائے ملک کے سرمایہ داروں، تاجروں اور ملک و بیرون ملک اصحاب ثروت سے ان کی اپیل اور ذاتی رابطے ہوتے ہیں۔

زکوٰۃ کے اجتماعی نظام کی بات بارہا کی گئی لیکن کوئی حل نہیں نکلا اور اس کی متعدد وجوہات ہیں ۔

 (١) زکوٰۃ کے مصارف یعنی زکوٰۃ کی رقم کن لوگوں کو دی جا سکتی ہے اسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں مقرر کر دیا ہے۔ اس سے انحراف اور بے جا تاویل و تملیک کرنا جائز نہیں ہے۔

 (٢) اہل مدارس یعنی مسلم علماء اور مسلم دانشوروں کے درمیان سوچ میں خلیج اور ایک دوسرے کو کمتر سمجھنے کی نفسیات ۔

 (٣) بیت المال کے قیام کے لئے مدارس کے ذمے دار علماء اور زکوٰۃ وصولی کرنے والے دانشور طبقہ میں کوئی بھی کل ہند سطح کے بیت المال کے حق میں سرینڈر کرنے کے لئے شاید تیار نہ ہوں۔

آج کی بنسبت دس بیس سال قبل مرکزی بیت المال کا قیام آسان نہیں تھا۔ لیکن آج جب ہر ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے، پے فون ہے اور گوگل پے ہے۔ کیو آر کوڈ کی ایسی سہولت ہے کہ سیکنڈوں میں زکوٰۃ کی رقم منگا سکتے ہیں اور مستحقین کو رقم بھیج سکتے ہیں۔ ان تمام سہولیات کے باوجود جو رکاوٹ مجھے نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کون طے کرے گا زکوٰۃ کی رقم کن پر خرچ کی جائے؟

فقراء، مساکین، لٹے ہوئے مسافر، قرض میں ڈوبے مسلمان، بندھوا مزدور کے علاوہ ایک مصرف اعلاء کلمۃ اللہ ہے۔ علماء اسی جہاد فی سبیل اللہ کے تحت مدارس کے طلباء پر صرف کرنے کو ایک مصرف قرار دیتے ہیں۔‌

 لیکن کیا قوم کے ان بچے اور بچیوں کو جو صاحب نصاب اور خوشحال گھرانوں سے ہوتے ہیں ان کے مقابلہ جاتی امتحانات یو پی ایس سی ، نیٹ اور جے ای ای وغیرہ کی کوچنگ کے اخراجات یا ان کے ملک و بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے اخراجات زکوٰۃ مد سے پورے کئے جا سکتے ہیں ؟ شرعی طور پر اس کا جواز ہے ؟

 دراصل زکوٰۃ کے مصارف اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں مقرر کردیا ہے جو بنیادی طور پر فقراء اور مساکین ہیں، وہ ملزمین جو جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں جو مقدمات کی پیروی کرنے کا خرچ اور ماہر وکلاء کی فیس ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں اور وہ سفید پوش خوددار مسلمان ہیں جن کی گردنیں پھنسی ہوئی ہیں قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

جہاں تک قوم کے بچوں اور بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے اور مقابلہ جاتی امتحانات کے لئے کوچنگ کرانے کی بات ہے تو ضروری نہیں فقراء و مساکین کا حق مار کر ان پر خرچ کیا جائے۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے، معیاری کوچنگ کے لئے، تجارت کے لئے قرض دینے کے لئے ، علاج کے لئے اور اس قبیل کے دیگر اخراجات کے لئے امداد باہمی ہے۔ ان مصارف کے لئے زکوٰۃ کو چھوڑ کر صدقات اور عطیات کی رقم استعمال کیا جانا چاہیے ۔‌

دراصل زکوٰۃ کی وصولی آسان ہے اس لئے سب کی نظریں اسی طرف جاتی ہیں۔ مسلمانوں کی سماجی ، تعلیمی اور اقتصادی پسماندگی دور کرنے کے لئے اوقاف پراپرٹی کی شکل میں اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے کہ اگر اسے بروئے کار لایا جائے تو اس ملک میں زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ملے گا۔ عالیشان ورلڈ لیول اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی جا سکتی ہیں۔ قوم کو خود کفیل بنایا جا سکتا ہے۔ مگر ۔۔۔

اوقاف پراپرٹی کا حصول وقت طلب اور محنت چاہتا ہے جبکہ زکوٰۃ کی رقم بغیر محنت کے حاصل ہو جاتی ہے۔

Exit mobile version