✍️ معصوم مراد آبادی
__________________
مجھے نہیں معلوم کہ میں نے اس مختصر مضمون کی جو سرخی لگائی ہے وہ کسی ادبی تھیوری کے اعتبار سے درست بھی ہے یا نہیں۔ میں نہ تو نقاد ہوں اور نہ ہی ادب کا ماہر۔یہی وجہ ہے کہ بہت سی ادبی تھیوریاں میرے سر سے گزرجاتی ہیں اور میں سر کھجاتا رہ جاتا ہوں۔ایک ادنیٰ طالب علم کے طورپرمجھے ادب کے مطالعہ کا شوق ہے۔ اوریجنل اور اچھے ادیبوں کی تحریریں پڑھ کر ان سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔سب سے زیادہ مجھے اپنی زبان سے لگاؤ ہے۔ اسی لیے کوشش کرتا ہوں کہ کوئی شستہ اور شائستہ تحریر میری دسترس سے باہر نہ رہے۔بے ربط اور بے زبان تحریریں مجھے اپنی طرف متوجہ نہیں کرتیں۔
لوگ مجھے پڑھا لکھا آدمی سمجھ کر اپنی کتابیں بھی ارسال کرتے ہیں تاکہ میں ان پر اظہار خیال کرسکوں۔ حالانکہ میں کتنا پڑھا لکھا ہوں یہ ’من آنم کہ من دانم‘والا معاملہ ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہو کہ کوئی کتاب میرے دروازے پر دستک نہ دیتی ہو۔اب پانی سرسے اونچا بہنے لگا ہے۔ میں دہلی میں ایک مختصر فلیٹ میں رہتا ہوں۔ دونوں کمروں اور ڈرائنگ روم میں اتنی کتابیں جمع ہوگئی ہیں کہ بیوی کبھی کبھی ناراض ہوجاتی ہے کیونکہ اسے گھر کاضروری سامان رکھنے کی جگہ بھی نہیں ملتی۔گھر کے بیشتر حصے پر کتابوں کی حکمرانی ہے۔بہرحال یہ گھریلو معاملہ ہے جس پر مزید اظہارخیال خطرے سے خالی نہیں۔ مگر میں آج کل ایک خاص قسم کی کتابوں سے خاصا پریشان ہوں، جن کی اشاعت وبائی مرض کی شکل اختیارکرتی جارہی ہے۔ یہ کتابیں دراصل ”خودساختیات“ سے متعلق ہوتی ہیں، جو ادیب، شاعر یا صحافی حضرات اپنی مصنوعی شخصیت تعمیر کرنے کے لیے شائع کرواتے ہیں۔اس میں ہوتا یہ ہے کہ کوئی بھی ادیب یاشاعر لوگوں سے فرمائش کرکے اپنے اوپر مضامین لکھواتا ہے۔ اگر کوئی اس سے بچنے کی کوشش کرتاہے تو اس پر مختلف قسم کے دباؤ ڈالے جاتے ہیں۔ان مضامین کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ مذکورہ ادیب، شاعر یاصحافی میں ان خصوصیات کا سراغ لگانا ہوتا ہے جو اس میں سرے سے ہوتی ہی نہیں ہیں۔ ان مضامین کی سب سے بڑی خوبی ان کا جھوٹا پیرایہ بیان ہی ہوتا ہے۔ مضامین کا توصیفی ہونا پہلی شرط ہوتی ہے۔اگر کوئی مدح سرائی میں طاق نہیں ہوتا تو اس کا مضمون ایڈٹ کرکے ضروری لوازمات کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے۔
اس کام کو انجام تک پہنچانے کے لیے پہلے تو مختلف قسم کے لالچ دئیے جاتے ہیں۔ پھر دیرینہ تعلقات کا حوالہ دیا جاتاہے۔اس پر بھی بات نہیں بنتی تو مختلف قسم کے احسانات یاد دلائے جاتے ہیں کہ میں نے تمہاری فلاں کتاب پر کتنا اچھا تبصرہ لکھا تھا۔ فلاں جلسے میں تمہاری کتنی تعریف کی تھی یا فلاں سیمینار میں تمہیں سب سے پہلے مدعو کیا تھا اور ایک اجلاس کی صدارت بھی کروائی تھی۔ اتنا تو میرا حق بنتا ہی ہے کہ تم میرے اوپر ایک اچھا سا مضمون لکھو تاکہ میں بھی ادب میں ایک بڑے ادیب،شاعر یا صحافی کے طورپر اپنا نام درج کرانے کے لائق ہوسکوں۔
کچھ دن کی مسلسل جدوجہد اور خوشامد کے بعد ایک کتاب کے برابر مواد تیار ہو جاتا ہے تو اس کی بانچھیں کھل جاتی ہیں اور وہ آئینے کے سامنے کھڑا ہوکر ادب میں اپنے بلند ہوتے ہوئے قدکا اندازہ کرنا شروع کردیتا ہے۔ جیسے ہی اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اب میرا قد ادب میں سب سے بلند ہونے والا ہے تو وہ اس کتاب کو اپنی ہی جیب خاص سے چھپواکر اپنے دوستوں میں تقسیم کرنا شروع کردیتا ہے۔ پہلے یہ کام مختلف رسائل وجرائد انجام دیتے تھے اور اس خدمت کا بھرپور معاوضہ بھی طلب کرتے تھے، لیکن اب یہ کام خود ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں نے خود ہی شروع کردیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ بدعت اردو ادب میں اب عام ہوتی جارہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ لوگ اردو کے کاندھے پر سوار ہوکر صرف اور صرف اپناقد بلند کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور بے چاری اردو اپنی قسمت پر ماتم کناں ہے۔ میں نے اسے اردو میں ”خودساختیات“ کے مرض سے تعبیر کرکے کوئی غلطی تو نہیں کی۔ اگر کی ہو تو آپ مجھے درست کرسکتے ہیں۔ اردو کے راستے سے عزت اور شہرت حاصل کرکے اردو کے سینے پر مونگ دلنے والے ایسے لوگوں کو آپ کیا نام دینا پسند کریں گے، مجھے نہیں معلوم۔ بہرحال یہ اردو کے دوست تو ہرگز نہیں ہیں اور نہ ہی اردو زبان اور تہذیب کو ان سے کوئی فیض پہنچ رہا ہے۔