✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
_________________________
امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ کے رکن ، دار القرآن مدرسہ عظمتیہ نوادہ کے ناظم، استاذ الاساتذہ ، اکابر امارت شرعیہ کے معتمد ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اصلاح معاشرہ ضلع کمیٹی کے کنوینر ، جمعیت علماء بہار کی عاملہ کے رکن ، دار العلوم رحمانیہ ملت کالونی بھدونی نوادہ کے سر پرست حضرت مولانا قاری شعیب احمد صاحب نے ١٦؍ رمضان ٤٥ھ کی شب مطابق ۲۷؍ مارچ ٢٠٢٤ء بروز بدھ بوقت ایک بجے عارضۂ قلب میں اس دنیا کو الوداع کہا، سب کچھ اچانک ہوا اور آدھے گھنٹے میں زندگی کا سفر مکمل ہو گیا، ۳؍ رمضان کو طبیعت بگڑ کر سنبھل گئی تھی ، اب کے روزہ افطار ، مغرب ، عشاء تراویح کے بعد دل کا دورہ پڑا اور علاج معاملہ سے بے نیاز ہو گیے، جنازہ کی نماز اسی دن ۳؍ بجے دن میں قائم مقام ناظم امارت شرعیہ مولانا محمد شبلی قاسمی نے پڑھائی ، حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کے حکم سے تجہیز وتکفین اورجنازہ میں شرکت کے لیے جو وفد گیا تھا اس میں راقم الحروف محمد ثناء الہدیٰ اور مولانا اعجاز احمد بھی شریک تھے، ظہر کے بعد جنازہ سے قبل مدرسہ کی مکہ مسجد میں ان کے شاگردان ، معروف علماء اور قائم مقام ناظم صاحب کے ساتھ میرا بھی تعزیتی خطاب ہوا، سب نے ان کی خدمات کی تعریف کی ، انہیں ایک اچھا اور سچا انسان قرار دیا اور ان کی وفات کو ملت کا عظیم خسارہ بتایا، پس ماندگان میں سات صاحب زادگان میں طارق انور (صدر عالم) مولانا ضیاء الدین مظاہری ، مولانا محمد نظام الدین مظاہری، مولانا محمد نصیر الدین مظاہری ، قاری محمد اسامہ مظاہری ، مولانا ابو طلحہ مظاہری ، مولانا منت اللہ مظاہری اور تین صاحب زادیاں ہیں، سب کی شادی وغیرہ کی ذمہ داری سے قاری صاحب سبکدوش ہو چکے تھے، اول الذکر کے علاوہ الحمد للہ سب لڑکے حافظ قاری اور عالم دین ہیں، بڑے صاحب زادے با قاعدہ حافظ عالم تو نہیں ، لیکن خانوادہ کے دینی اثرات ان پر نمایاں ہیں، اہلیہ گذشتہ سال ۱۰؍ رمضان ١٤٤٤ھ میں انتقا ل کر چکی تھیں۔
حضرت قاری شعیب احمدبن عبد الحفیظ (م ۱۹۵۱) بن محمد یوسف کی ولادت دربھنگہ ضلع کی مشہور بستی لوام میں یکم جنوری ۱٩٤٧ء کو ہوئی، چار سال کے ہوئے تو والد کا سایہ سر سے جاتا رہا، والدہ مرحومہ نے پوری توجہ اور انہماک سے انہیں پوسا پالا ، والد سے محرومی کا احساس نہیں ہونے دیا، ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کرنے کے بعد مدرسہ امانیہ لوام دربھنگہ میں داخلہ لیا، یہاں کچھ دن تعلیم حاصل کرنے کے بعد خود ان کا شعور جاگا اور انہوں نے محسوس کیا کہ گھر پر رہ کر تعلیم جاری رکھنا ممکن نہیں ہے، چنانچہ والدہ سے اجازت لے کر اپنے ماموں زاد بھائی عثمان صاحب کے ساتھ کلکتہ کے لئے رخت سفر باندھا ، بعض مخلص کے مشورے سے دار القرآن مدرسہ عظمتیہ لورچت پور روڈ کلکتہ میں داخل ہوئے اور قاری عبد القوی صاحب اعظمی، بانی وناظم مدرسہ کی زیر نگرانی تعلیم کی تکمیل کی ، فضیلت کی سند بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے بتوسط مدرسہ امانیہ لوام حاصل کیا، قاری عبد القوی صاحب کے علاوہ جن اکابر علم وفن سے قاری صاحب کا خصوصی تعلق رہا اور آپ جن سے استفادہ کرتے رہے ان میں مولانا عبد الوحید مظاہری غازی پوری، مولانا سید محمد شمس الحق صاحب ویشالوی، مفتی مظفر حسین صاحب مظاہری ، قاری محمد مبین صاحب الٰہ آبادی ، مولانا محمد اسرائیل صاھب بھوجپوری ، مولانا قطب الدین صاحب مظاہری رحمہم اللہ کے اسماء گرامی خاص طور پر قابل ذکر یں، ان حضرات نے قاری صاحب کے اندر معرفت الٰہی کی آگ پھونکی اور دینی کاموں کو سلیقہ سے کرنے اور لوگوں کی تربیت دینی نہج پر کرنے کا شعور بخشا، ان میں سے کئی کی حیثیت قاری صاحب کے نزدیک پیر ومرشد کی بھی تھی ، جن سے انہوں نے تصوف وسلوک کے رموز سیکھے۔
تعلیم سے فراغت کے بعد آپ کی شادی اونسی ببھنگواں حال ضلع مدھوبنی کے مقصود صاحب کی صاحبز ادی سے ہوا، شریک حیات انتہائی دیندار تھیں اللہ رب العزت نے اس رشتے میں بڑی برکت دی ، سات صاحب زادے اور تین صاحب زادیاں تولد ہوئیں، اور سب دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، قاری صاحب کی خدمت میں ان کی دیندار اہلیہ کا بڑا تعاون رہا، انہوں نے بہت سارے خانگی امور سے انہیں الگ رکھ کر خدمت کا موقع دیا، کہنا چاہیے کہ دونوں کی زندگی کا مقصد رضائے الٰہی تھا، اس لیے زندگی کی پٹری پر یہ گاڑی پوری زندگی محبت والفت کے ساتھ چلتی رہی اور گھر کا جو مقصود’’ ٹینشن فری زون‘‘ ہوتا ہے وہ قاری صاحب کو حاصل رہا۔
تدریسی زندگی کا آغاز بنگلور سے کیا، پھر جہان آباد منتقل ہو گئے، قاری عبد القوی صاحب کے حکم سے پہلے بھداسی ضلع الور کی نظامت سنبھالی، اور مکتب کو مدرسہ بنا کر دم لیا ، مطبخ اور دار الاقامہ کا نظم ہوا، اور پھر قاری صاحب کے حکم سے ہی نوادہ دار القرآن مدرسہ عظمتیہ کی شاخ میں منتقل کیے گیے ، کہنے کے لیے یہ ایک شاخ تھی، لیکن کوئی انتظام نہیں تھا،قاری صاحب نے بے سروسامانی میں کام شروع کیا، پھونس کی جھونپڑی جس سے پانی ٹپک کر اندر آتا تھا، کھانے پینے کا نظم نہیں، طلبہ کہاں رکھے جائیں، مسائل ہی مسائل ، قاری صاحب نے اپنے ناخن تدبیر سے سارے مسائل حل کیے، دوسری طرف مسلکی اختلافات بھی مزاحم ، ایسے میں قاری صاحب نے پوری جرأت ایمانی سے ان حالات کا مقابلہ کیا اور دیکھتے دیکھتے اُسّر اور بنجر زمین میں عمارت سر اٹھانے لگی، آج مکہ مسجد ، مدرسہ کی شاندار اور دیدہ زیب عمارت قاری صاحب ؒ کی جہد مسلسل کی بہترین یاد گار ہے جو آباد وشاداب بھی ہے۔
قاری صاحب ؒ کو اصلاح معاشرہ کی بھی بڑی فکر رہا کرتی تھی ، بھداسی اور نوادہ کے کم وبیش پچاس سالہ قیام کے دوران بہت سارے خاندان کو رسم ورواج ، اوہام وخرافات ،غیر شرعی امور ، بے جا لہو ولعب سے کنارہ کش کرایا ، مدرسہ کے جلسوں گلیوں اور گاؤں گاؤں گھوم کر پوری حکمت عملی اور ایمانی بصیرت سے اس کام میں اپنی توانائی لگائی، بہت سارے غیر شرعی کاروبار سے لوگوں کو آزاد کرایا اور یہ سب بلند بانگ دعووں اور نعروں کے ساتھ نہیں، خاموشی سے انجام دیا، ان کی اسی فکر مندی سے متاثر ہو کر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانی صاحب ؒ نے نوادہ ضلع کی اصلاحی کمیٹی کا کنوینر انہیں نامزد کیا تھا۔
اسی طرح قاری صاحب ؒ کو امارت شرعیہ کے اکابر اور اس کے کاموں سے غیر معمولی دلچسپی تھی، اسی دلچسی کے نتیجے میں ۲۰۰۱ء میں مدارس اسلامیہ کنونشن میں ان کا بھر پور تعاون ملا، نوادہ میں وفاق المدارس الاسلامیہ کا مسابقہ قرأت قرآن دار العلوم رحمانیہ ملت کالونی میں منعقد ہوا، طلاق ثلاثہ بل کے خلاف نوادہ میں مضبوط دستخطی مہم چلی، سی اے اے ، این آر سی کے خلاف جد وجہد کابڑا مرکز نوادہ بنا ، امیرشریعت سابع کی تحریک دین بچاؤ دیش بچاؤ کے لیے ضلع میں بیداری لائی گئی اور قاری صاحب ہی کی قیادت میں ۱۵؍ اپریل ۲۰۱۸ء کو بڑی تعداد میں نوادہ کے مسلمان گاندھی میدان پٹنہ پہونچے، جب امارت شرعیہ نے اردو کے فروغ ، دینی اور عصری تعلیمی اداروں کے قیام کی تحریک بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ میں چلائی تو نوادہ میں انہوں نے زبر دست پروگرام کرایا اور وہ نوادہ کی تعلیمی مشاورتی کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے، وہ رویت ہلال کمیٹی ضلع نوادہ کے بھی کنوینر تھے۔حال میں امارت شرعیہ نے یوسی سی کے خلاف تحریک چلائی تو انہوں نے پورے ضلع کو اس کام کے لیے متحرک کر دیا۔
تعلیم قرآن اصلاح معاشرہ ، امارت شرعیہ کی تحریک سے مضبوط وابستگی کے ساتھ ساتھ ان کی خدمت کا بڑا میدان امراء کو حج پر ابھارنا ان کے فارم بھرنا ، پھر سفر حج کے لیے تربیت کا نظم کرنا بھی شامل تھا، سبھی جانتے ہیں کہ حج اسلام کا ایسا رکن ہے ، جس ک ادائیگی میں عموما کوتاہی کی جاتی ہے اور تاخیر بھی قاری صاحب نے حج کے لیے مہم چلائی اور سال بہ سال حاجیوں کی تعداد میں اضافہ کرایا، نوادہ جیسے چھوٹے ضلع سے بعض سالوں میں ڈیڑھ سو سے زائد مسلمانوں نے عزم سفر کیا، قاری صاحب کی اس محنت سے مسلمانوں میں اس رکن کی ادائیگی کے سلسلے میں بیداری آئی، یہ بھی ان کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔
ان تمام کاموں میں مشغولیت کے باوجود خود اپنی اصلاح سے بھی غافل نہیں رہے ، وہ پوری زندگی اکابر علماء کے دامن سے وابستہ رہے اور اصلاح نفس کے لیے صوفیاء کے یہاں جو اوراد واعمال بتائے جاتے ہیں، سب کا غیر معمولی اہتمام کرتے ، تھانوی سلسلہ سے قربت زیادہ تھی، چنانچہ حضرت مولانا احمد مرتضیٰ صاحب مظاہری خلیفہ مجاز حضرت مولانا شاہ اسعد اللہ صاحب ؒنے انہیں اجازت وخلافت سے نوازا، یہ اجازت زبانی بھی تھی اور تحریری بھی ، لیکن وہ عمومی طور ر لوگوں کو بیعت کرنے سے دور ہی رہا کرتے، ساری پابندیوں کے باوجود خانقاہی مزاج نہیں تھا۔
قاری صاحب کی ایک بڑی خوبی ان کی ضیافت تھی، ان کا دسترخوان بڑا وسیع تھا، وہ مہمان کے پہونچتے ہی گھر سے باہر اور مدرسہ کے لڑکوں تک کو مہمان کی ضیافت ان کے آؤ بھگت اور خدمت میں لگا دیتے ، وہ کم سخن نہیں، کم گو تھے، لیکن صائب الرائے تھے، ہم جیسے چھوٹے بھی جب نوادہ پہونچ جاتے تو ان کی کوشش ہوتی کہ کچھ اصلاحی باتیں لوگوں میں ہوجائے ، جمعہ کا دن ہوتا تو منبر ومحراب حوالے کر دیتے ،خرد نوازی اس قدر کرتے کہ چھوٹوں کو بھی اپنے بڑے ہونے کی غلط فہمی ہونے لگتی ۔
قاری صاحب سے میری ملاقات امارت شرعیہ آنے سے پہلے سے تھی ، ہم دونوں کے ایک مشترکہ ممدوح حضرت مولانا شمس الحق ؒ سابق شیخ الحدیث جامعہ رحانی مونگیر تھے، جن سے میری وطنی قربت ہے اور ان کے گاؤں کے قریب واقع مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں مدرس ہواکرتاتھا، اس لیے قاری صاحب اپنے رفقاء کے ساتھ جب بھی چک اولیاء وارد وتے تو کسی نہ کسی عنوان سے ملاقات کی شکل بن جاتی ، قاری صاحب بھی مجھ سے محبت کرتے تھے اور مولانا شمس الحق صاحب بھی، اس لیے کئی بار ایسا ہوا کہ قاری صاحب نے نوادہ میں کوئی پروگرام کرایا ، مولانا شمس الحق صاحب مدعو ہوئے تو مجھ حقیر کو بھی یاد کیا گیا، سی اے اے این آر سی مخالف تحریک میں نوادہ میرے ہی حصہ میں تھا، اس لیے ان کی صحبت اور پروگرام میں ایک ساتھ شرکت کے خوب مواقع ملے، قاری صاحب سے آخری ملاقات ہندوستان کے ’’موجودہ حالات اور ان کے حل‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے پروگرام میں ہوئی تھی، وہ تنفس کی شکایت اور دیگر عوارض کے باوجو د اس پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے، اور فکر ونظر چینل کو اس اجلاس کی اہمیت پر انٹر ویو بھی دیا تھا۔
قاری صاحب ہزاروں حفاظ ، قراء اور علماء کے استاذ اور مربی تھے، ایسی با فیض شخصیت کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا عظیم علمی ،ملی ودینی نقصان ہے، اللہ رب العزت قاری صاحب کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل کے ساتھ دار القرآن عظمتیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔