جمہوریت کا فائدہ اٹھائیں!
✍️ جاوید اختر بھارتی
______________
وقت آگیا حساب مانگنے کا، اپنا سیاسی محاسبہ کرنے کا اور معلوم کرنے کا کہ ایک جمہوری ملک میں مسلمانوں کی شناخت کیا ہے۔ یعنی 2024 کا پارلیمانی الیکشن ہورہا ہے؛ جمہوریت کا فائدہ اٹھائیں اور سیاسی طاقت بنیں-
جمہوری ملک میں ووٹ دینا بھی بہت بڑا حق ہے اور ووٹ مانگنا بھی بہت بڑا حق ہوتا ہے۔ اس سے اپنے مستقبل کو سنوارا جاسکتا ہے، اپنی بات منوائی جاسکتی ہے اور اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے راستہ ہموار کیا جاسکتا ہے، حکومت میں اپنی حصہ داری درج کرائی جاسکتی ہے، اپنے سماج کے مستقبل کو روشن کیا جاسکتا ہے، اپنے مسائل کو حل کیا اور کرایا جاسکتا ہے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سیاست ماسٹر چابی ہوا کرتی ہے، سیاسی شعور اور سیاسی بیداری سے دنیا کا ہر تالا کھولا جاسکتا ہے، یہ تو خوش نصیبی کی بات ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، یہ الگ بات ہے کہ کوئی اس کی اہمیت اور فوائد کو سمجھے اور کوئی نہ سمجھے۔ جس نے سمجھا وہ اقتدار کی دہلیز تک پہنچا اور اقتدار کا مزہ تک چکھا اور اپنے سماج کو بھی سیاسی طور پر خوب مضبوط کیا اور جس نے سیاست و جمہوریت کے فوائد و اہمیت کو نہیں سمجھا؛ وہ صرف یہی جانتا ہے کہ ووٹ کے معنی بیلیٹ پیپر پر مہر لگا دینا یا امید وار کے چناؤ نشان کے سامنے والی بٹن دبا دینا اور ایسے ہی لوگ رونا روتے پھرتے ہیں کہ ہمارا کوئی رہبر نہیں، ہمارا کوئی لیڈر نہیں کم از کم تھوڑا سا ذہن پر زور ڈالیں تو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ ہم پہلے ووٹر فہرست میں اپنا نام تلاش کرتے ہیں پھر ایک پرچی حاصل کرتے ہیں اس کے بعد قطار میں کھڑے ہوتے ہیں اس کے بعد ہم دستخط کرتے ہیں تب ہمیں بیلیٹ پیپر ملتا ہے یا بٹن دبانے کے لیے کہا جاتا ہے گویا اب ہم نے جس نشان پر مہر لگائی یا بٹن دبائی تو ہم نے یہ تسلیم کیا کہ آپ ہمارے نمائندہ ہیں، آپ ہمارے مسائل کو حل کرائیں گے ، آپ سے ہمیں صرف امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ آپ ضرور ہماری آواز میں آواز ملائیں گے، آپ ہمارے اور ہم آپ کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے اور قدم سے قدم ملا کر چلیں گے آپ کی نمائندگی کو ہم نے تحریری طور پر منظور کیا ہے،، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں اس بات کا شعور، احساس اور پہچان تو ہونی چاہیے کہ کون کتنا ہمارا ساتھ دے گا اور کون کتنا ہمارے دکھ سکھ میں شریک ہوگا ایک جمہوری ملک میں اگر 70 سال میں اتنا بھی شعور نہ آئے تو یہ بدنصیبی ہی کہی جائے گی اور ایسا شخص، ایسا طبقہ، ایسا سماج یقیناً جذباتی نعروں میں بہہ جائے گا اور جذباتی باتوں کا شکار ہو جائے گا اور ایسے سماج و طبقے کو ہر سیاسی پارٹی اور ہر سیاسی لیڈر بڑی آسانی کے ساتھ سکوں کے طور پر بھنا لے گا نتیجہ یہ ہوگا کہ مزدوروں اور بنکروں کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، کمزوروں کا حق مارا جائے گا اور ابتک یہی ہوا ہے،، اس لیے اب سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے سیاسی طور پر بیدار ہونے کی ضرورت اور روز بروز کی مصیبت اور مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور یہ سب کچھ سیاسی شعور سے ہی ممکن ہے –
اور اتفاق سے یہ موقع ایک بار پھر ملک کی عوام کو حاصل ہوا ہے یعنی ملک میں پارلیمانی الیکشن ہو رہا ہے تو ملک کے لوگوں کو موجودہ حکومت سے بھی حساب کتاب مانگنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ اپنا معاملہ بھی سامنے رکھنا چاہیے اس لیے کہ پورے ہندوستان میں جہاں درس و تدریس کے میدان میں یو پی و بہار کے چہرے نظر آتے ہیں وہیں مزدوری کرتے ہوئے بھی پورے ملک میں انہیں صوبوں کے لوگ دیکھے جاتے ہیں اور انہیں کبھی علاقائیت کے نام پر تو کبھی مختلف معاملات کی بنیاد پر سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بالخصوص مہاراشٹر و گجرات جیسی ریاستوں میں اکثر و بیشتر انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے پھر بھی مزدوروں کے تحفظ کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے اب الیکشن آگیا تو ہر سیاسی پارٹیوں سے یو پی و بہار کے غریب مزدوروں، کسانوں اور بنکروں کو سوال کرنا چاہئے کہ آپ ہمارے لیے کیا کریں گے آخر جب ہم محنت مزدوری کرنے کے لیے دوسری ریاستوں میں جاتے ہیں اور ہمارے اوپر مصیبت کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں تو وہ روزگار کے ذرائع خود ہمارے صوبوں میں میسر کیوں نہیں کرائے جاتے، مل فیکٹریاں کیوں نہیں لگائی جاتیں تاکہ ہم اپنے صوبوں میں رہکر ہی محنت مزدوری کریں اور اپنے کنبے کی پرورش کریں اس سے ہماری جان بھی محفوظ رہے گی لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ یو پی اور بہار کی عوام کی طرف سے یہ نعرہ بلند ہو نا چاہنے کہ ہمارا ووٹ اسی کو جو ہمارے حق کی بات کرے اور ہمارے علاقوں میں روزگار کے ذرائع فراہم کرائے اب فیصلہ عوام کو کرنا ہے کیونکہ سیاسی پارٹیاں تو آئیں گی لیڈران تو آئیں گے، سبز باغ دکھائیں گے، وعدے پر وعدہ کریں گے۔ اب غریبوں، مزدوروں اور ووٹروں کی ذمہ داری ہے کہ پہلے نگاہ دوڑائیں کی پانچ سال قبل کیا گیا وعدہ کتنا پورا ہوا ہے اگر صرف وعدہ وعدہ ہی رہ گیا تو اس پارٹی اور اس لیڈر کا گریبان پکڑیں اور سوال کریں کہ ماضی میں کیا گیا وعدہ آخر کیوں پورا نہیں ہوا اور جب ماضی میں کیا ہوا وعدہ آپ نے پورا نہیں کیا تو پھر کس بنیاد پر دوبارہ وعدہ کرنے لگے- جہاں تک بات مسلمانوں کی ہے تو مسلمانوں کو سیاست کی دنیا کا یتیم بچہ بنا دیا گیا ہے جب الیکشن آتا ہے تو یتیم خانوں سے نکالا جاتاہے اور الیکشن ختم ہونے کے بعد پھر یتیم خانے میں ڈال دیا جاتا ہے ایک وقت تھا کہ کانگریس کم از کم الیکشن کے ماحول میں ہی سہی مسلمانوں کو گاڑیوں میں بیٹھا کر گھمایا کرتی تھی اور آج حالت یہ ہے کہ اسٹیج پر بھی بیٹھاتے ہوئے کتراتی ہے اور دوسری سیاسی پارٹیوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے اگر سماجوادی پارٹی کی بات کریں تو وہ ایسی پارٹی ہے کہ اس کا وجود آج مسلمانوں سے بچا ہے مگر وہ بھی مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے گھراتی ہے اس کے باوجود بھی مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اخباروں کے صفحات پر لفظ سماجوادی پارٹی دیکھ لیتا ہے تو اس کا دل خوش ہوجاتا ہے،، نہ کوئی پارٹی مسلم قیادت کو ابھرنے دینا چاہتی ہے اور نہ مسلمان خود مسلم قیادت کے لئے فکر مند ہے یہ غیروں کو مسیح الملک مان لیتاہے اور مسیحا مان لیتاہے مگر اپنوں کو بی جے پی کا ایجنٹ بتانے اور ماننے لگتا ہے الیکشن کے اختتام پذیر ہونے پر پھر پانچ سال تک آنکھوں سے آنسو بہاتا ہے اور کہتاہے کہ مسلمانوں کا قائد کوئی نہیں مسلمانوں کا لیڈر کوئی نہیں اس جمہوری ملک کے مسلمانوں کا یہی حال ہے –