حج اسلام کا اساسی اور بنیادی رکن
✍️محمد قمر الزماں ندوی
استاد/مدرسہ نور الاسلام ،کنڈہ پرتاپگڑھ
_________________
حج اسلام کا ایک اہم اور بنیادی رکن ہے، جو عشق الٰہی کا مظہر اور اطاعت خداوندی کی جیتی جاگتی تصویر ہے ،حج کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ بیک وقت یہ مالی اور بدنی دونوں عبادت ہے ،اس میں انسان کو جتنا مال و دولت لگانا پڑتا ہے، اس سے کہیں زیادہ اپنے جسم کو تھکانا پڑتا ہے اور بدن کو چور چور کرنا پڑتا ہے اور یہ سب کچھ عشق خدا اور حکم خدا میں بندہ کرتا ہے۔
حج اسلام کا وہ اہم فریضہ ہے، جس میں مالی اور بدنی عبادتوں کی روح موجود ہے۔
حج زندگی میں ایک مرتبہ ہر اس عاقل و بالغ مسلمان پر فرض ہے ،جو اہل و عیال کے نام ونفقہ کے علاوہ سرزمین مکہ مکرمہ تک آمد و رفت کی قدرت و وسعت رکھتا ہو،چنانچہ اللّٰہ رب العزت کا ارشاد و فرمان ہے ،،وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ومن کفر فان اللہ غنی عن العالمین ،،۔آل عمران 79/۔۔
اللّٰہ کی عبادت کے لئے لوگوں پر حج بیت اللہ فرض ہے ،جس شخص کو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو،اور جس نے انکار کیا تو اللّٰہ تعالیٰ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ،،بنی الاسلام علی خمس شھادة ان لا الہ الااللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ وایتاء الزکوة و حج البیت و صوم رمضان ،،بخاری و مسلم۔۔۔
کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اس امر کی شہادت دینا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ،نماز پڑھنا ،زکوة دینا ،حج بیت اللہ کرنا اور رمضان المبارک کا روزہ رکھنا ۔۔۔
اس روایت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اسلام کے پانچ ارکان ہیں جن میں سے ایک حج بھی ہے ،رکن ہونا فرض ہونے کی دلیل ہے ۔۔۔
حج بے شمار رحمتوں ،برکتوں ،فضیلتوں نعمتوں اور افادیت سے لبریز عبادت ہے ۔ایک مومن بندہ جب ان فضائل و مناقب سے آگاہ ہو جائے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ استطاعت کے باوجود وہ اس فریضہ کی ادائیگی میں ذرہ برابر تامل کرے ،اس لئے کہ جب کسی چیز کی عظمت اس کی اہمیت وفضیلت اور اس کی افادیت دل پر نقش کرجاتی ہے، تو مشکل کام آسان سے آسان تر ہوجاتا ہے۔بس یہی حال حج کا ہے جو مشقتوں ،صعوبتوں اور مشکلات سے بھری ہوئی عبادت ہے،مگر اس کی خوبیاں ،اس کی نیکیاں ،اس کی سعادتیں ،اس کی برکتیں ،اس کی رحمتیں اور اس کی فضیلتیں تمام تر مشکلات پر حاوی ہیں، یہی وجہ ہے کہ تمام بندگان خدا اقطاع عالم اور دنیا کے مختلف علاقوں سے رواں دواں اور کشاں کشاں وادئ مکہ کو پہنچتے ہیں اور پھر عشق و مستی میں ڈوب کر مجذوبانہ حالت میں اس فریضہ کی ادائیگی کرتے ہیں ۔۔
حج اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری اور اس کے حضور میں خود سپردگی کا نام ہے ،اسی لئے حاجی پر لازم ہے کہ وہ حج کے دوران کسی طرح کے گناہ اور جرم و خطا کا ارتکاب نہ کرے ،نہ جنسی ،نہ اخلاقی اور نہ معاشرتی ،نہ کسی عورت پر بری نگاہ ڈالے، نہ کسی کے مال پر غلط نگاہ ڈالے، نہ کسی کی چیز اٹھائے ،نہ کسی سے لڑائی جھگڑا اور بد کلامی کرے ،بلکہ حسن معاملہ اور حسن کردار کا مظاہرہ کرے خوش گفتاری ،شیریں کلامی اور خوش کلامی کو اپنی عادت، شیوہ، اور اپنا وطیرہ بنائے ۔۔حج جنسی ،اخلاقی اور تہذیبی پاکیزگی کا ایک ربانی نصاب ہے ،اگر حاجی اس نصاب اور کورس کو مکمل کرلیتا ہے ،تو اس کا حج مکمل ہوجاتا ہے اور اگر وہ اس نصاب کو پورا نہیں کرتا تو حج کے رسوم ادا کرنے کے باوجود حج کی قبولیت سے یعنی حج مبرور کی نعمت سے محروم رہتا ہے ۔۔۔ارشاد الہی ہے ،،
الحج اشھر معلومات فمن فرض فیھن الجج فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج وما تفعلوا من خیر یعملہ اللّٰہ و تزودوا فان خیر الزاد التقوی و اتقون یا اولی الالباب ۔۔۔البقرہ 197/۔۔۔
حج کے چند معلوم مہینے ہیں ،جس پر ان مہینوں میں حج فرض ہو تو اس کے لئے جنسی عمل کرنا ،فسق و فجور کرنا،،جھگڑا کرنا ،حج میں جائز نہیں اور جو تم نیکی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے اور زاد راہ لیا کرو اور بہترین زاد راہ تقویٰ ہے اور اے عقل مندو مجھ سے ڈرو ۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من حج فلم یرفث ولم یفسق غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ۔۔ ترمذی ابواب الحج ۔۔۔
جس نے حج کیا اور نہ جنسی عمل کیا اور نہ برا کام کیا اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔۔
دوستو بزرگو اور بھائیو!!
حج کا بڑا مقام اور رتبہ ہے اور نہ کرنے والے کے لئے بڑی وعید بھی ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،،العمرة الی العمرة کفارة لما بینھما و الحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنة ۔۔بخاری ۔۔۔۔ عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے، جو ان کے درمیان سرزد ہو اور حج مبرور کا بدلہ اور جزاء صرف اور صرف جنت ہے ۔۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ من حج للہ فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ امہ،، بخاری و مسلم۔۔
جس نے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کے لئے حج کیا ،جماع اور گناہ سے محفوظ رہا تو وہ گناہوں سے پاک ہوکر ایسا لوٹتا ہے کہ ماں کی پیٹ سے پیدا ہونے کے روز پاک تھا ۔۔
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو حاجی سوار ہوکر حج کرتا ہے اس کی سواری کے ہرقدم پر ستر نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جو پیدل حج کرتا ہے، اس کے ہرقدم پر سات سو نیکیاں حرم کی نیکیوں میں لکھی جاتی ہے ۔آپ سے پوچھا گیا کہ حرم کی نیکیاں کیا ہوتی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہوتی ہے ۔۔جمع الفوائد بحوالہ مسند بزار۔۔۔
شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب کسی پر حج فرض ہو جائے تو اس کے لئے جس قدر ممکن ہو جلد از جلد اس فریضہ کی ادائیگی کی فکر کرے ،اس میں ذرہ برابر تساہلی کوتاہی اور سستی نہ کرے ،کیوں کے حج کی ادائیگی مخصوص اوقات میں کی جاتی ہے اس کے لئے دن اور اوقات متعین ہیں اور ایک وقت گزر جانے کے بعد دوسرے وقت میں لمںبا فاصلہ ہے اور اس دوران زندگی موہوم ہے ،چنانچہ جو شخص قدرت و استطاعت اور شرائط پائے جانے کے باوجود اس کی ادائیگی میں غفلت سے کام لیتا ہے، یہاں تک کہ موت آجاتی ہے اور حج کرنے سے قاصر اور محروم رہ جاتا ہے، تو ایسے لوگوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعیدیں سنائی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرما دیا کہ جس شخص کو کسی ضروری حاجت یا ظالم بادشاہ یا مرض شدید نے حج سے نہیں روکا اور اس نے حج نہیں کیا اور مرگیا تو وہ چاہے یہودی ہوکر مرے یا نصرانی اور عیسائی ہوکر مرے ۔۔دارمی۔۔
دوستو اور بزرگو!!
حج کی اپنی الگ ہی خصوصیت ہے یہ عبادت دیگر عبادات سے بعض اعتبار سے انفرادی شان کی حامل ہے ۔۔۔
حج میں بندگی اور سرافگندگی ،عاشقانہ اور مستانہ کیفیت کا جو روح پرور ماحول ہوتا ہے اس کی مثال اور نظیر دوسری جگہ نہیں ملتی ۔۔حج ایسی عبادت ہے جو صرف اور صرف صاحب استطاعت پر فرض ہے ۔۔یہ زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے جب کہ دیگر عبادات بار بار فرض ہوتے ہیں ۔چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا ،،اے لوگو! تمہارے اوپر حج فرض کیا گیا ہے تم حج کیا کرو ایک شخص نے عرض کیا ،یارسول اللّٰہ! کیا ہرسال فرض ہے؟ آپ اس سوال پر خاموش رہے ،لیکن اس نے یہ سوال تین بار دہرایا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٫٫اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تمہارے اوپر یہ ہرسال فرض ہوجاتا اور تمہیں سکت اس کی نہ ہوتی ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک میں کوئی چیز تمہارے اوپر عائد نہ کروں ،تم اس کے سوال و تفتیش سے بچو اور اجتناب کرو ،کیوں کہ تم سے پہلے والے لوگ کثرت سوال اور اپنے نبیوں کے تئیں اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئے ،جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو حتیٰ الامکان اس پر عمل کرو اور جب کسی چیز سے روکوں تو اس سے تعرض نہ کیا کرو ۔۔۔مسلم ،نسائی ابن ماجہ ۔۔۔
حج کی ایک اہم خصوصیت اور انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس کے ۔مقبول ہونے کے بعد اس کا بدلہ اور اس کی جزاء صرف اور صرف جنت ہے۔
حج کی یہ انفرادیت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام اور شریعت محمدی کی تکمیل کا اعلان ہی اس عبادت کے دوران کیا جہاں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ،،الیوم اکملت لکم دینکم الخ ۔۔۔
جن مقامات پر حج کے ارکان ادا کئے جاتے ہیں وہ ایسے متبرک مقامات ہیں کہ وہاں رسولوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت بیکراں نازل ہوا تھا ۔وہاں بعید نہیں جب حاجیوں کے قدم پڑیں گے تو ان پر بھی رحمتوں کا نزول ہوگا ۔۔
سفر حج آخرت کی یاد دلاتا ہے،کیوں کہ جب حاجی احرام باندھ لیتا ہے تو وہ گویا کفن کو اور موت کو بھی یاد کرتا ہے ۔اور میدان عرفات میں ہزاروں لاکھوں کا اجتماع روز محشر کی یاد دلاتا ہے ۔۔
حج باہمی تعارف اور اتحاد بین المسلمین کے لئے ایک بہترین ذریعہ ہے، یہ مسلمانوں کا ایسا سالانہ عالمی دینی اجتماع ہے کہ دنیا میں اس کی ایسی کوئی مثال نہیں مل سکتی، ،یہاں سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو پیغام دینا ان کو ان کی زندگی کا مقصد بتانا آسان ہے ۔۔۔۔۔
حج ملت کا ایک ایسا سالانہ اجتماع ہے ،جس میں سارے مسلمان ایک خاص عقیدہ اور جذبہ کے ساتھ بہترین دینی و روحانی فضا اور ایمانی ماحول میں ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا ہوتے ہیں اور اس سے نئی قوت اور نئی روح حاصل کرتے ہیں ،ان کے ایمان و عقیدہ میں ان عجمی تہذیبوں اور اجنبی فلسفیوں کے اثر سے یا اپنے پڑوسی ممالک اور قوموں کی تقلید کے نتیجہ میں جو کجی اور ان کے طرز زندگی اور عام عادات و اطوار میں جو فساد یا کسی قسم کی کوئی کمزوری پیدا ہوجاتی ہے وہ اس کی روشنی میں اس کی اصلاح کرتے ہیں اور ان کو اس کا موقع حاصل ہوتا ہے کہ وہ دین کو اس کے چشمئہ صافی سے اخذ کر سکیں، جو ہر قسم کی آلودگی کج روی اور تحریف سے پاک اور محفوظ ہے ۔(ارکان اربعہ)
حج کا ایک بڑا اور بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ ملت حنیفی کے امام اور مؤسس و بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تجدید تعلق کیا جائے ،ان کی میراث کی حفاظت کی جائے ،ان کی زندگی اپنے سامنے رکھ کر اپنی زندگی کا موازنہ کیا جائے، مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لیا جائے اور ان کی زندگی میں جو غلطیاں ،فساد اور تحریف و تغیر نظر آئے اس کو دور کیا جائے اور اس کے اصل سرچشمہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔ گویا حج کے مقاصد میں سے ایک مقصد اس میراث حفاظت بھی ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام نے ہمارے لیے چھوڑی ہے ،اس لئے کہ یہ دونوں ملت حنیفی کے امام اور اس کے مؤسس اور بانی کہے جاسکتے ہیں ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بھی اسی لئے ہوئی تھی کہ ملت حنیفی آپ کے ذریعہ دنیا میں غالب آئے اور اس کا پرچم بلند ہو ۔ملة ابیکم ابراھیم ۔( مستفاد از کتاب ارکان اربعہ)
حاجی جب حج کے ارکان اور مناسک پورے کرلیتا ہے تو اس کا یہ روحانی عرفانی اور ربانی سفر ختم نہیں ہوتا بلکہ جاری رہتا ہے ،وہ عشق و محبت کی درس گاہ میں جو سبق پڑھ کر آتا ہے اسے یاد کرتا اور دہراتے رہتا ہے اور یہ اس کا وظیفہ اور روحانی ضرورت بن جاتی ہے اللّٰہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو حج نصیب کرے آمین