✍️ جاوید اختر بھارتی
_____________________
ملک میں 2024 کا پارلیمانی الیکشن ہو رہا ہے، ہر سماج کے لوگ اپنی پہچان بنانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں تاکہ موجودہ حکومت رہے تب بھی اور بدل جائے تب بھی اپنی پہچان بنی رہے۔ مگر ایک مسلمان ہے جو چائے خانوں میں بیٹھ کر صرف بی جے پی کی سیٹ گھٹا رہا ہے اور خوش ہو رہاہے کہ انڈیا اتحاد کی حکومت بنے گی، جہاں تک بات بی جے پی کی ہے تو گراف گرتا ضرور دکھ رہا ہے مگر اتنا ابھی نہیں گرا ہے، جتنا مسلمانوں کو یقین ہے۔ سارے حالات اور بحث و مباحثہ سے چھن کر ایک بات سامنے آتی ہے کہ ایک بار پھر مسلمان بی جے پی کو ہرا رہا ہے اور باقی کچھ نہیں ہے-
چائے خانوں میں بیٹھ کر مسلمان تین روپئے سے دس روپے تک کی ایک کپ چائے پیتا ہے اور اسی چائے کے کپ میں اسے انڈیا اتحاد کی بڑھتی ہوئی سیٹیں نظر آتی ہیں اور ہر صوبے میں بی جے پی کی سیٹیں کم ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں ،، بی جے پی نے تو جو کیا وہ کیا مگر انڈیا اتحاد نے مسلمانوں کے ساتھ کون سی ہمدردی کی ہے؟ انڈیا اتحاد کی قیادت کرنے والی کانگریس نے مہاراشٹر، چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ کے مسلمانوں کو امیدوار بنایا کہ نہیں بنایا اور ٹکٹ دیا کہ نہیں دیا یہ نظر نہیں آتا اور خود مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کیا ہے؟ اسے خود نہیں معلوم ، سیاست کے کس چوراہے پر کھڑے ہیں یہ بھی نہیں معلوم ہے ،، برا تو ضرور لگے گا مگر سچائی یہی ہے کہ ہندوستان میں آج بھی مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو یہ سوچ کر ووٹ دیتی ہے کہ فلاں پارٹی کو پورا گاؤں ووٹ دے رہا ہے تو اسی کو ہم بھی ووٹ دیں گے ،، مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جس کا یہ ماننا ہے کہ جسے ووٹ دیا جائے تو وہ ہار گیا تو ووٹ خراب ہوگیا اور جیت گیا تو ووٹ کا صحیح استعمال ہوا ،، بحث و مباحثہ کی رفتار بڑھتی جارہی ہے ، آپس میں تلخ کلامی بھی بڑھنے لگی وقت کی بربادی بھی ہونے لگی لیکن کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ جو جیتے گا اسے بنگلہ ملے گا ، گاڑی ملے گی، ٹرین و جہاز کا کوپن ملے گا ، کام کرانے کے نام پر کروڑوں روپے کا فنڈ ملے گا ، ان کے بچے اچھے اچھے اسکول و کالج میں داخلہ کرالیں گے وہ دھنوان ہوجائیں گے لیکن کیا ہمارے اندر بھی کچھ تبدیلیاں آئیں گی، اپنی حالت کے بدلنے کا کبھی احساس ہی نہیں ہوتا، تالی بجائیں گے تو دوسروں کے لئے ، دری بچھائیں گے تو دوسروں کے لئے ، نعرہ لگا ئیں گے تو دوسروں کے لئے ، بھوک و پیاس برداشت کریں گے تو دوسروں کے لئے ، لو کے تھپیڑے کھائیں گے اور پسینہ بہائیں گے تو دوسروں کے لئے، اسی طرح سیاست کے میدان میں مسیحا مانیں تو دوسروں کو ، رفیق الملک مانیں گے تو دوسروں کو ، رہنما و قائد مانیں گے تو دوسروں کو، تو جب دوسروں کو سب کچھ بناتے ہیں اور مانتے ہیں تو وہی سب کچھ اپنوں کو کیوں نہیں مانتے۔ آج تو کوئی سیاسی پارٹی مسلمانوں کو گھاس ڈالنے کے لئے بھی تیار نہیں، سبھی پارٹیاں مسلمانوں کو یتیم خانے کا بچہ سمجھتی ہیں ، کرکٹ ٹیم کا بارہواں کھلاڑی سمجھتی ہیں۔ لیکن پھر بھی مسلمان خوش ہے۔ کوئی اپنا آجائے تو ووٹ تقسیم کرانے والا ہوجاتاہے ، بی جے پی کی بی ٹیم ہوجاتا ہے، یہ بات کب سمجھ میں آئے گی کہ مالا ہم پہنیں گے تو کم از کم اپنا بدن تو مہکے گا ،، اپنوں کو پہنائیں گے تو کم از کم اپنا سماج تو مہکے گا جب خود کا جھولا ہاتھ میں ہوگا تو اس میں جو سامان ہے اس کی جانکاری بھی ہوگی کہ کیا ہے ،، آج بی جے پی ہندوتوا کا نعرہ لگاتی ہے۔ تو اپوزیشن پارٹیاں ہی کہاں پیچھے ہیں۔ تین طلاق کے مسئلے پر سبھی پارٹیاں خاموش ، ٹرین میں قتل ہوا سبھی پارٹیاں خاموش ، مساجد ومدارس کو نشانہ بنایا جاتا ہے سبھی پارٹیاں خاموش ، کبھی پہلو خان کو تو کبھی تبریز انصاری کو مارا جاتاہے سبھی پارٹیاں خاموش۔ اور حال ہی میں اجمیر کی مدینہ مسجد کے امام کو مسجد کے اندر داخل ہوکر قتل کردیا گیا سبھی پارٹیاں خاموش،، پھر کیسے مان لیا جائے کہ اپوزیشن پارٹیاں مسلمانوں کی ہمدرد ہیں ،، یاد رکھیں ہر سیاسی پارٹی کی گائڈ لائن ہوا کرتی ہے اور ایوان کے لئے منتخب ہونےوالے افراد کو ا سی گائڈ لائن کے مطابق کام کرنا ہوتاہے۔ آپ نے نہیں دیکھا کہ پارلیمنٹ میں تھوڑا سا قوم کا درد چھلکا تو مایاوتی نے دانش علی کا پر کتر دیا تھا ،، ایک بات اور قابل غور ہے کہ جب ہم بلدیاتی انتخابات میں زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو جتانا چاہتے ہیں۔ تو پھر پارلیمانی و اسمبلی انتحابات میں مسلمانوں کو جتانے کی فکر کیوں نہیں کرتے۔ جبکہ قانون تو پارلیمنٹ اور اسمبلی میں بنتا ہے۔ عجیب حال ہے کہ لال بتی چھوڑ کر لال کارڈ کے لئے بدحواس رہتے ہیں ،، اٹھو مسلمانو! چائے خانوں اور پان پٹیوں کی سیاست اور تبصرے سے اوپر اٹھ کر سیاسی اتحاد قائم کرو! تاکہ پانچ کلو اناج کے لئے قطار میں نہ لگ کر وزارت و ملازمت کے لئے قطار میں لگنے کا موقع ملے اور اسی سے ہماری شناخت قائم ہوگی۔ تبھی ہمارا بھلا ہوگا اور مستقبل روشن ہوگا-
یاد رکھیں! کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلم قیادت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے. کسی بھی مسلم سیاسی لیڈر کا قد اونچا نہیں دیکھنا چاہتی. اس طرح سے دیکھا جائے تو سبھی پارٹیاں ایک ہی حمام میں ننگی نظر آتی ہیں اور ایوان میں تذکرہ اسی سماج کا ہوتاہے جس سماج کا ایوان میں نمائندہ ہوتاہے. ایسے بہت سے سماج ہیں جن کا سیاسی شور تھا۔ کبھی وہ بھی سب کچھ دوسروں کے لئے کیا کرتے تھے۔ مگر ان کے اندر ش اور و کے درمیان ع داخل ہوگیا جس کی وجہ سے انہیں سیاسی شعور آگیا آج سیاست ، وزارت و ملازمت میں ان کی حصہ داری ہوا کرتی ہے اور مسلمانوں کے اندر سے سیاسی شعور سے لفظ ع نکل گیا صرف شور رہ گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیکڑوں سال تک حکومت کرنے کے بعد بھی آج مسلمان سیاسی میدان سے غائب ہے۔ کبھی کسی کی بھیڑ کا حصہ بنتا ہے تو کبھی کسی کی بھیڑ کا حصہ بنتا ہے۔ خدارا اب سے ہوش کے ناخن لیں اور سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھنے سے باز آئیں اور اپنے جھنڈے و بینر کے تلے اپنی قیادت کے بارے میں غور کریں –