۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

کاش مجھے یہ نہ لکھنا پڑتا

کچھ باتیں دینی مدارس کے ذمہ داروں سے

✍️مولانا ندیم الواجدی

_______________

یہ شوال کا مہینہ ہے، عام طور پر ہمارے مدارس میں رمضان المبارک کی طویل تعطیلات کے بعد عیدالفطر کے پہلے عشرے میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز قدیم داخلوں کی تجدید اور جدید طلبہ کے داخلوں کی تکمیل سے ہوتا ہے، دل چاہا کہ اس موقع پر کچھ باتیں مدارس کے تعلق سے ہوجائیں، قارئین کرام اس تحریر کو اس جذبہ سے پڑھیں کہ اس کا لکھنے والا مدارس ہی کا پروردہ ہے اور اس نے مدارس کے حالات کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے، اس کی نگاہوں کے سامنے وہ مدارس بھی ہیں جو پورے اخلاص دیانت و امانت کے ساتھ تعلیم و تدریس میں مصروف ہیں اور جن کی خدمات سے کوئی کور چشم ہی انکار کرسکتا ہے اور وہ مدارس بھی ہیں جو محض عمارتوں کی شکل میں نظر آتے ہیں اور جہاں تعلیم و تعلم کا فقدان ہے، یہ چند سطریں جذبۂ خلوص سے لکھی گئی ہیں اور اس تحریر کو اسی جذبے کے پس منظر میں پڑھا جانا چاہیے۔
اگر مدارس عربیہ اسلامیہ کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ حفاظت دین کے مضبوط قلعے اور اشاعت اسلام کے مؤثر وسیلے ہیں تو اس میں کسی قسم کا کوئی مبالغہ نہیں ہوگا مدارس کے اس کردار کا اعتراف اب اپنے تو اپنے غیر بھی کرنے لگے ہیں، آج ملک میں تنگ نظر اور متعصب ہندو تنظیموں کی طرف سے مدارس کے خلاف جو صدائے احتجاج مسلسل سنائی دیتی ہے ، دراصل وہ مسلم معاشرے میں مدارس کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خوف زدہ ہونے کا ردّعمل ہے،اس میں شک نہیں کہ مدارس نے ہر جگہ اپنی گرفت مضبوط بنا رکھی ہے ، حد یہ ہے کہ حکومتِ ہند کی وزارت صحت کے افسران بھی پولیو کی دوا پلانے کے لیے علماء اسلام اور ذمہ داران مدارس کی اپیلوں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں، کیوںکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ علماء کی پیش قدمی کے بغیر مسلم عوام اس مہم کی معتبریت اور افادیت تسلیم نہیں کریںگے۔
ایک طرف مدارس کی اہمیت اور ہمہ گیریت کا یہ عالم ہے، دوسری طرف مسلم عوام سے علماء کی دوری دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے، اب ہمارے مدارس کے ذمہ داران عوام سے اسی وقت رابطہ قائم کرتے ہیں جب انہیں ان کے بیش قیمت تعاون کی ضرورت ہوتی ہے اور اب ایسے مواقع بھی کم آتے ہیں، بہت سے بڑے مدارس۔ بلکہ بڑے مدارس کی قید لگانا غلط ہے۔ چھوٹے چھوٹے مدرسے بھی اب مقامی امداد پر کم بھروسہ کرتے ہیں اور تعمیر و ترقی کے نام پر دبئی، کویت، سعودی عرب افریقہ، امریکہ، برطانیہ اور کناڈا کے مال دار مسلمانوں کے دروازوں پر دستک دینے میں زیادہ لطف محسوس کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عوام کے تئیں مدارس کی بے نیازی اوران کا استغناء دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔
جو لوگ مدارس کے کاموں پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ عوام تو مدارس کے اور علماء کے قریب ہونا چاہتے ہیں اور وہ اپنے ہر معاملے میں اُن ہی کی طرف دیکھتے ہیں، مگر علماء ہیں کہ اپنے خول میں بند ہوتے جارہے ہیں عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جس جگہ مدرسہ قائم ہے اس جگہ کے عوام سے ایک طے شدہ پروگرام کے تحت دوری بنا کر رکھی جاتی ہے، تاکہ وہ اس کے نظام میں دخل اندازی نہ کرسکیں، یا وہ اس کے کم زور پہلوؤں پر انگلی نہ اٹھا سکیں، حد یہ ہے کہ اگر مسلم عوام میں دینی اعتبار سے کچھ قابل گرفت عیوب پائے جاتے ہیں تو اُنھیں بھی اس خوف سے نظر انداز کیا جاتا ہے کہ کہیں وہ لوگ ناراض نہ ہوجائیں اور مدارس پر تنقید نہ کرنے لگیں، مدارس کی شوریٰ میں باہر کے لوگ زیادہ رکھے جاتے ہیں اور مقامی لوگوں میں بھی خوشامد پسند اور جی حضوری کرنے والوں کو ترجیح دی جاتی ہے، بعض مدارس تو اپنے دستوراساسی کی صراحت کے باوجود کسی مقامی شخص کو اپنی مجلس شوریٰ یا مجلس منتظمہ کا  رکن بنانا پسند نہیں کرتے، اس کے پس منظر میں صرف یہی خوف دامن گیر رہتا ہے کہ کہیں مقامی لوگ انتظام میں دخیل نہ ہوجائیں، حالانکہ مدارس کی افادیت کا دائرہ بڑھانے کے لیے مقامی افراد کو ساتھ لے کر چلنا بہت ضروری ہے، آج صورت حال یہ ہے کہ ہمارے متوسط درجے کے علمائے کرام سے بمبئی، بنگلور، مدراس اور حیدرآباد جیسے شہروں کے مسلمان زیادہ استفادہ کر رہے ہیں اورصف اول کے علمائے کرام سے برطانیہ، کناڈا، افریقہ اور امریکہ کے مسلمانوں کو زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے، جب کہ چھوٹی چھوٹی بستیوں کے مسلمان ان کی ایک جھلک پانے سے بھی محروم ہیں۔
بعض حقائق تلخ ہوتے ہیں مگر انہیں محض اس لیے نظر انداز کر دینا غلط ہوگا کہ وہ تلخ ہیں، دواؤں کی تلخی کے باوجود صحت یابی کے لیے ان کو حلق سے نیچے اُتارنا ہی پڑتا ہے، اسی اصول کو سامنے رکھ کر آج ہم نے اس موضوع پر گفتگو شروع کی ہے، مدارس کی عظمت، تقدس، اہمیت او رہمہ گیریت کے تمام تر اعتراف کے بعد ہمیں یہ کہنے میں تأمل نہیں کہ اب مدارس کو صنعت کا درجہ حاصل ہوگیا ہے، صورت حال یہ ہے کہ اب ایک مدرسے کے پہلو سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا مدرسہ جنم لے رہا ہے، حد یہ ہے کہ ایک ایک گاؤں میں دوتین مدرسوں، ایک ایک قصبے میں چار پانچ، ایک ایک شہر میں دس بیس مدرسوں کا ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ پھر بھی یہ صورت حال گوارا کی جاسکتی ہے اگر یہ تمام مدارس مربوط ہوں، اور ان کادائرۂ کار محدود ومنقسم ہو، بدقسمتی سے ہر مدرسہ جامعہ (یونیورسٹی) اور ہر مکتب دارالعلوم ہے، منافست اور مسابقت کے نام پر رقابت اور رقابت کے نام پر سطحی اختلاف کا دور دورہ ہے، ہر مدرسے میں موقوف علیہ، اور دورے کی تعلیم ہے، خواہ طلبہ کی تعداد دو چار سے متجاوز نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ دن بہ دن معیار تعلیم رو بہ زوال ہے، اساتذہ اور ذمہ دار حضرات ان طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لیے سختی سے اس لیے گریز کرتے ہیں کہ کہیں یہ معدودے چند طلبہ بھی گھبرا کر رخصت نہ ہوجائیں رخصت ہوجانے والے طلبہ کے لیے درمیان سال میں بھی بہت سے دروازے کھلے رہتے ہیں، پڑوس کا مدرسہ انہیں بخوشی قبول کر لیتا ہے، طلبہ کی تعداد بڑھانے کے لیے مدارس کی سرگرمیوں کا نظارہ کرنا ہو تو شوال کے مہینے میں دیوبند کا سفر کر لیجیے، یہاں در و دیوار پر ضرورتِ طلبہ کے اشتہارات معلق نظر آتے ہیں اور ان میں طرح طرح کی سہولتوں اور وظیفوں کا اعلان پورے زور وشور کے ساتھ کیا جاتا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ ان کے مدرسوں میں داخلہ لے سکیں، اس کے لیے نہ کوئی ضابطہ رکاوٹ بنتا ہے، نہ وضع قطع دیکھی جاتی ہے، نہ صلاحیت پرکھی اور جانچی جاتی ہے، ہر طالب علم کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی جماعت میں داخلہ لے لے، حد یہ ہے کہ سال دوم اورسال سوم کے طالب علم درمیانی جماعتوں کی خلیج عبور کر کے سال ہفتم اور سال ہشتم میں پہنچ کر فارغ التحصیل ہوجاتے ہیں، تعلیمی معیار کی بلندی کی خاطر مدارس میں داخل ہونے والے طلبہ کے لیے ضابطوں کو سخت تر بنانے کی ضرورت ہے، جیسا کہ دارالعلوم دیوبند میں ہے، یہاں چھان پٹھک کر طلبہ کو لیا جاتا ہے اور اب کچھ ایساضابطہ بنا دیا گیا ہے کہ سفارش کے راستے تقریباً مسدود ہوگئے ہیں، صرف باصلاحیت طلبہ ہی کامیابی کی بنیاد پر داخل ہوتے ہیں، بسا اوقات کامیاب طلبہ بھی تقابل کے ضابطوں کی سختی کے باعث محروم رہ جاتے ہیں، جب کہ یہ غلط ہے ہرکامیاب طالب علم کو داخل ہونے کا حق ہے، اس کے لیے رہائش گاہوں، اور درسگاہوں کی تنگی اور اساتذہ کی کمی کو بہانہ نہ بنانا چاہیے، اس لیے کہ دارالعلوم کو اللہ تعالیٰ نے وسائل کی جس بے پناہ دولت سے نوازا ہے اس کے پیش نظر یہ عذر کچھ زیادہ قابل قبول نہیں ہے۔
بات مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد کی چل رہی تھی، بعض بستیوں میں یہ تعداد خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے، خود دیوبند میں دیدہ اور نادیدہ مدرسوں کی تعداد سینکڑوں سے پار کر چکی ہے، کئی مدرسوں میں درس نظامی کی تعلیم ہے، دو تین مدرسے ایسے ہیں جو بڑے مدرسوں سے نکالے جانے والے حضرات نے قائم کر لیے ہیں، کئی مدرسے اس لیے قائم کیے گئے ہیں کہ ان کے بانیین کو ان مدارس کے مستقبل سے خوش گمانی نہیں ہے جن سے وہ اس وقت وابستہ ہیں، یہ صورت حال صرف دیوبند ہی میں نہیں ہے بلکہ ہر جگہ یہ نظارہ عام ہے، کسی بھی مدرسے میں ذمہ داروں یا استاذوں کا اختلاف ایک اور مدرسے کا سنگ بنیاد رکھوا دیتا ہے۔ یوپی کے ایک قصبے میں اس طرح کے تنازعات نے کم از کم دس بارہ مدارس قائم کرا دیئے ہیں، تقریباً ہرمدرسے میں دورۂ حدیث تک تعلیم ہے۔
تقسیم دارالعلوم کے قضیہ نامرضیہ کے بعد اب یہ رجحان عام ہورہا ہے کہ مدارس کے بانی اور مہتمم زمینوں اور عمارتوں کو سرکاری دفاتر میں اپنے یا اپنے بچوں کے نام رجسٹرڈ کرا رہے ہیں، کیونکہ انہیں یہ خوف دامن گیر ہے کہ کہیں فریق مخالف ان کے مدرسے پر قابض نہ ہوجائے، اگر زمین کی ملکیت اپنے نام ہوگی تو قبضہ آسان نہ ہوگا اور اگر قبضہ ہوبھی گیا تو عدالتی کارروائی سے انخلاء ممکن ہے، یہ رجحان مذموم ہے اور اس کی بیخ کنی کی جانی چاہیے ورنہ قوم کے سرمایہ سے چلنے والے یہ مدرسے ذاتی ملکیت بن کر رہ جائیں گے۔
اہل شہر کی مداخلت کا خوف مدارس کے بانیین کو شہر سے کئی کئی میل دور مدرسے قائم کرنے پر اکسا رہا ہے، جہاں ہرطرح کی تنقید اور ہر طرح کی دخل اندازی سے بے نیاز ہوکر کام کرنے کا لطف ہی کچھ اور ہے، حالانکہ یہ مدرسے عوام کے لیے بن رہے ہیں، ان کی صلاح و فلاح کے لیے قائم کیے جارہے ہیں، انہیں کے درمیان ہونے چاہئیں تاکہ ان کے بچے زیادہ سے زیادہ ان مدرسوں میں تعلیم حاصل کر سکیں اور وہ خود بھی اپنے دینی معاملات میں آسانی کے ساتھ ذمہ داروں سے رجوع کر سکیں، الا یہ کہ شہروں میں مناسب جگہوں کا فقدان ہو، عوام سے مدارس کی دوری اور بے نیازی اچھے مستقبل کا پیش خیمہ نہیں ہے، اس پر سنجیدہ غور وفکر کی ضرورت ہے۔
آج مدارس پر عام مسلمانوں کی زبان طعن دراز سے دراز تر ہوتی جارہی ہے، اس کی کچھ ایسی وجوہات ہیں جن میں سے بعض غلط فہمی پر مبنی ہیں اور بعض ناقابل تردید حقائق پر، وجوہات کچھ بھی ہوں ان کے ازالے کی ضرورت ہے۔ مدارس کا قدیم شعار سادگی رخصت پذیر ہے، آج چھوٹے چھوٹے مدرسے سر بہ فلک اور عالی شان عمارتوں کا مجموعہ نظر آتے ہیں، شان دار اور بلند و بالا محرابی دروازے، پرشکوہ دفترِ اہتمام اور ضرورت سے زیادہ وسیع اور منقش محراب ومنبر اور دیوارودر پر مشتمل مسجدیں، مہتممین حضرات کا کر وفر، مدرسین اور طلبہ کی مسکینی اور لاچاری، یہ مناظر کسی بھی شخص کو کچھ نہ کچھ کہنے پر اکساتے رہتے ہیں، ضرورت ہے کہ مدرسوں کی تعمیرات میں سادگی اور پختگی ملحوظ ہو، مہتمم حضرات اسلاف کا نمونہ بنیں اور عوام کی خیرات و زکوٰۃ کا معتد بہ حصہ تعمیراتی عجوبوں کے بجائے نادار طلبہ اور ضرورت مند اساتذہ پر خرچ ہو، ذمہ دار ان کو اپنے نظام کو صاف و شفاف اور کھلا بنانا چاہیے، تاکہ کسی کو انگلی اٹھانے کی ضرورت نہ پڑے، یہ عام اعلان ہونا چاہیے کہ کوئی بھی مسلمان کسی بھی وقت یہ دیکھ سکتا ہے کہ ہم کہاں سے کتنا لا رہے ہیں اور کس جگہ کس قدر خرچ کر رہے ہیں مدارس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دارالعلوم دیوبند کے مالیاتی نظام کو اسوہ اور نمونہ بنا کر چلیں، جہاں بڑے منصوبے شوریٰ کی مرضی کے بغیر قابل عمل نہیں ہوتے اور معمولی معمولی اخراجات کے لیے بھی اہتمام کی منظوری لازمی ہوتی ہے، اور ہر چھوٹے بڑے شخص کو حسابات کا گوشوارہ داخل کرنا پڑتا ہے، دارالعلوم جیسے مدارس میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی بھی شخص چاہے کتنا بھی بااثر کیوں نہ ہو اپنی مرضی سے رقم نکال کر خرچ کرسکے جب کہ چھوٹے مدارس میں مہتمم حضرات ہی سب کچھ ہوتے ہیں، ہرمواخذے سے بے خوف اور ہر طرح کی جواب دہی سے آزاد اور بالا تر  !
عام طور پر مدارس کو جوچندہ حاصل ہوتا ہے اس کی ایک بڑی مقدار زکوٰۃ اور صدقات واجبہ پر مشتمل ہوتی ہے، جن کا مصرف بلا شبہ غریب و نادار طلبہ ہوتے ہیں لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ زکوٰۃ سے حاصل ہونے والا بڑا سرمایہ تعمیرات پر بے دریغ خرچ کیا جارہا ہے، کہیں تملیک کرکے اور کہیں تملیک کے بغیر، ہونا یہ چاہیے کہ اس سرمایہ سے طلبہ کے طعام و قیام اور وظائف وغیرہ کا معقول و بہترین نظم کیا جائے اور اسے ان کی ضروریات پر خرچ کیا جائے۔ گجرات کے مدارس کو چھوڑ کر ہر جگہ ابھی تک کھانے اور رہنے کا وہی پرانا نظام چلا آرہا جو اَب سے سو ڈیڑھ سو برس پہلے قائم ہوا تھا، کیا اس میں تبدیلی ممکن نہیں ہے جب کہ زمانے کے تقاضے بدل چکے ہیں اور طبائع آسائش پسند اور آرام طلب ہوگئی ہیں، اگر طلبہ کے سونے کے لیے ہر کمرے میں تخت یا پلنگ پچھائے جائیں یا ان کے کھانے میں دال اور شوربے کے ساتھ ساتھ چاول اور سبزی اور گاہے بہ گاہے مرغ و ماہی بھی شامل کی جائے تو کیا اس نظام سے کسی دینی اصول کی خلاف ورزی لازم آئے گی؟ ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: