ہم اسے فکری پستی کی انتہا سمجھتے ہیں
✍️ ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
____________________
ہم اسے اپنی فکری پستی ، علمی زوال اور سیاسی مغلوبیت کی انتہا سمجھتے ہیں کہ جس زمانے میں مسلم ممالک میں اسلامیت و مغربیت کی علمی ، تعلیمی ، تہذیبی و تمدنی اور سیاسی و عسکری کشمکش کا جائزہ لینے ، احتساب کرنے اور حل پیش کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ ضروری ہو گئی ، اس وقت لوگ یہ بحث کر رہے ہیں کہ اس موضوع پر 53 سال پہلے کسی عالم کی لکھی گئی کتاب پڑھنا چاہیے یا نہیں، داخل نصاب ہونا چاہیے کہ نہیں۔
جب یہ بحث شروع ہوئی تھی اس وقت ہم نے ایک مختصر سی تحریر سپرد قلم کیا تھا ، اور جو کچھ اس میں لکھا تھا ، تازہ صورت حال نے اسے مزید صاد کر دیا ، ذیل میں وہ تحریر پھر پیش کر رہا ہوں :
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی۔۔۔۔
"مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش” مفکر اسلام رحمہ اللہ کی مشہور کتاب ہے ، جس کو ان ہی کی کتاب ماذا خسر العالم کے تکملہ و تتمہ یا ضمیمہ کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے ۔ عہد جدید میں فکر اسلامی پر جو بہترین لٹریچر وجود میں آیا اس میں یہ کتابیں بے حد معروف و مقبول ہیں۔ یہ شرح عقائد یا روایتی علم کلام کی کتاب نہیں بلکہ فکر اسلامی اور جدید علم کلام سے متعلق ایک کتاب ہے ، اس کتاب پر ہنگامہ آرائی سے پہلے فکر اسلامی کے موضوع کا مطالعہ ضروری ہے ، جس سے عہد جدید کا گٹھل دماغ یقینا ناواقف ہے ، کیونکہ اب یا تو پڑھنے کا رواج ہی نہیں، یا پھر اب بھی بس مخصوص پرھائی کو ہی کافی سمجھ لیا جاتا ہے ۔
مولانا فکر اسلامی کے ترجمان و شارح تھے ، کسی مخصوص حلقہ و مکتب فکر کے ترجمان نہیں تھے ، کسی مخصوص فکر و حلقہ کی طرف ان کی نسبت کرنا ان کی شخصیت کے ساتھ نا انصافی یا مولانا کی کتب اور ان کے افکار سے ناواقفیت کی دلیل ہے ، یہ درست ہے کہ مولانا نے فقہی و کلامی زاویے سے کبھی بھی جمہور کا دامن نہیں چھوڑا ، یہ بھی درست ہے کہ سلوک و تربیت میں وہ ہمیشہ اکابر علماء دیوبند سے وابستہ رہے ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ وقت کی ضرورت کے پیش نظر آزاد رہ کر کام کرتے رہے ، ان کا اپنا اسلوب تھا ، وہ نقد و نظر میں بھی منہج اعتدال کو برتتے تھے ، جماعت اسلامی ، تبلیغی جماعت کی تاسیس میں شریک رہے ، آخر تک ان کے اسٹیج سے اسلام کا پیغام سناتے رہے ، انھوں مجلس مشاورت میں بھی حصہ لیا ، پیام انسانیت کی تحریک بھی بپا کی ۔ ان کی یہ جامعیت و ہمہ جہتی بھی ان ہی اکابر کی تربیت کا نتیجہ تھی جن سے وہ وابستہ اور جن کے خاص طور پر فیض یافتہ رہے ، مولانا کو ، ان کے اسلوب و افکار کو سمجھنے کے لیے مولانا رائے پوری اور مولانا احمد علی لاہوری کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔
بہرحال یہ بھی اچھا ہی ہوا کہ مولانا کی دیوبندیت سے وابستگی کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی انھیں ترجمان دیوبندیت نہ سمجھنے کا اظہار کر ہی دیا گیا ، جس میں بہرحال لوگوں کے لیے سامان عبرت ہے ، وقتا فوقتا اظہار تو یہاں بھی ہوتا رہا ، جب مولانا کی شخصیت کا طوطی بول رہا تھا ، دنیا بھر میں وہ بھارت کے واحد نمائندہ شمار کیے جا رہے تھے ، اس وقت بھی مخصوص و معدود نفوس قدم قدم پر ان کے کاموں کی مخالفت کر رہے تھے، ان کی خود نوشت کاروان زندگی میں ساری تفصیلات ہیں، لیکن مولانا کے مخصوص معتدل و مہذب اسلوب میں ہیں ، جسکو ہما شما سمجھ بھی نہیں سکتے ، محرم راز یا بین السطور پڑھنے والے ہی وہاں پہنچ سکتے ہیں ، رہ گیا پڑوس کا معاملہ تو وہاں کی مسلکی تنگ نظری و فکری تشدد نے درجنوں جید علماء کی بلی چڑھائی ہے اور ان کے خون سے بدترین تاریخ لکھی ہے ، اس سلسلے میں آل سعود اور وہابی طرز فکر سے بڑی مماثلت ہے ، یہی حال سعودیہ کا رہا ، ایران سے کشمکش رہی تو مکتبات شیعہ کی تکفیر کرنے والی کتابوں سے بھر گئے ، اخوان سے تعلقات استوار رہے تو پورے ملک اخوانی علماء اور لٹریچر کا طوطی بولتا رہا ، لیکن کروٹ بدلی تو مکتبات سے تکفیری لٹریچر اٹھا لیا گیا ، اخوانی لٹریچر کو دہشتگرد لٹریچر بتایا گیا ، مولانا مودودی ہوں یا مولانا علی میاں ایک طرف تو فیصل ایوارڈ سے نوازے گئے ، لیکن مرور زمانہ کے ساتھ دہشت گردی کو پرموٹ کرنے والے مصنفین میں شمار کر لیے گئے ۔ یہ تو صرف ایک کتاب کے نصاب میں داخل کیے جانے کا معاملہ ہے ، انھوں نے تو ایک دو جملے بھی کبھی برداشت نہیں کیے اور لوگوں کی جان کے پیچھے پڑ گئے ، مملکت خداداد کی تباہی میں اس شدت پسندی کا بڑا کردار رہا ہے ، اسلام کے نام پر ہزاروں مسلمانوں کی لاشوں پر تعمیر ہوئے اس ملک میں اسلام ہمیشہ بیچارہ اور اجنبی ہی رہا ، اسلامی نظام اور مغربی باقیات کی کشمکش ایک طرف رہی ، مسلکی و نظریاتی تشدد نے کبھی اسلامی نظام و نصاب کے بارے میں سوچنے کا موقع ہی نہ دیا ، اب اگر وفاق کے صدر عالی قدر کو نئے علماء میں یہ شعور پیدا کرنے کی فکر ہوئی تو سب ان کے درپہ آزار ہو گئے۔ مفتی تقی عثمانی مدظلہ کو گرچہ دنیا ترجمان دیوبند سمجھتی ہے لیکن مخصوص حلقہ ان کی یہ حیثیت قبول نہیں کرتا ، یہ الگ بات کہ وہ ہمیشہ ہی دیوبند اور اکابر دیوبند کے فضائل بیان کرتے رہتے ہیں، اور بڑی حد تک اسی فکر کی نمائندگی بھی کرتے ہیں، ہمیں یاد ہے کہ تعمیر حیات کے علی میاں نمبر میں انھوں نے مولانا علی میاں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ لکھا کہ انھوں نے ندوہ کو پھر سے ایک مدرسہ بنایا ۔ ظاہر ہے کہ یہ ندوہ کے متعلق وہ غلط تصور ہے جو عرصہ سے رائج ہے۔ لیکن بہرحال اسکے ساتھ ہی مفتی صاحب کے یہاں کچھ فکری توسع بھی پایا جاتا ہے ، فکر اسلامی سے بھی ان کی وابستگی ہے ، کیونکہ ان کا فکری شجرہ حضرت تھانوی اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی سے ملتا ہے ، اور یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ آزادی و تقسیم ہند کے بعد حلقہ دیوبند میں حضرت تھانوی اور شیخ الہند کے افکار کی جگہ مخصوص جمعیتی طرز فکر نے لے لی ، جسکے نتیجے میں آج فکر اسلامی کی اس جیسی نمائندہ کتاب پر بھی احتجاج جاری ہے ، ایسے پرخطر حالات میں ایسی ہلکی بحثوں، ایسی بے اعتمادی، باہمی احترام کی کمی ، اور ایسی عدم برداشت و شدت پسندی پر سوائے ماتم کے اور کیا ہی کیا جا سکتا ہے ، اللہ عقل سلیم دے اور صراط مستقیم پر قائم و دائم رکھے ۔