کرایہ داروں سے گزارشات
✍️ مفتی ناصر الدین مظاہری
___________________
ہیلو! میں عبداللہ بول رہا ہوں، مجھے ایک مسئلہ پوچھنا ہے کہ میں نے اپنے مکان کا نیچے والا حصہ کرایہ پر دے دیا، کرایہ دار ایک مدت تک کرایہ دے کر رہتا رہا، اب مجھے اپنے بچے کی شادی کرنی ہے اس کے لیے رہنے کا نظم کرنا ہے، کرایہ دار سے مکان خالی کرنے کے لئے بولا تو اس نے صاف منع کردیا اور کہا کہ خالی کرنے کے دس لاکھ روپے لوں گا، اب میں کیا کروں؟ میں نے جواب دیا کہ پولیس میں استغاثہ دائر کرو، کہنے لگا وہاں کرایہ دار نے پہلے ہی جیب گرم کر رکھی ہے، اس لئے پولیس بالکل نہیں سن رہی، میں نے کہا کہ دارالافتاء سے فتوی لے لو اور اسے وہ فتوی دکھا دو ،جواب دیا کہ وہ فتوی کیسے مانے گا اس کا پورا کاروبار سود پر مشتمل ہے، جوا اور سٹہ کا بڑا کاروباری ہے، رات کو شراب پی کر ہنگامہ آرائی کرتاہے، مرنے مارنے کی دھمکیاں دیتاہے، میں نے کہا عدالت میں کیس کردو، جواب دیا کہ کیس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں لیکن عدالتیں وقت اتنا لگادیتی ہیں کہ انسان کا روپیہ بھی خوب ضائع ہوتا ہے اور پیسہ بھی اور انصاف ملے نہ ملے۔
یہ کسی ایک عبداللہ کی کہانی نہیں ہر گھر کی کہانی ہے، میرے ایک واقف کار ہیں پارک سرکس کلکتہ میں، وہ کہنے لگے کہ مجھ سے میرے کرایہ دار نے مکان کاایک حصہ خالی کربے کے دس لاکھ روپے لئے تھے، میں نے کہا گویا جتنے دئے تھے وہ سارے لے لئے، بولے نہیں جناب اس کے کرایہ کی کل رقم ایک ڈیڑھ لاکھ ہی ہوئی ہوگی۔
دارالعلوم دیوبند مظاہرعلوم وقف سہارنپور یہ دونوں ہندوستان کے قدیم مدارس ہیں ان کے پاس اپنے اوقاف ہیں، لیکن حکومت کی طرف سے کرایہ داری کا جو نظام اور قانون ہے وہ ایسا ہے کہ مالک مالک نہیں رہتا کرایہ دار مالک بن بیٹھتا ہے، کرایہ اتنا کم کہ اس سے زیادہ بچے چیز کے نام پر والدین سے یومیہ پیسے لے لیتے ہیں۔
دونوں ادارے کرایہ داروں کی بے اعتدالیوں، بدمعاشیاں، سینہ زوریوں سے تنگ آچکے ہیں، اپنی مرضی سے کرایہ بڑھانہیں سکتے، دکان یا مکان خالی نہیں کراسکتے، خالی کرنے کوئی تیار ہوجائے تو اچھی خاصی رقم کا مطالبہ ہوتا ہے۔
شرعا مکان یا جائداد اس کے مالک کی ہی ہے اور حسب معاہدہ جب چاہے خالی کرالے لیکن قانون نے بے دست وپا کررکھا یے، بعض کرایہ دار تو کسی دوسرے کو بغیر اجازت کے دکان یا مکان زیادہ روہے لے کر تھما دیتے ہیں، بہت سے لوگ بلاضرورت جائداد کو اپنے قبضہ میں رکھتے ہیں تاکہ مستقبل میں کام آسکے، حالانکہ حکومت اپنی اراضی طاقت کے زور پر جب چاہتی ہے خالی کرا لیتی ہے بلکہ طاقت کے زور پر جب چاہتی ہے دوسروں کی املاک پر بھی بلڈوزر چلا دیتی ہے، مکان مالکان آہ کریں تو جیل میں اور خود محلہ کے محلہ غیرقانونی غیر اخلاقی طور پر گرا دیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
جائز ناجائز، حلال وحرام یہ سب چیزیں ان کے لئے ہیں جنھیں خوف خدا ہے، ان پر کیا اثر پڑے گا جو جانتے ہی نہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔
پہلے ان بے دینوں، دین بیزاروں، اسلامی تعلیمات سے یکسر محروموں کو دین پر لانے کی کوشش کی جائے، حکومت سے کرایہ داری کے قانون میں ترمیم کی درخواست کی جائے، ورنہ اب وقت آگیا ہے کہ لوگ ضرورت مند شریفوں کو بھی کرایہ پر مکان ودکان نہیں دے رہے ہیں کیونکہ انھیں خطرہ ہے قبضہ کا، خطرہ ہے یکمشت رقم کے مطالبہ کا۔
کل ہی ایک صاحب کہنے لگے کہ میرا کرایہ دار مکان خالی کرنے کے دس لاکھ روپے مانگ رہا ہے اور میں نے اس کو ایسے وقت میں سہارا اور چھت دی تھی جب اس کے پاس پورے شہر میں بیگ رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی، کرایہ دار یہ بھی کہتا ہے کہ "یا تو دس لاکھ روپے دے کر مجھے گھر سے بے گھر کردے یا تو ہی دس لاکھ روپے لے لے اور خود گھر سے باہر نکل لے”.
حضرت مولانا شیخ محمد یونس رحمہ اللہ مظایرعلوم میں شیخ الحدیث تھے، جو کمرہ مدرسہ کی طرف سے مفت میں ان کے زیراستعمال رہتا تھا، حضرت پابندی سے اس کا بھی کرایہ ادا فرماتے تھے، بجلی اور پانی کے پیسے بھی دیتے تھے اور کبھی بھی دیواروں میں ایک کیل بھی نہیں ٹھونکنے دی، فرماتے تھے یہ مال وقف ہے اس میں اپنی مرضی سے تصرف کی شرعا اجازت نہیں ہے۔
کرایہ داروں کو چاہئے کہ معاہدہ پورا ہونے پر دکان یا مکان خالی کردیں ورنہ باہمی رضامندی سے اگلا معاہدہ طے کرلیں۔ ملکیت مالک مکان کی ہے مرضی اسی کی چلے گی۔