دین اور مسلمان (۴)

مسلم حکومتوں کی پراۓ نام حکمرانی تک کم سے کم اقوام عالم بہت سے فتنوں سے محفوظ رہی مگر اچانک کل یگ یعنی مشینی دور کا جو دھماکہ خیز آغاز ہوا یہ صورتحال بیسویں صدی کے انسانی معاشرے کیلئے بہت ہی مختلف اور حیرت انگیز رہی ہے ۔ جنھوں نے سائیکل , بیل گاڑی اور ڈولیوں پر کہاںروں اور مزدوروں کو دلہن لے جاتے ہوۓ دیکھا تھا ان کے لئے اچانک کار ریڈیو ٹیلی فون موبائل ٹی وی اور ہواؤں میں اڑتے ہوۓ فولادی پرندوں کی چیخ کسی عجوبے سے کم نہیں تھی ۔لیکن بہت جلد ایک نسل کے خاتمے سے پہلے ہی ان جدید ایجادات کے جو بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں ہم یہ کہنے کیلئے مجبور ہیں کہ مسلم سلطنتوں کا دور ہی تاریخ عالم کا ایک سنہرا دور تھا ۔اس دور کے خاتمے کے بعد جہاں مغربی اقوام قلمی اور عسکری طور پر دنیا کے اقتدار پر غالب آئی اس انقلاب نے عام انسانوں کو تو حیرت میں ڈالا ہی اس نئی تبدیلی نے اہل ایمان کے ایک بہت بڑے جہاندیدہ اور عبقری شخصیات کے اذہان کو بھی متاثر کیا ۔عام پڑھے لکھے دانشور حضرات کا بھی خیال ہے کہ مغرب سے آنے والا یہ انقلاب ان کی تعلیمی بیداری کی وجہ سے آیا لیکن یہ بات بالکل غلط ہے ۔قدرت نے کچھ بنیادی چیزوں کا الہام جیسے کہ اپنے دفاع کا اختیار اور اپنے رزق کے حصول کا طریقہ اپنی دیگر بے زبان مخلوقات پر الہام کر دیا ہے وہ چیزیں عام انسانوں کو بھی الہام کر دی گئی ہیں جس کیلئے تعلیم شرط نہیں ہے اور اسے کسی مکتب اسکول کالج اور یونیورسٹی جانے کی ضرورت نہیں لیکن تعلیم اور ہنر اس لئے لازمی ہے تاکہ اپنے دفاع اور تحفظ کیلئے زیادہ سے زیادہ اختیارات پر قابض ہوا جاسکے مگر جب کسی قوم کا شعور ہی مردہ ہو جاۓ اور اس کی سوچ ہی یہ بن جائے کہ اسے مالک نہیں نوکر بن کے یا کسی کے ماتحت رہ کر اپنے دین پر عمل کرنا ہے تو یہ نہایت ہی مضحکہ خیز بات ہے کہ وہ دیندار بھی ہے ! ۔انیسویں صدی میں یہ حادثہ بدقسمتی کے ساتھ جس کے ساتھ ہوا وہ رسول عربی کی امت ہے ۔وہ دین دین کیسے ہو سکتا ہے جو بغیر کسی اختیار کے کسی اور عقیدے اور نظریے کی قیادت کرنے والوں کے ماتحت ہو !!

اقبال نے انہیں حالات کے تحت یہ کہا تھا کہ
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

دین کا تصور امارت اختیار حاکم اور حکم کے بغیر بے معنی ہے ۔مگر جنھیں یہ ضد ہے کہ اسلام کا وجود بحیثیت دین جدید سرمایہ دارانہ لبرل طرز سیاست کے لادینی نظریے کی بنیاد پر قائم آئین کے ماتحت رہ سکتا ہے اس کی ایک تصویر ہم اپنے پچھلے مضامین میں دکھا چکے ہیں کہ کیسے دین جمہوریت کے ماتحت ملت اپنی سیکڑوں ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کے ساتھ تفرقوں میں بٹ کر ملت نہیں رہی ۔اس جمہوری آزادی کے تحت سیکولر ممالک میں مسلمان اتنا آزاد ہوا کہ نماز نہ پڑھنے اور زکواۃ نہ دینے کیلئے بھی آزاد ہے یا اس کی من مانی پر اب کوئی ریاست اور اس ریاست کا امیر جو اب نہیں رہا زکواۃ نہ دینے والوں کے خلاف جنگ کا اعلان بھی نہیں کر سکتا ۔بدقسمتی سے بر صغیر میں اب اسلام کے نام پر جو کچھ بھی نظر آرہا ہے وہ رسول کا دین نہیں بلکہ بیسویں صدی کے اکابرین کا دین ہے جو بہت سارے خرافات اور رسم و رواج کے ساتھ اپنی اصل شناخت ہی کھو چکا ہے ۔نئی نسل جو سیرت النبی اور قرآنی تعلیمات سے واقف نہیں ہے وہ بالکل ان فتنوں میں غرق ہوتی جارہی ہے جو حالات بنی اسرائیل کے فراعنہ کی حکومتوں میں تھے ۔

مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ پچھلے سو سالوں کے جمہوری دور میں کیسے حلالہ کے ذریعے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔مسجدوں مدرسوں کے ذریعے جہاں نماز روزے اور زکواۃ کے نام پر تجارت ہو رہی ہے۔ حج اور عمرہ جیسی عبادات جو مومن اپنی مغفرت اور توبہ کیلئے انجام دیتا ہے اس میں بھی خلوص کا فقدان ہے ۔مسلسل مالی بحران سے گزر رہے دینی اداروں کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے اہل ایمان نہ صرف مسجدوں کی تعمیر کیلئے مشتبہ اور ناجائز رقومات سے بھی پرہیز نہیں کرتے مدارس میں استعمال ہونے والی زکواۃ کی آدھی رقومات مدارس کے ذمہ داران ہی کمیشن کے طور پر کھا جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک شرعی نظم اور حکومت نہ ہونے کی وجہ سے موجودہ جمہوری نظام میں خود مسلمانوں کی اکثریت زکواۃ نہ دینے کا بہانہ تلاش کرتی ہے اور سودی لین دین سے بھی بچنا اس لئے محال ہے کہ اکثر تجارت اور گھر وغیرہ کی خریداری میں انکم ٹیکس سے بچنے کیلئے بھی بینکوں سے قرض لینا مجبوری ہو جاتی ہے ۔۔شہروں میں کچھ ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جا رہا ہے کہ وہ گاؤں دیہات سے غریب لڑکی لا کر گھروں میں کام کرواتے ہیں اور سال میں زکواۃ کے پیسے سے تنخواہ جوڑ کر اس کے سرپرستوں کو بھیج دیتے ہیں ۔اس طرح کے لوگ جو زکواۃ کے ایک بڑے حصے کو حیلے بہانے سے خود ہی کھا جاتے ہیں ان کا جرم کیا قرآن‌ میں بیان کئے گئے سبت کے واقعے کے مترادف نہیں ہے ۔

اس کے باوجود رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر اللہ تعالی کی مہربانی یہ ہے کہ وہ اسے بندر اور سور نہیں بناتا مگر ہر طرف سے جو اس کے اوپر رسوائی اور ذلت کا عذاب مسلط ہے اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ جس امت کو دین قائم کرنا تھا وہ جب دین کی غلط تعبیر کی مرتکب ہوئی تو ٹھیک سے نماز اور زکواۃ کا نظم بھی قائم کرنے سے بھی قاصر رہی اور امت مسلسل انتشار کا شکار ہے ۔

Exit mobile version