Slide
Slide
Slide

سید شاہ ہاشم علی سبزپوش

✍️ ڈاکٹر خوشتر نورانی (امریکا)

________________________

اخلاق و سیرت:
حضرت سیدہاشم علی سبزپوش گوناگوں خوبیوں اور عمدہ خصوصیتوںکے مالک تھے- بڑے ذہین اور ذکی تھے،قوت حافظہ بھی حیرت انگیز تھی،تواضع و انکساری، متانت و سنجید گی،جودت وسخاوت میں قابل تقلید تھے،علم و تحقیق،شعر وفن، فکر وادب میں نمایاں حیثیت کے حامل تھے- عصری علوم کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اوراردو تینوں زبانوں سے واقف تھے ،تاہم اردو زبان میںمشق سخن کیا کرتے- اپنے سے چھوٹے یہاں تک کہ ملازم سے بھی اونچی آواز اور سخت لہجے میں کلام نہ کرتے ،کردار و عمل سے وقار جھلکتا تھا اور رفتار و گفتار سے تمکنت عیاں ہوتی-اپنی بات منوانے پر مصر نہیں ہوتے-زور دے کر اپنی خواہش کا اظہار کبھی نہیں کرتے – یہ اہل خانہ کی اکثرذمہ داری ہوتی تھی کہ ان کی بات سمجھ جائیں- ایسا بھی نہیں کہ ان کو ناگوار نہ گزرتا ہو،اس شکل میںکچھ کہنے کے بجائے وہاں سے اٹھ جاتے اور خاموش ہوجاتے- غلطی کرنے والا خواہ کتنا بھی نقصان کرکے آیا ہو؛ لیکن اگر معافی مانگ کر اعتراف کرتا تو اس کو پسند بھی کرتے اور معاف فرمادیتے- اپنے نقصان ہونے پر بھی صلح کرلیتے اوردوسرے کی خوشی کو افضل رکھتے- ناراض کم ہوتے اور اگرکبھی ہوتے توگوشہ نشین ہوجاتے اور پھر جلد ہی اس پر قابو پاجاتے- ناموری اور شہرت پروری سے حد درجہ نفرت کرتے، سب کے لیے دست تعاون دراز کرتے- ضرورت مندوں،قرض لینے والوں اور سائلوں کو نام و پتا کچھ پوچھے بغیر عطا کردیتے اور اپنے و بیگا نے اور موافق و مخالف کا فرق و امتیاز نہ رکھتے-
آپ کے صاحبزادے سید دانش علی سبز پوش فرماتے ہیں:
’’ابا! اپنے دوستوں میں بہت مقبول تھے-جیسے جیسے میری عمر بڑھی اور تجربات کا دائرہ  وسیع ہوتا گیا،میں نے پایا کہ جس بھی مزاج کا شخص ملا ، اس نے ان کی ہمیشہ تعریف کی ،خواہ وہ دوست ہو ،غیر ہویا کہ مخالف ہی ہو-اکثر لوگوں نے یہ بھی کہا کہ بابو نے جو میرے ساتھ اچھائی کی ہے، اسے بس میں جانتا ہوں اور وہ جانتے تھے-میں نے صرف اپنی بات کہی تھی ، سوال نہیں کیا تھا اور انہوں نے میری مدد کی-‘‘ ( دار فانی سے کامیاب آئے ،ص: ۲۷)
گونا گوں خوبیوں اور کمالات سے آراستہ و پیراستہ ہونے کے باوجود آپ نے یہ کہہ کر منصب سجادگی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ میرے اندر اس کی اہلیت نہیں ہے، اور نہ ہی میں اس بار گراں کا متحمل ہوں-آپ گو کہ ظاہری طور پر سجادہ نشین نہیں تھے، لیکن معنوی طور پر ضرور سجادہ نشین تھے،سجادہ نشینی کی جملہ خوبیاں اور خصوصیات آپ کے اندر کامل طور پر موجود تھیں،لیکن آپ نے کمال خاک ساری سے انکار کر دیا اور اپنی ظاہر داری اور اخفائے احوال کے پردے میں باطنی فضل و کمال کو ہمیشہ چھپائے رکھا-
حضرت مفتی عبید الرحمن رشیدی فرماتے ہیں کہ :
’’ حضرت ہاشم بابو اپنی ولایت و درویشی پر پردہ ڈال کر دنیا اور اہل دنیا سے رخصت ہوگئے اور کسی کو اپنی عظمت و رفعت کا احساس بھی نہ ہونے دیا-‘‘
خانقاہی معالات میں حد درجہ محتاط تھے، آداب خانقاہ سے موروثی طور پر واقف تھے- جب تک اور جتنے دن خانقاہ رشیدیہ میں قیام کرتے،معتقدین کے خورد و نوش کے سارے اخراجا ت وقت رخصت اپنی جیب سے ادا فرماتے اور یہ طریقہ آپ کو اپنے والد اور شیخ سے حا صل ہوا تھا کہ آپ کا بھی یہی طریقہ اورعمل تھا –
بڑے رئیس اور صاحب جائدادتھے، گورکھ پور کے نامور رئیسوںاور امیروں میں شمار ہوتے تھے؛ لیکن اس پر کبھی نازاں نہ تھے-ملکی و غیر ملکی احوال کی خبر رکھتے،حالات حاضرہ پر نظر رکھتے اوربرمحل تبصرہ فرماتے -اصول پسند اورحق گو تھے،حکمت آمیزی اور مصلحت پسندی کا وصف آپ کی ذات میں وافر تھا-مردم شناسی میں مہارت رکھتے تھے -بے نفس انسان تھے، حرص و طمع سے دور و نفور تھے،نام و نمود اور عزت و شہرت سے احتراز فرماتے- کسی کی دل شکنی سے سخت پرہیز فرماتے،یہاں تک کہ دشمنوں کے ساتھ بھی خوش اخلا قی سے پیش آتے-
آپ کی عالی ظرفی کا ایک واقعہ ملاحظہ کریں:
ایک مرتبہ آپ سفر کر رہے تھے، ساتھ میں امین احمد صاحب بھی تھے،یہ آپ کے والدکے مرید و خادم تھے- رکشے سے چل رہے تھے،۱۰ ؍روپے پر کرایے کی بات طے ہوئی،جب آپ نے ۱۵؍ روپے نکال کر دیے تو امین صاحب نے کہا کہ حضرت!۱۰؍ روپے میں کرایہ طے ہوا ہے اور آپ ۱۵؍ روپے دے رہے ہیں؟آپ نے فرمایا کہ رہنے دو،بے چارا کافی محنت سے کھینچ کر لایا اور پہنچایا ہے –
پروفیسرجمال نصرت صاحب کا بیان ہے کہ:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ باٹا کے شوروم سے نیا جوتا خریدا اوراسے وہیں پہن لیا-پرانا جوتا ڈبے میں بند کرکے ساتھ لیتے آئے اور جو سب سے پہلے مناسب آدمی ملا،اس کو دے دیا- جب میں نے کہا کہ ابھی تو وہ اچھا تھا،آپ پہنتے!کہا کہ اسی لیے دے دیاکہ اچھا تھااور اس لیے بھی کہ مجھے دوجوتے کی حاجت نہیں-
حضرت دانش علی سبزپوش فرماتے ہیںکہ:
رحمت خداوندی پر آپ کو یقین کامل تھا-اپنی جیب کا آخری روپیہ بھی اگر وقت پڑے تو بچوں پر یا کسی غیر پر خرچ کردیتے تھے-ان کا فلسفہ یہ تھا کہ آج کا کام چل گیا-اب کل کے لیے اللہ پر چھوڑ دو، وہ پورا کرے گااور پورا ہوتا بھی تھا،اکثر یہ شعر پڑھتے   ؎
دیکھ سکتا نہیں ساقی میری محرومی کو
جام خالی نہیں ہوتاہے کہ بھر دیتا ہے 
ایک بار کا ذکر ہے کہ کسی مقدمے اور تعمیر کے سلسلے میں کا فی خرچ ہوچکا تھا-آسیہ بی بی اور فوزیہ بی بی (دختران حضرت شہید )کی شادیاں ہو چکی تھیں- معروف میاں،یافث میاں ، دانش میاں اور واصل میاں تعلیم کے سلسلے میں گورکھپور سے باہر تھے-فارم سے شکر میل کو دیے گئے گنوں کی رقم نہیں مل سکی تھی اور سب کو یونیورسٹیوںاور ہاسٹلوں کی فیس بھی بھیجنی تھی،آپ فکر مند تھے،چاہتے تھے کہ آم کے باغ کی فصل کچھ پہلے ہی فروخت کرکے کام چلایا جائے، جو ممکن نہیں ہوپارہا تھا-خیر جو بھی پاس میںتھا،اسے حضرت شہید کے صاحبزادے واصل میاں کے لیے سب سے پہلے بھیج دیا اور کہا کہ اللہ ضرور انتظام کرے گا-
اسی اثنا میں یہ ہوا کہ کسی کو آپ نے ایک بڑی رقم کئی سال قبل دے رکھی تھی اور اس کا تقاضابھی کبھی نہیں کیا تھااور نہ گھر میں لوگوں کو اس بات کا علم تھا-دفعتاً وہ آگئے اور بہت خوش تھے- آپ اندر سے ملنے آئے تومعلوم ہوا کہ ان صاحب کو کاروبار میں فائدہ ہوا ہے اور وہ واجب الادا رقم سے زیادہ دینا چاہتے تھے-آپ نے ان کو بہت دعائیں دیں،ان کی مٹھائی قبول کی اور تحفہ بھی، اور اپنے پاس سے بھی ان کو کچھ کپڑے دیے اور پوری بات بتائی اور کہا کہ آج بہت ضرورت تھی اور وہ رقم شاید میں نے آپ کو اسی دن کے لیے دی تھی کہ وہ آپ مجھے اس وقت واپس کریں جب مجھے خود درکار ہو-یوں تو پیسہ ہے کہ میرے پاس رکتا ہی نہیں ہے،مگرآپ نے بس اتنی ہی رقم واپس لی، جتنی دی تھی-
آپ تمام پیسے خرچ کردینے کے عادی تھے-چوںکہ بڑی جائدا دکے مالک تھے،اس لیے ربیع، خریف،باغات،شکر میل،باڑہ،بازار اور دیگر جگہوں سے پورے سال پیسے آتے رہتے تو کام بھی چلتارہتا-آپ وکالت تو کرتے ،مگر فیس نہیں لیتے یا پھر اپنے مؤکل کو خوش کرنے کے لیے کچھ نام کے لیے رکھ لیتے، جس کو وہ اپنے منشی کو دے دیتے-مؤکل تو زیادہ تر ملنے والے اور عزیز ہوتے ، اس لیے وہ ایک کامیاب وکیل نہ ثابت ہوسکے،کیوں کہ فیس نہ لینے کی وجہ سے مؤکلین سمجھتے کہ شاید یہ ہمارے کیس میں دلچسپی نہیں لیں گے، جب کہ آپ بلا کے ذہین اور قانونی دقائق سے خوب واقف تھے اور اکثر وکلا آپ سے مشورے لیتے-
کاشت کاری میں بڑی دلچسپی تھی،ٹریکٹر جب اتنے عام نہیں ہوئے تھے،ایک خریدا گیا اور اکثر خود اس کو چلاتے اور کھیتوں کو اچھا سے اچھا بنانے کی کوشش کرتے-گھر کے لوگ کہتے بھی کہ آپ کو زیب نہیںدیتا ،مگر کہتے کہ میں اپنا کام کر رہاہوں اور میں کرسکتا ہوں توکیوں نہ کروں؟
مہمان نوازی کا شوق آپ کے اندر خوب تھا، ضیافت میں کافی لطف محسوس کرتے،      مہمانوں کی خوب قدر کیا کرتے-آپ بلند اخلاقی ،علم دوستی، انسانیت پروری اور غم خواری میں اپنے وبیگانے سب کی نظر میں محبوب و مقبول تھے- سیددانش علی سبزپوش فرماتے ہیں :
’’ابا کے ایک ہندو دوست وصال کے وقت آئے،ابھی نماز جنازہ نہیں پڑھائی گئی تھی،کہنے لگے کہ دانش میاں! جو شخص یہاں لیٹا ہوا ہے،ان کا مقابلہ میں کسی سے بھی نہیں کرسکتا، بلکہ مقابلہ کرنا ہاشم بھائی کی توہین ہے -‘‘
ملازموں کا خیال:
آپ ضرورت مندوں کا حد درجہ خیال رکھتے،جس کا عالم یہ تھا کہ آپ کی رات کے خدمت گار سمیع اللہ اور د ن کے راج دیو جو عرصے سے( جب سے آپ کی ریڑھ کی ہڈی میں ضرب آیاتھا اورصاحب فراش ہوگئے تھے)آپ کی دیکھ ریکھ کر تے تھے-ان دونوں کو اچھی تنخواہ دیتے ،کھانے کی جو بھی چیز ہوتی وہ دیتے اور دونوں کو زمینیں بھی دینے کو کہا- حضرت دانش بابو جو آپ کی ہڈی کی شکایت کے بعد فارم کا کل انتظام دیکھتے تھے،آپ کی ہرخواہش اور خوشی کا خیال رکھتے،ان دونوں ملازموں کو زمین دیے جانے کا بھی فیصلہ ہو چکا تھا؛ لیکن ایک روز کیا جی میں آیا کہ کہا کہ’’ میری خواہش ہے کہ میں خود ہی ان دونوں کو زمین لکھ دوں،گو کہ مجھے تمہاری سعادت مندی پر یقین ہے-‘‘پھر حضرت دانش بابونے اپنے والد صاحب کی خواہش کو مانتے ہوئے اس پر عمل در آمد کرادیا-
سادہ لوحی:
حضرت مصطفی علی شہید کے دامادپروفیسرجمال نصرت کا بیان ہے کہ میں جب دیوریا میں تعینات تھا اور اکثر میٹنگوں میں وہاں سے گورکھپور آنا ہوتا تو میں کبھی کبھی ایک روز قبل ہی آجاتا ، اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے افسر(ماتھرصاحب) کو خبر نہ ہو، ورنہ وہ بلا لیں گے اور بچوں کے سلسلے کے کام اور بازار کے کام جن کے لیے میں آیا ہوں ،وہ رہ جائیں گے-آنے کے بعد جب کہیں جانے لگتاتو آپ سے یہ کہہ کر جاتا کہ اگر ماتھر صاحب کا فون آئے تو کہہ دیں کہ ہاں گورکھپور تو آگئے ہیں،لیکن کہیں پھر چلے گئے ہیں اور بتا کر نہیں گئے ،لیکن آپ ایسا ہر گز نہیں کرتے -آپ بتاتے کہ آگئے ہیں اور اپنے ماموں کے یہاں گئے ہیں-ان کا فون نمبر بھی ماتھر صاحب پوچھ لیتے اور میں پکڑا جاتا-اگر آپ کہتے کہ بازار گئے ہیں تو وہاں کے بڑے بازار گول گھر میں  آدمی کو بھیج دیتے،وہاں گاڑی کھڑی ملتی اور پھر میں ڈھونڈوا لیا جاتا-خیر جب میں آپ سے اس وعدہ خلافی کا شکوہ کرتا تو ہنستے اور کہتے کہ مجھے بات بنانی نہیں آتی-ماتھر صاحب اتنے شریف آدمی ہیں کہ ان کے سامنے غلط کہنا اچھا نہیں لگتا-ماتھر صاحب بھی ملاقات پر ہنس کر کہتے کہ آپ کے خسر صاحب فرشتہ صفت ہیں،میں ان کی بہت قدر کرتا ہوں-
طریقۂ اصلاح:
اصلاح و تربیت میں بھی آپ کا انداز منفرد اور دل نشیں ہوتا-باتوں باتوںمیں بڑی سے بڑی باتوں کی طرف توجہ دلایا کرتے تھے-تربیت و ہدایت کا بھی انداز عجیب اورانوکھاتھا- مریدین سے فرماتے کہ ہم میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے،سب اس دَر کے بھکاری اور غلام ہیں- بس اتنا  فرق ہے کہ ہم کئی پشتوں سے اس کی غلامی اور جاروب کشی کرتے چلے آرہے ہیں اور آپ لوگ اتنے دنوں سے،اس میں بھی کوئی امتیاز اور فضیلت کی بات نہیں ہے-
کمالات و مراتب:
آپ فضائل و مراتب میں بے نظیر تھے- آپ کے شیخ اکثر فرمایا کرتے:
’’ مصطفی تو پیروں کا محبوب ہے ،لیکن ہاشم میرا محبوب ہے ‘‘
یہ حضرت شہود الحق کا اپنا انداز گفتار ہے- ظاہر ہے جو اپنے شیخ کامحبوب و منظور ہوگا،وہ پیروں کا بدرجۂ اولیٰ محبوب ہوگا کہ ’’یکے مقبول بارگاہ از ہمہ مقبول بارگاہ‘‘یعنی جو ایک بارگاہ کا مقبول ہوگا وہ لا محالہ تمام بارگاہوں کا محبوب ہوگا-
   آپ اپنی درویشی کو بہت چھپاتے اور اخفائے احوال پر سختی سے کاربند تھے-
حضرت مفتی عبید الرحمن رشیدی فرماتے ہیں :
’’حضرت ہاشم بابو کو اپنی ولایت و درویشی کو چھپانے کا بڑا ہنر آتا تھا اور کسی کو احساس تک نہیں ہونے دیتے تھے،یہ ان کا بہت بڑا کمال تھا- ‘‘
معمولات و مشاغل:
  معمولات صوفیہ پر سختی سے کاربند تھے، محافل و مجالس قائم فرماتے،گیارہویں شریف ، شب براء ت اور محفل میلاد کی تقاریب سجاتے-علاوہ ازیں شعری و ادبی ذوق کی تسکین کے لیے محفل مشاعرہ بھی منعقدکرتے اوراحباب و رفقا کے ساتھ علمی اور ادبی موشگافیاں کرتے-اپنے بھائی حضرت مصطفی علی شہید کی اچانک شہادت کے بعد ان کی اولاد کی بھی کفالت و پرورش اور تعلیم و تربیت اپنے ذمے لے لی اور حق برادری خوب نبھایا -تمام اولادوں کی اعلیٰ تعلیم دلاکر ان کی شادیاں کرائیںاوراچھی ملازمتیں دلوائیں-گھریلوکام کاج کی ذمہ داری،جائداد و زمین کی حفاظت اوردیکھ بھال،خانقاہی امور میں وقف بورڈ سے ہونے والی خط وکتابت اور دیگرکاموں میں مشورے،ا عراس میں شرکت، مریدین کی دل جوئی اور خانقاہ کی توسیع و ترقی کی فکر غرض کہ ہمہ گیر مصروفیات آپ سے متعلق تھیں جن کو آپ خاموشی کے ساتھ اخیر عمر تک نبھاتے رہے-
شعر و شاعری:
شعر و شاعری کا ذوق آپ کو ورثے میں ملا تھا- والد گرامی حضرت فانیؔ گورکھپوری اپنے عہد کے صاحب طرز شاعر تھے اور بھائی حضرت شہید آنیؔ گورکھپوری کو بھی شعر گوئی سے خاص شغف تھا-آپ کوبھی شاعری ورثے میں ملی تھی-آپ کی شاعری عموماً صوفیانہ رنگ و آہنگ میں ہے- شعر فہمی کا یہ عالم تھا کہ اساتذۂ فن کے کلام پر نقد و تبصرہ کرتے اور فرماتے کہ’’یوں ہوتا تو اور اچھا ہوتا‘‘- آپ کی شاعری متعدد موضوعات خصوصا اخلاق و تصوف اور محبت و انسانیت کے مضامین سے مملو ہے- برجستہ اور بروقت شعر کہنا آپ کی شخصیت کا اہم وصف تھا- طبیعت میں ظرافت بھی تھی اور ذوق مزاح بھی منفردتھا-اپنے اس ذوق کی تسکین شعرکہہ کر بھی فرماتے-
ایک مرتبہ آپ ٹرین سے سفر کر رہے تھے،ساتھ میں امین احمد صاحب بھی تھے- جس ڈبے میں آپ حضرات تھے ،اسی میں دو ایسے لوگ بھی تھے جو شراب پی کر مست تھے اور ایک دوسرے سے دست و گریباںتھے اور ایک دوسرے کو پاگل کہہ رہے تھے-ایک کہہ رہا تھا کہ تم پاگل ہو،دوسرا کہہ رہاتھا کہ تم پاگل ہو- اس پر کافی دیرسے دونوں میں بحث و تکرارہورہی تھی ،اسی دوران آپ کی آنکھ کھل گئی،دیکھتے ہیں کہ بحث و تکرار کا بازار گرم ہے، اپنے رفیق سفر کو اٹھا یا اور برجستہ شعر کہا:
یہی دیوانگی شوق کی ہے آخری منزل
کہ دیوانے کودیوانہ کہے،دیوانہ مستی میں ہے
حضرت جامیؔ کے دستیاب شدہ کلام کوپروفیسرجما ل نصرت صاحب نے ’’ دار فانی سے کامیاب آئے‘‘ کے نام سے شائع کردیا ہے،یہ گوکہ آپ کے کلام کا مکمل احاطہ نہیں ہے تاہم جو بھی ہے، کافی اہمیت کا حامل ہے-اس میں حضرت جامی ؔکے کلام کے ساتھ ان کے کچھ ضروری اور بنیادی احوال بھی شامل ہیں،جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں-پروفیسرجمال نصرت ایک ذی علم اور خلیق انسان ہیں ،حضرت شہید کے داماد اور خود حضرت ہاشم بابو کے خلوت و جلوت کے ہم نشیں، دوست اورراز دار ہیں-انھیں ایک طویل عرصے سے حضرت ہاشم بابو کی رفاقت وصحبت میں رہنے کا موقع بھی ملا ہے-
حضرت سید ہاشم علی جامیؔ گورکھپوری کے چند اشعار بطورنمونہ ذوق قارئین کی نذرہیں:


کائنات ہستی میں کار زار الفت میں
حسن تو حقیقت ہے عشق اک تماشا ہے
بن بلائے ہی ہر دم میرے ساتھ رہتا ہے
آپ کا تصور تو آپ سے بھی اچھا ہے
چھپ گیا کہیں سورج چاند بھی نہیں نکلا
اب تو کچھ کرو یارو کس قدر اندھیرا ہے
—————————
میرے خلوص میری عاجزی کو ترسو گے
رہا نہ میں تو پھر اس دوستی کو ترسوگے
ہمارے بعد بدل جائے گی بہت دنیا
خوشی ملے گی تو،لیکن خوشی کو ترسوگے
مرے وجودسے ہے بزم رندانہ
مرے خمار میری مے کشی کو ترسوگے
تم اجنبی ہی کہو ہم کو بزم میں لیکن
ہمارے بعد اسی اجنبی کو ترسوگے
—————————
ان کی ہر بات پہ راضی بہ رضا ہوجانا
ہم نے جانا ہی نہیں ان سے خفا ہوجانا
مجھ کو فرصت ہی نہیں کہ تجھے بھی دیکھوں
اے مرے درد تو اپنی ہی دوا ہوجانا
راہ الفت میں اور رسم محبت میں اگر
کچھ نہ ہو پائے تو عاشق کی ادا ہو جانا
اور اگر یہ بھی نہ ہو پائے تم سے اے دوست
کسی مفلس کسی بے کس کی دعا ہو جانا
—————————
جامیؔ کی ہر بات بہت خوب ہے لیکن
سنتے ہیں کہ مئے خواری میں بد نام بہت ہے
—————————
مشکلوں  کے دریا میں آفتوں کے میلے ہیں
زندگی کی راہوں میں کس قدر جھمیلے ہیں
کوئی ہم سفر اپنا اور نہ کوئی ساتھی ہے
کل بھی ہوں گے ہم تنہا آج بھی اکیلے ہیں
—————————
آپ کی مست نگاہی کے کرشمے ہیں یہ سب
مفت بد نام کیا جاتا ہے مے خانے کو
سچ بتانا کہ یہ میرا دم آخر تو نہیں
مجھ سے کیوں چھین لیا ہے میرے پیمانے کو
—————————
میں نے ماناکہ تیری بزم کی شمعیں ہیں بہت
وہ مگر میری محبت کا مداوا تو نہیں
حسن کو تیرے فقط حسن کی تصویر کہوں
یہ شکایت مری اک شکوۂ بے جا تو نہیں


حضرت ہاشم بابوکے اوصاف و محاسن کو بیان کرنے کے لیے ایک دفتر درکا ر ہے-خلاصہ یہ ہے کہ آپ علم و عمل ،فضل و کمال ، فقرو درویشی ،اخلاق وانسانیت اورعاجزی و انکساری میں اپنے پیران کرام اورمشائخ رشیدیہ کے اوصاف و کمالات کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھے-عہد تولیت میں خانقاہی املاک و جائداد کا تحفظ فرماکر اپنے پیران کرام اور بزرگان رشیدی کی امانتوں کو ضائع ہونے سے بچایااور تعمیر کے ذریعے اسے بام عروج کو پہنچا دیا-خانقاہ جن پریشانیوں، الجھنوں اور مشکلوں سے دوچارتھی،آپ نے بر وقت ان کا تدارک کر کے اس کی قدیم روایت اور تاریخی عظمت پر حرف نہیں آنے دیا-اپنی خداداد صلاحیت و لیاقت اورحکمت و بصیرت سے خانقاہ رشیدیہ کی ترویج و اشاعت میں نا قابل فراموش خدمات انجام دیں –
وصال پرملال :
اخیر عمر میں آپ پر محویت طاری تھی، ہمہ وقت جذب واستغراق میں رہتے -اگرکوئی آپ کے سامنے آپ کی تعریف و توصیف کرتا توآپ اسے سختی سے منع فرماتے -ستمبر ۱۹۹۹ء میں ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے آپ صاحب فراش ہوگئے ،لکھنؤ میں علاج کے بعدکچھ سال صحت مند رہے، پھر اچانک طبیعت ناساز ہو گئی جو پھر نہ سنبھلی- آخرکار زندگی کی ڈوردار فانی میں یکم جنوری ۲۰۱۱ء کو ٹوٹ گئی اور ۸۳؍سال کی عمرمیں اہل خانہ اور معتقدین کو چھوڑ کر واصل بحق ہوئے-
مزار اقدس :
پہلے آپ کی خواہش جون پور شریف میں تدفین کی تھی ،لیکن اپنی رحلت سے کچھ قبل جب شدید سردی ہو رہی تھی توخود ہی فرمایا تھا کہ مجھے میری والدہ اور بچوں کی والدہ کے ساتھ آبائی جگہ پر دفن کرنا-چناں چہ آپ کے حکم کے مطابق عمل در آمد ہوا-نماز جنازہ حضرت مفتی عبید الرحمن رشیدی صاحب (سجادہ نشین: خانقاہ رشیدیہ) نے پڑھائی اورتدفین خاندانی قبرستان میں عمل میں آئی-

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: