Site icon

قربانی: خورشید حقیقت کا ظل مجاز

✍️ عبدالرحیم ندوی

استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

_______________________

ملت حنیفی کے امام کی امامت و پیشوائی دنیا کے دو تہائی آبادی کے یہاں مسلم ہے، عیسائی ہوں یا یہودی یا مسلمان سبھی کو آپ سے عقیدت ہے کیونکہ حضرت موسیٰ اور عیسی علیہما السلام اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تینوں آپ ہی کی اولاد میں ہیں۔
توحید کے اس علمبردار کی اول تا آخر پوری زندگی قربانیوں سے پُر اور آزمائشوں سے لبریز نظر آتی ہے، چار ہزار سال سے زیادہ مدت گزری جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کلدانیہ کے ملک جو دنیاکے نئے نقشہ میں عراق کہلاتا ہے پیدا ہوئے۔

ساری دنیا اپنے خالق کو بھولی ہوئی تھی، شمس و قمر، شجر و حجر کی عبادت کی جارہی تھی دیوی دیوتاؤں کی پرستش زور شور سے ہو رہی تھی ، نجوم ، فال گیری، غیب گوئی کا بازار گرم تھا، بے جان بتوں سے مرادیں مانگنا ، چڑھاوے چڑھانا اور نذر و نیاز کا چلن عام تھا، خود ابراہیم علیہ السلام کا خاندان نہ صرف بت پرست بلکہ بت گر اور صنم فروش تھا، باپ دادا مندر کے پنڈت ہوتے چلے آرہے تھے، آزر شہر کے بڑے معبد کے پروہت تھے، ابراہیم کی ولادت سے یقینا شہر میں خوشیاں منائی گئی ہوں گی ، بڑے مجاور کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے آگے چل کر اس گدی کا جانشین اور مندر کا پجاری بنے گا اور نہ جانے ابراہیم کے خاندان اور دوسرے لوگوں نے کیا کیا تمنائیں اور آرزوئیں اس بچے سے باندھی ہوں گی؟۔

لیکن ابراہیم کو قلب سلیم عطا کیا گیا تھا، وہ جوں جوں بڑھ رہے تھے اور شعور کی آنکھیں کھول رہے تھے ان کو اپنی قوم اور گھر والوں کی عادات و عقائد سے وحشت بڑھ رہی تھی ،وہ دیکھتے تھے کہ قوم تہذیب و تمدن میں ترقی اور شہر کی پیشوائی کے باوجود اتنی موٹی سی بات نہیں سمجھ پارہی ہے کہ مخلوق جو اپنی حرکات و سکنات میں پابند سلاسل نظر آرہی ہے، یہ کنکر ، پتھر کے بت جسے خود ان کے ہاتھ تراشتے ہیں کیسے عبادت کے لائق اور سجدے کے مستحق ہو سکتے ہیں، آخر ابراہیم نے اپنے دل میں ٹھان لیا کہ وہ ان بتوں کی پوجا ہرگز نہیں کریں گے اور اپنی قوم کو بھی سیدھی راہ دکھائیں گے۔

چنانچہ وہ بطور تمثیل ایک اچھوتے انداز میں چاند، سورج اور ستاروں کو پہلے رب کہہ کر پکارتے ہیں ، پھر ان کی بے بسی اور لاچاری کو بیان کرتے ہیں اور غروب ہوتے دیکھ کر کہتے ہیں”  لَئِنۡ لَّمۡ يَهۡدِنِىۡ رَبِّىۡ لَاَ كُوۡنَنَّ مِنَ الۡقَوۡمِ الضَّآ لِّيۡنَ“(الأنعام 77)اس طرح وہ قوم کی عقل پر پڑے ہوئے دبیز پردہ کو اٹھانا چاہتے تھے کہ وہ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ بھلا یہ چاند جو طلوع ہو کر غروب ہو جاتا ہے، یہ سورج جس کی روشنی ایک خاص وقت تک نظر آتی ہے، پھر چھپ جاتی ہے ،رب کیسے ہو سکتے ہیں؟ لیکن ان کی عقل پر اتناد بیز پردہ تھا کہ وہ اس کو سمجھنے سے قاصر تھے، چنانچہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے”إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ“اور”  إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ“(الأنعام 78-79)کا اعلان کردیا۔

لیکن یہ اعلان معمولی نہ تھا، خاندان، معاشرہ ،ملک ؛بلکہ پوری دنیا میں جو چیز نہ صرف جاری وساری ہو بلکہ اس میں عقیدت بھی شامل ہو تو اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا گویا اپنی ہلاکت کو دعوت دینا تھا، اس لیے کہ آدمی کو اپنا عقیدہ عزیز ہوتا ہے، اگر اس پر آنچ آتی ہے تو تن من دھن کی بازی لگا دینے کو تیار ہو جاتا ہے، یہاں ابراہیم نہ صرف اپنی برأت کا اظہار کر رہے تھے ؛بلکہ قوم کے سامنے ان کے بزرگوں کو ضلالت وگمراہی کا شکار بتارہے تھے” كُنۡتُمۡ اَنۡتُمۡ وَاٰبَآؤُكُمۡ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ“ ( الأنبياء 54) یہ بغاوت آسان کام نہ تھی، اس کے لیے ان کو بڑی قربانی دینی پڑی، اس اعلان کو سن کر باپ نے کہا کہ اگر تم اس حرکت سے باز نہیں آئے تو میں تمہیں عاق کر دوں گا، قوم بھی جانی دشمن بن گئی ، حکومت بھی آپ کے پیچھے پڑگئی ،لیکن وہ ان کی دھمکیوں سے ڈرتے کیا، انہوں نے تو ایک موقعہ پر مندر کے سارے بت توڑ ڈالے اور دکھا دیا کہ یہ بیچارے تو اپنی حفاظت بھی نہیں کر سکتے، تمہارے کیا کام آئیں گے؟۔

یہ منظر دیکھ کر مندر کے پروہت، بتوں کے پجاری بو کھلا اٹھے اور اب ابراہیم کو دربار شاہی میں بطور مجرم پیش کیا جا رہا ہے، ابراہیم تن تنہا پوری قوم کے خلاف پہاڑ کی طرح ڈٹے ہیں، اور ایسا منہ توڑ جواب دے رہے ہیں اور اپنے دعوے کے ثبوت میں ایسا منطقی استدلال کر رہے ہیں کہ ” فَبُهِتَ الَّذِىۡ كَفَرَ‌ؕ “(البقرة 258) کا سماں سامنے آجاتا ہے،”ثُمَّ نُكِسُوۡا عَلٰى رُءُوۡسِهِمۡ‌ۚ“( الأنبياء65) کا منتظران کی تکذیب اورابراہیم کی صداقت کی گواہی دے رہا ہے ،” لَـقَدۡ عَلِمۡتَ مَا هٰٓؤُلَاۤءِ يَنۡطِقُوۡنَ“ ( الأنبياء65) کا اقراران کی ہزیمت اور ابراہیم کی فتح کا اعلان کر رہا ہے، لیکن ہمیشہ کا یہ دستور رہا ہے کہ جب طاقتور دلائل وبراہین کے میدان میں شکست کھا جاتا ہے اور اس سے کوئی جواب نہیں بن پڑتا ہے تو پھر زور بازو سے اپنی بات کو منوانا چاہتا ہے ۔

چنانچہ اس بتکدے کے باغی کو آتش کدے میں جھونکا جارہا ہے، نارنمرود ایسی روشن کی گئی ہے کہ اس کے قریب بھٹکنا بھی دشوار ہے لیکن ابراہیم اس ذات پر ایمان رکھتے ہیں جو اس آگ کی بھی خالق و مالک ہے، اس لیے دل میں گھبراہٹ، نہ پائے ثبات میں ڈگمگاہٹ، باطل خوش ہو رہا ہے کہ ابھی چشم زدن میں ابراہیم جل بھن کر راکھ ہوئے جاتے ہیں اور نور خدا کفر کی اس حرکت پر خندہ زن، ابراہیم بھی زیر لب مسکراہٹ میں مگن، یہ تو حیرت کی انتہا ہوگئی ، ابراہیم تو آگ میں ایسے بیٹھے ہیں جیسے کوئی گل گلزار میں مست خرام ہواؤں کے جھونکوں سے مشام جاں کو معطر کر رہا ہو ، قوم ورطۂ حیرت میں غوط زن ہے کہ ابراہیم کے ساتھ کرے تو کیا کرے؟ ۔

اب توحید کے متوالے کو جلا وطن ہونا پڑ رہا ہے، اپنی بیوی کو ساتھ لیکر شہر شہر، ملک ملک پھرتے ہیں، خدا ہی جانتا ہے اس غریب الدیار مسافر پر اس صحراء پیائی میں کیا گزری کن دشوار گزار گھاٹیوں سے اسے گزرنا پڑا، لیکن جس نے صدق دل سے”اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ“ ( البقرة 131)کا عہد و بیان کیا تھا، جس نے ایک رب کی خاطر صدیوں کے آبائی مذہب اور رسم ورواج کو چھوڑا تھا، جس نے دنیاوی فائدوں اور عہد و منصب کو تاراج، جس نے عزت اور آؤ بھگت کے مواقع کو خیر آباد کہا تھا، اس کے سامنے تو صرف ایک ہی دھن تھی ، اللہ کے دین کی تبلیغ اور توحید خالص کا پر چار، یہی اس کا مشن یہی اس کی آرزؤں کا نشیمن، اسی کے لیے جینا، اسی کے لیے مرنا، اس کے لیے ہر امتحان دینے کو تیار اور ہر آزمائش میں کود پڑنے کے لیے آمادہ۔

بہر حال وقت گزرتا گیا ابراہیم آزمائش کی بھٹی میں جلتے رہے، نکھرتے رہے، ہر امتحان میں کامیاب ہوتے رہے، ہر آزمائش میں پورے اترتے رہے لیکن ابھی ایک آزمائش باقی تھی اور سب سے کڑی آزمائش، ایک امتحان باقی تھا اور سب سے سخت امتحان ، وہ امتحان یہ تھا کہ چوراسی (۸۴) سال کی عمر میں جب اولاد سے مایوس ہو چکتے ہیں ، بیوی ہاجرہ کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوتا ہے، کچھ روز بعد ہجرت کا حکم ملتا ہے ،سرزمین شام سے مصر ہوتے ہوئے حجاز کی خشک اور پتھر یلی وادی میں پہونچتے ہیں ،علاقہ ویران، پانی کا نام نہ نشان، سبزہ کی جگہ ہر طرف ریگستان، نیچے تپتی ہوئی زمین ، او پر دہکتا ہوا آسمان، حکم ہوا اسی بے آب و گیاہ وادی میں اپنی کمزور د نا تواں بیوی اور طفل شیر خوار کو اللہ کے بھروسہ پر چھوڑ کر یہاں سے چلے جائیں، اور اس طرح کہ راضی بہ رضا ہوں، نہ جزع ہو نہ فزع ، نہ ڈر اور گھبراہٹ ، نہ بے دلی و اکتاہٹ ، نہ عزیمت میں کمزوری ،نہ وعدہ الہی میں شک؛ بلکہ طبعی اسباب کے خلاف بغاوت ، حکم کا بنده جنبش آبرو کا غلام، حکم کی تعمیل کرتا ہے، جانے کے بعد وہ سب کچھ پیش آتا ہے جن کا اندیشہ تھا، بچہ پیاس سے بیتاب ، ماں کی مامتا کا جوش لاجواب، خطرات کا احساس، پانی کی تلاش، لیکن پانی نایاب، اور دو کے علاوہ آدمی نہ آدم زاد، بیچاری ماں جوش محبت سے بے قرار، پانی کی جستجو میں پہاڑوں کا چکرلگانے پر مجبور، اضطراب و پریشانی ضرور ہے لیکن یاس و قنوطیت سے دل دور ہے اور اعتماد و توکل سے قلب معمور ، شاید چشم فلک نے ایسا منظر کبھی نہ دیکھا ہو۔

رحمت الہی جوش میں آتی ہے ،معجزانہ چشمہ حیواں پھوٹ پڑتا ہے،یہی وہ مبارک چشمہ ہے جسے دنیا بئر زمزم کے نام سے جانتی ہے جس سے سارا عالم فیضیاب اور سیراب ہو رہا ہے، اس طرح زندگی کا سامان مہیا ہوتا جاتا ہے، بچہ بڑھتا ہے، کچھ سیانا ہوتا ہے، باپ کے ساتھ اندر باہر جانے کے لائق ہوتا ہے، فطرتاًباپ کو اس سے لگاؤ اور اس کی طرف دل کا جھکاؤ ہوتا ہے، اس کو دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک اور قلب کو سرور میسر ہوتا ہے، اس کو دل کا تارا، بڑھاپے کا سہارا، تصور کرنے لگتے ہیں لیکن یہی سب سے بڑی مشکل ہے، اس لیے کہ وہ اللہ کے خلیل ہیں، انکا دل صرف اللہ کی خالص محبت کے لیےمخصوص ہے، اور محبت کو شرکت گوارہ نہیں ہے، لہذا حکم ہوتا ہے کہ اس نور نظر ، لخت جگر کو میری محبت پر قربان کردو، نیند سے بیدار ہو کر بیٹے سے مشورہ کرتے ہیں، چشم فلک نے کب ایسا منظر دیکھا ہو گا ؟ کہ ایک باپ بیٹے کو ذبح کرنے کا مشورہ خود اسی سے کر رہا ہو لیکن بیٹا بھی کیسا ! غایت درجہ سعادت و نجابت اور امر الہی کے سامنے تسلیم و رضا کا پیکر ہے، فوراً آمادہ ہو جاتا ہے، اور ایسا کیوں نہ ہوتا ؟ وہ خود نبی تھا، نبی کا بیٹا نبی کا دادا تھا مشورہ دیتا ہے، ابا ! آنکھوں پر پٹی باندھ لیجئے، مبادا میری صورت دیکھ کر کہیں آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آجائے ، اور آپ اس امتحان میں نا کام ہو جائیں۔ ع ”سکھایا کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی“
قَالَ يٰبُنَىَّ اِنِّىۡۤ اَرٰى فِى الۡمَنَامِ اَنِّىۡۤ اَذۡبَحُكَ فَانْظُرۡ مَاذَا تَرٰى‌ؕ قَالَ يٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ‌ سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيۡنَ“ ( الصافات 102)

اب وہ لمحہ آتا ہے جس کو دیکھ کر فرشتے بھی مضطرب ہیں اور جن و بشر بھی حیران و ششد ر،اپنے لخت جگر کو باپ زمین پر لٹاتا ہے، اور دل پر نہ جانے پتھر کی کون سی سل رکھ کر حلقوم اسماعیل پر چھری چلاتا ہے، اس منظر کو دیکھ کر زمین بھی کانپ جاتی ہے، اور آسمان بھی تھرا جاتا ہے، اور اس نذرانہ محبت کے سامنے محبت کی ساری داستانیں ہیچ اور عشق و سرمستی کی کہانیاں جھوٹی ثابت ہوتی ہیں لیکن مشیت ایزدی کچھ اور ہی تھی، بیٹے کی جگہ جنت کے مینڈھے نے لے لی اور اسماعیل علیہ السلام ”وَفَدَيۡنٰهُ بِذِبۡحٍ عَظِيۡمٍ “ (الصافات107)سے زندہ جاوید بنا دیے جاتے ہیں۔

اس لیے کہ مقصود حضرت اسماعیلؑ کا ذبح کرنا نہ تھا؛ بلکہ اس محبت کو ذبح کرنا تھا جو اللہ کی محبت میں شریک اور رقیب بنی دکھائی دے رہی تھی ، محض خون اور گوشت کی قربانی نہیں تھی؛ بلکہ روح اور دل کی قربانی تھی، یہ ماسوی اللہ اور غیر کی محبت کی قربانی خدا کی راہ میں تھی ، یہ اپنے عزیز ترین متاع کو خدا کے سامنے پیش کر دینے کی نذر تھی، یہ خدا کی اطاعت، عبودیت اور کامل بندگی کا بے مثال منظر تھا، یہ تسلیم ورضا اور صبر و شکر کا وہ امتحان تھا جس کو پورا کئے بغیر دنیا کی پیشوائی اور آخرت کی نیکی نہیں مل سکتی، یہ باپ کا اپنے اکلوتے بیٹے کے خون سے زمین کو رنگین کر دینا نہ تھا ؛بلکہ خدا کے سامنے اپنے تمام جذبات اور خواہشوں، تمناؤں اور آرزؤوں کی قربانی تھی، دراصل آج کے جانوروں کی قربانیاں اسی ذبح عظیم کی یادگار ہیں، اور اس اندرونی نقش کا ظاہری عکس اور اس خورشید حقیقت کا ظل مجاز ہیں، ایک مسلمان”قُلۡ اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ“ ( الأنعام 162) کا زبان سے اقرار کرتا ہوا جانور کی گردن پر چھری پھیر کر اس بات کی تمثیل پیش کرتا ہے کہ اللہ کی محبت اور اس کے حکم کے سامنے وہ اپنی ہر متاع عزیز کو قربان حتی کہ اللہ کے راستے میں جان کا نذرانہ بھی پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے، اگر یہ جذبہ نہیں ہے تو پھر قربانی، قربانی نہیں بلکہ صرف ایک مظہر ہے جس کی اللہ کی نظر میں کوئی قیمت نہیں ”لَنۡ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُـوۡمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـكِنۡ يَّنَالُهُ التَّقۡوٰى مِنۡكُمۡ‌ؕ “( الحج37)۔★★★

Exit mobile version