✍️ محمدغفران شراوستی
متعلم : دارالعلوم وقف دیوبند
______________________
اللہ سبحانہ وتعالی کے نزدیک جو افعال انتہائی ناپسندیدہ اور مبغوض ترین ہیں ان میں سے ایک ” کسی بندے کا تکبر اور کبریائی کا مظاہرہ کرنا ہے،، ۔
تکبر علم کا ہو یا حسن وجمال کا، مال ودولت کا ہو یا عہدہ ومنصب کا ، کامیابی وکامرانی کا ہو یا حسب ونسب کا ، طاقت وقوت کا ہو یا پھر اثر ورسوخ کا سب ناجائز و حرام ہے ؛ کیونکہ تکبر خداوند قدوس کی قدرتی جاگیر ہے جو اسی کے لیے مخصوص ہے اور اسی کے لیے زیب ہے، کسی کو ذرہ برابر بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خدا کی اس مخصوص جاگیر میں اپنی انانیت اورتعلی کے شامیانے گاڑے۔
بالفاظِ دیگر تکبر خداوند قدوس کی ایک مخصوص صفت ہے جیسا کہ اللہ رب العزت نے خود فرمایا ہے ، العزیز الجبار المتکبر ۔
جس طرح خدا کی ذات میں کسی کے لیے پر مارنے کی گنجائش نہیں ہے اسی طرح اس کی صفات میں بھی کسی کو ادنی سی دخل اندازی کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے، اگر کوئی ان میں وقتی طور پر بھی رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا انجام بجز خائب وخاسر ہونے کے کچھ نہیں ہوتا ہے ۔
تاریخ کے سیکڑوں واقعات اس بات کی شہادت کے لیے کافی اور شافی ہیں کہ جب جب کسی نے خداوند قدوس کی اس دھرتی پر خدا کی کبریائی کی چادر نوچنے کی سعئی لاحاصل کرکے ریا ونمود کرکے اپنی ناک اونچی کرنے کی کوشش کی ہے تب تب ذلت ورسوائی اس کا مقدر بنی ہے،
جب جب کسی نے انانیت اور لاغیری کی زد میں آکر قولی اورعملی طور پر ” ہمچنیں ڈنگرے نیست ،، کا مظاہرہ کیا ہے تب تب اس کو منہ کی کھانی پڑی ہے خواہ فرعون وشداد ہو یاقارون وہامان، کوئی ان پڑھ ہو یا کوئی علمی بندہ، کوئی سرکار ہو یا پھر کوئی ملازم، (انانیت اور لاغیری نے ہی حالیہ دنوں س ر ک ا ر کا بری طرح سے منھ نوچا ہے) ۔
خلاصہ یہ کہ اللہ رب العزت کے نزدیک وہ شخص انتہائی لعین اور مبغوض ہے جو تکبر کرتا ہے خواہ علم وعمل پر تکبر کرے یا قدرت ومنصب پر یا پھر کسی اور چیز پر، ابلیس کے واقعے سے یہ بخوبی واضح ہے کہ تکبر کے سبب برسوں کا مقبول ترین بندہ چشمِ زدن میں مردود ترین بن جاتا ہے (اعاذنا اللہ منہ) ۔
متکبر آدمی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ایک وہ ذرہ ملنے پر ہی خود کو سب سے بڑا سمجھنے لگتا ہے، فوراََ اکڑپن اورگردن نمائی کا گرفتار ہوجاتا ہے، خود کو سب سے مستغنی اور دوسروں کو محتاج گرداننے لگتا ہے جب کہ ایک مخلص اور متواضع انسان ہمیشہ خود کو فقیر اور دوسروں کو امیرسمجھتا ہے، وہ فیض تو پہنچاتا ہے ہی ساتھ ساتھ ظاہراً اور باطناً تواضع وانکساری کا نمایاں کردار بھی ادا کرتا رہتا ہے ۔ ع
تواضع کا طریقہ صاحبو پوچھو صراحی سے
کہ جاری فیض بھی ہے اور جھکی جاتی ہے گردن بھی۔
قارئینِ کرام ! اخیر میں عرض ہے کہ ہم سب کا یہ لازمی فریضہ بنتا ہے کہ وقتی طور پر جذبات میں آ کر اپنے آپ کو اس موذی مرض کا مریض نہ بنایا جائے ؛ بلکہ اپنے اثر ورسوخ، قوت وسلطنت ، اپنی دولت وسرمائے ، اپنی تمام تر صلاحیت وقابلیت خاص کر علمی وعملی لیاقت اور شُد بُد کو خلوص وللہیت سے سرشار ہوکر من جانب اللہ سمجھتے ہوئے ہمہ وقت خدائے بلند وبرتر کا حامد اور شاکر رہا جائے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ احقر اپنے ذاتی نوساختہ کلام کے چند اشعار یہاں قلمبند کردے
مہر وفا ، خُلوص میں رہ کر صدا چلے
بخشے خدا عُروج تو جُھک کر ذرا چلے
شہرت اور عز و جاہ و اَنا کے خُمار میں
جائز نہیں کسی کو کہ گردن نُما چلے ۔
اگر کوئی متکبر، انا پسند، حسد اور خودنمائی کا ڈسا شخص ” ہوا ،، کی شکل میں آکر آپ کے خلوص و وفا کے چراغ کو بجھانے کی کوشش کرے تو استعانت باللہ کی قوت حاصل کرکے اسے ہوش میں رہنے کی تلقین کرتے رہیں، اسی مفہوم کو راقم الحروف نے اپنے مذکورہ کلام کے ایک شعر میں کچھ اس طرح سے کہنے کی کوشش کی ہے
ہم نے بصد خلوص جلائے ہیں چند دیپ
اعلان کردو جاکے سنبھل کر ہوا چلے
اللہ رب العزت ہم سب کو اس مرض سے محفوظ رکھے اور اپنا محبوب و مقبول بنائے۔ آمین یارب العالمین بفضلہ المخصوص وبجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ وصحبہ وتبعہم وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا