۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

فلکیات اور میڈیکل سائنس میں مسلمانوں کی خدمات (2)

✍️ محمد قمر الزماں ندوی

استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

___________________

اسلام میں اصلا علم کی بنیادی طور پر دو ہی قسمیں کی گئی ہیں ،علم نافع یا علم غیر نافع ، علم نافع مطلوب و محمود ہے، اس کے حصول پر زور دیا گیا ہے ،دوسری قسم ہے علم غیر نافع ،اس سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ علم نافع سے وہ علم مراد ہے، جو اِنسانیت کے لیے دنیا یا آخرت کے اعتبار سے فائدہ مند و نفع بخش ہو اور غیر نافع وہ علم ہے ،جو دین یا دنیا کے اعتبار سے بے فائدہ یا نقصان دہ ہو ۔
  علم نافع کی فہرست میں علم سائنس و ٹیکنالوجی، علم طب اور میڈیکل سائنس بھی ہے ،کیونکہ اس سے انسان کی زندگی جڑی ہوئی ہے اور یہ خدمت خلق کا بھی بہترین ذریعہ ہے ، دوسری بات یہ کہ کوئی انسان اس ضرورت سے بری اور مستغنی نہیں ، ہر ایک کو اس سے سابقہ پڑتا ہے ۔ سائنس ہو یا میڈیکل سائنس دونوں میدانوں میں جیسا کہ میں نے بتایا مسلم سائنسدانوں اور ماہرین مسلم اطباء کی خدمات نمایاں اور روشن ہیں ۔
یاد رہے کہ مسلم اطباء اور مسلم سائنسدانوں کی تاریخ بہت وسیع اور شاندار ہے، جنہوں نے مختلف علوم میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں چند معروف مسلم اطباء و سائنسدانوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے:

فلکیات اور میڈیکل سائنس میں ہماری خدمات (قسط 1)

1. ابن سینا (Avicenna):
     ابن سینا (980-1037) کو "شیخ الرئیس” بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے طب، فلسفہ، اور علم نفسیات میں بہت سی اہم کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی کتاب "القانون فی الطب” کئی صدیوں تک طب کی معیاری کتاب رہی۔  بو علی سینا یہ وہ نام ہے، جن کے نام پر دنیاء طب کے بڑے بڑے اصحاب تحقیق اور ماہرینِ فن کی گردن اعتراف بھی خم ہوجاتی ہے ۔  شیخ بو علی سینا سو سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں ،جن میں اکثر کتابیں یورپین زبانوں میں منتقل ہوچکی ہیں ،شیخ کو دنیا کی عظیم باکمال شخصیتوں میں شمار کیا گیا ہے ، طبیعیات ،حیاتیات ،تشریح الاعضاء منافع اعضاء نیز علم العلاج اور علم الامراض و علم الادویہ کا عظیم ماہر اور محقق سمجھا جاتا ہے ۔شیخ بو علی سینا علم النفس کے موجد تھے ،انہوں نے اعضاء جسمانی اعضاء مفرد اور اعضاء مرکبہ کی حیثیت سے جو تقسیم کی ہے، وہی آج تک قائم ہے ۔شیخ نے روشنی کی رفتار پر بھی تحقیق کی ہے ،شیخ کی مشہور کتاب ،، القانون ،، صدیوں یورپ کی طبی درس گاہوں میں داخل نصاب رہی ہے ،اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے، کہ لاطینی زبان میں پندرہویں صدی میں سولہ بار اور سولہویں صدی میں بیس بار اس کا ترجمہ ہوچکا ہے ۔۔ 1930ء میں اس کا انگریزی ترجمہ ہوا ہے ،یہ کتاب پانچ جلدوں میں ہے ۔تشریح اعضاء ،منافع اعضاء اور علم العلاج اس کا موضوع ہے ۔ڈاکٹر ہوٹن نے جرمن زبان میں شیخ کی کتاب ،، الشفا ،،کا ترجمہ کیا ہے ۔اور ساتھ ہی اس کی شرح لکھی ہے ۔ (مستفاد از کتاب دینی و عصری تعلیم مسائل اور حل)

2. الخوارزمی:
    محمد بن موسیٰ الخوارزمی (780-850) ریاضی، فلکیات، اور جغرافیہ میں معروف ہیں۔ انہوں نے الجبرا کو ایک الگ علم کی حیثیت دی اور ان کی کتاب "کتاب الحساب” الجبرا کی بنیاد بنی۔

3. الکندی:
     یعقوب بن اسحاق الکندی (801-873) کو "عربی فلسفہ کا باپ” کہا جاتا ہے۔ انہوں نے فلسفہ، ریاضی، طب، اور موسیقی پر کئی کتابیں لکھیں۔

4. ابن الہیشم:
     حسن ابن الہیشم (965-1040) کو جدید بصریات کا بانی کہا جاتا ہے۔ ان کی کتاب "کتاب المناظر” نے روشنی اور بصریات کے متعلق بنیادی نظریات فراہم کیے۔

5. البیرونی:
    ابوریحان البیرونی (973-1048) فلکیات، ریاضی، ارضیات، اور جغرافیہ کے ماہر تھے۔ انہوں نے مختلف علوم پر 146 سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں۔

6. ابن رشد (Averroes):
    ابن رشد (1126-1198) فلسفہ، طب، اور فقہ میں مشہور ہیں۔ انہوں نے ارسطو کی فلسفیانہ کتابوں کے ترجمے اور تشریح کی, جس نے یورپ میں علم کے پھیلاؤ میں مدد دی۔

7. الرازی (Rhazes):
    امام ابو بکر محمد بن زکریا الرازی (865-925) طب، کیمیا، اور فلسفہ میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ان کی کتاب "الحاوی” طب کی ایک اہم دستاویز تھی۔  1930ء میں پیرس میں رازی کی ہزار سالہ برسی بڑے اہتمام سے منائی گئی تھی اور بین الاقوامی طبی کانگریس کے اجلاس لندن منعقدہ 1913ء میں رازی اور فن طب کو ایک اہم موضوع کی حیثیت سے شریک رکھا گیا تھا،اور ان کو فن طب کا امام تسلیم کیا گیا۔ طب کے میدان میں رازی کی خدمات بہت وسیع ہیں ،فرسٹ ایڈ کا طریقہ رازی ہی کی ایجاد ہے ۔اس نے جڑی بوٹیوں پر بہت تجربات کیے ہیں، وہ علم طبیعیات کا بھی بہت ماہر تھا ۔اسی نے نامیاتی و غیر نامیاتی کیمیا کی تقسیم کی ہے ۔ دواؤں کے صحیح صحیح وزن کے لئے میزان طبعی ایجاد کی، جراحی کے لئے نشتر اسی نے بنایا ،الکحل جو آج ایک کثیر المقاصد محلول ہے ،رازی ہی اس کا موجد ہے ۔رازی کا سب سے بڑا کارنامہ چیچک کے بارے میں اس کی تحقیقات ہیں ۔اس نے چیچک پر تحقیق کی ،اس کے اسباب و عوامل دریافت کئے ۔احتیاط و علاج کا طریقہ بتایا ، اور اس مرض کے بارے میں اپنی تحقیقات کو کتابی شکل میں مرتب کیا، جو چیچک کے موضوع پر دنیا کی پہلی کتاب ہے ، یہ کتاب مدتوں یورپ کے میڈکل کالجوں میں داخل نصاب رہی ۔۔ اس کے علاوہ الحاوی ،المصوری اور متعدد کتابیں رازی کے قلم کی رہین منت ہیں اور اکثر کتابوں کا یورپین زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ (حوالہ سابق)
  علی بن عیسئ:
امراض چشم کے ماہرین میں ایک نہایت اہم نام علی بن عیسیٰ 441ھج -1031ء کا ہے ۔عمار موصلی کے بعد یہ دوسرے ماہر امراض چشم ہیں ،علی بن عیسیٰ نے امراض چشم سے متعلق تین جلدوں میں نہایت مفصل کتاب تذکرۃ الکحلین لکھی ہے، جو گویا اس موضوع پر انسائیکلوپیڈیا ہے ۔اس کتاب میں آنکھ سے متعلق 130بیماریوں کا ذکر آیا ہے ۔نیز آنکھوں کے لئے مفید 143/ مفرد دواؤں کے نام کی خصوصیات اس کتاب میں مذکور ہیں ۔1499ء میں اٹالین 1903ء میں فرانسیسی اور 1904ء میں جرمنی زبان میں اس کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے اور بڑے بڑے اہل فن اور اہل کمال نے مصنف کی مہارت تامہ، عبقریت اور کتاب کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے ۔
    ابو القاسم الزہراوی:
طب کی تاریخ میں ایک بہت اہم اور نمایاں اور عظیم الشان نام وہ ہے، جسے میڈیکل سائنس کی تاریخ ابو القاسم زہراوی ( 395ہج 1009ء)کے نام سے یاد کرتی ہے اور اس کے سامنے جبین عقیدت خم کرتی ہے ۔ یہ تاریخ طب کا بہلا سرجن ہے ، جس نے آپریشن کے فن کو مرتب کیا ،اس کے آلات بنائے اور ایک سو سے زیادہ آلات سرجری ایجاد کئے ،موتیا بند اور ٹونسل کا آپریش کیا ،آپریشن کے ذریعہ ہڈیوں کو جوڑا ،جسم کے اندرونی حصہ میں آپریشن کے نازک طریقے ایجاد کئے ،حلق ،سر، گردہ، پیٹ اور آنکھوں کے آپریشن کا طریقہ بتایا ۔مریض کو بے ہوش کرنے کے سلسلہ میں مناسب دواؤں کی رہنمائی کی ،کینسر کے مرض کی خاص تحقیق کی اور بتایا کہ کینسر کے پھوڑے یا زخم کو چھیڑنا نہیں چاہیے ۔ سرجری کی دنیا میں اس کے کارنامے ناقابل فراموش ہیں ،مغربی مصنفین کو بھی اس کا کما حقہ اعتراف ہے ۔زہراوی نے اپنے تجربات کو ڈائری کی صورت میں لکھنے کا اہتمام کیا ،یہ ڈائری ،، تصریف،، کے نام سے موسوم ہے اور سرجری کے فن میں نہایت عمدہ اور اعلیٰ کتاب مانی جاتی ہے ۔ ( مستفاد از کتاب دینی و عصری تعلیم مسائل اور حل ص، 182)
(جاری)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: